’’خبرکے مطابق لاہور کا رہائشی محمد خلیل اپنے خاندان اور ایک دوست کے ساتھ بورے والا جاتے ہوئے ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب پولیس کی گولیوں سے…!!‘‘
کوئی بیچ میں بات کاٹ کر کہتا ہے: ’’خبر کی سب کو خبر ہے۔ مجھے کہانی سناؤ! سناؤ کہ اس دن خلیل کی شریک حیات نبیلا نے کس رنگ کے کپڑے پہنے تھے۔ وہ کپڑے جو اس کے خون میں سرخ ہو گئے۔ بتاؤ کے اس دن محمد خلیل کی بڑی بیٹی اریبہ نے اپنے بال ماں سے کس طرح بنوائے تھے؟ اس نے ایک گت بنوائی تھی یا دو؟ بتاؤ کہ بچوں نے کس رنگ کے کپڑے پہنے تھے؟ بتاؤ کہ اس منحوس دن کے حوالے سے خاندان میں کسی نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا تھا؟ بتاؤ کہ سفر کے آغاز میں کوئی ایسی بات تو نہیں ہوئی تھی جس کو برا شگون مانا جائے؟ بتاؤ کہ جس وقت کار ساہیوال کے قریب پہنچی، اس وقت ہوا میں کتنی سردی تھی؟ بتاؤ کہ پہلی گولی کس کو لگی؟ بتاؤ کہ پہلی چیخ کس کی تھی؟ ماں کی یا بچوں کی؟ بتاؤ کہ بندوق سے نکلنے والی گولی کتنی گرم ہوتی ہے؟ بتاؤ کہ گولی کا بور کیا تھا؟ بتاؤ کہ الٹو کار پر کتنی دیر فائرنگ ہوتی رہی؟ بتاؤ کہ بندوقوں اور مقتولوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ بتاؤ کہ جب پولیس نے کار کے دروازے کھولے، اس وقت بچے مردہ ماں سے کس طرح چمٹے ہوئے تھے؟ بتاؤ کہ بچے کس قدر سہمے ہوئے تھے؟ بتاؤ کہ بچوں کو پولیس کے ہاتھوں نے مردہ ماں کی لاش سے کس طرح دور کیا؟ بتاؤ کہ کیا مرنے کے بعد پریشان ماں کی آنکھیں کھلی تھیں؟
سینکڑوں سوالات ایک مکمل سچی کہانی میں سما سکتے ہیں۔ وہ کہانی اس قوم کو ان بچوں کی زبانی سنائی جائے، جو بچے گولیوں کی بوچھاڑ میں اچانک اتفاق سے نہیں بچے، بلکہ ان کے حصے کی گولیاں ماں نے اپنے جسم پہ لے لیں۔ وہ گولیاں ان بچوں کو بھی موت کی نیند سلا دیتیں، مگر ماں بچوں کے آگے ڈھال بن گئی اور وہ بچے بچ گئے، جن بچوں کے پاس پوری کہانی ہے۔
وہ بچے قوم کے آگے پوری کہانی بیان کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بچے جن کو اس ریاست کے اہلکاروں نے یتیم کر دیا، جو ریاست ماں سمجھی جاتی ہے۔ وہ یتیم بچے اپنے اجڑے ہوئے گھر کی پوری کہانی بیان کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بچے بتانا چاہتے ہیں کہ ان کا گھر چھوٹا تھا، مگر خوبصورت تھا۔ ان کے گھر میں بلی کے بچے آتے تھے ۔ اپنے بچوں کو تلاش کے لیے میاؤں میاؤں کرتی بلی آتی تھی۔ اس گھر میں چھوٹا سا آنگن بھی تھا۔ اس آنگن میں بارش بھی ہوتی تھی۔ اس بارش میں بچے بھیگتے تھے۔ بھیگتے ہوئے بچوں کو ان کی ماں زور زور سے چیخ کر کہتی تھی ’’اب اندر آجاؤ، سردی لگ جائے گی۔ آجاؤ، ورنہ میں تمہارے پاپا کو فون کرتی ہوں۔‘‘ وہ پاپا اب گولیوں سے چھلنی ہو چکے ہیں۔ وہ ماں اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی ہے۔ اب وہ ماں کبھی نہیں بولے گی۔ بھلے بچے سردی میں ٹھٹھرتے رہیں۔ بھلے بارش میں بھیگتے رہیں۔ ایک بلی بھی اپنے بچوں کو تلاش کرنے آتی ہے، مگر ایک مردہ ماں قبر کی قید سے کس طرح نکل سکتی ہے؟
وہ والد جو بڑے ہوتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔ وہ والد جس کی آنکھوں میں اپنی اولاد کے لیے اولاد جیسے خوبصورت خواب تھے۔ ان خوابوں والی آنکھوں کو گولیوں نے بند کر دیا۔ وہ شخص جس کی کریانہ کا چھوٹی سی دکان تھا۔ وہ شخص جو فخر سے کہتا تھا کہ اس نے اپنی اولاد کو ایمانداری سے پالا ہے۔ وہ شخص جس کا خیال تھا کہ اس نے جو خوشیاں نہیں دیکھیں، وہ خوشیاں ان کے بچے دیکھیں گے۔ وہ والد اپنے چھوٹے سے خاندان کے ساتھ جب گولیوں سے چھلنی ہو رہا تھا، اس وقت اس کو معلوم نہیں ہوگا کہ اس کے دو بچے ظلم کی کہانی بیان کرنے کے لیے بچ گئے ہیں۔ اس نے تو یہ سمجھا کہ اس کا پورا خاندان قبرستان کا باسی بن رہا ہے۔
وہ ایک چھوٹی سی دنیا تھی۔ وہ چھوٹی سی دنیا اجاڑ دی گئی۔ اس مختصر مگر خوبصورت دنیا کے ساتھ بھیانک بے انصافی ہوئی۔ وہ بھی تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں۔ وہ جماعت جو مدینے جیسی ریاست بنانے کے دعوے کرتی تھی، آج دیکھے کہ راستوں پر خون کس طرح بہہ رہا ہے؟ کس طرح گھر اجڑ رہے ہیں؟ کس طرح بچوں کی آغوش میں ماں قتل ہو جاتی ہے؟ کس طرح باپ اپنے خاندان کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے گولیوں سے چھلنی ہو جاتا ہے؟ کس طرح وردی والے قاتل ماں باپ اور بہن کی لاشوں سے چمٹے ہوئے بچوں کو اس طرح کھینچ کر الگ کرتے ہیں، جس طرح جسم سے روح الگ کی جاتی ہے۔ وہ روتے اور بلکتے ہوئے بچے جن کے ہاتھوں پر زخم تھے۔ جن کے چہرے پر ماں کے خون کے دھبے تھے۔ جن کے کپڑے خاندان کے خون میں تر تھے۔ ان بچوں کو بے سہارا بچوں کی طرح ایک پیٹرول پمپ پر چھوڑا گیا۔ وہ بچے جو ہر شخص کی طرف دیکھ کر بلکتے اور اسے کہتے ’’انکل! ہمیں پاپا اور امی سے ملنا ہے۔ ہمیں پاپا اور امی کے پاس لے جاؤ۔‘‘ مگر ان کے پاپا اور ان کی امی اسپتال کے پوسٹ مارٹم روم کے سیمنٹ پر لیٹے ہوئے تھے۔ ان پر ڈالی ہوئی سفید چادر سرخ ہو چکی تھی۔ ان کے قریب ان کی سولہ برس کی بیٹی بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سو چکی تھی۔ نہیں۔ سلائی گئی تھی۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ ان کے قریب رکھی ہوئی تھی انکل مولوی کی ڈیڈ باڈی۔ جو یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اس کو اس کے دوست اور اس کے خاندان کے ساتھ آخر کس جرم میں قتل کیا گیا؟ وہ بچے اپنے خاندان کے اجڑنے کی کہانی بتاتے درمیاں میں یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ آخر ان کے والدین اور ان کی پیاری سی بہن کو کس جرم میں قتل کیا گیا؟
پنجاب کی پولیس نے سرعام ایک خاندان کو معصوم بچوںکے ساتھ مقتل میں اس دن قتل کیا تھا، جس دن ملک کو نیا چیف جسٹس ملا۔ ابھی ایک دن بھی نہیں ہوا تھا۔ وہ نئے منصف کا پہلا دن تھا۔ اس دن ساہیوال کی ہواؤں میں ایک مظلوم خاندان کی آہیں اس طرح گونج اٹھیں، جس طرح ایک پرندے کے قتل پر پورے جنگل شور سے بھر جاتا ہے۔ وہ خاندان اپنے خون میں ڈبویا گیا سرعام اور ٹریفک سے رواں دواں سڑک پر۔ لوگ دیکھتے رہے ایک سفید کار سے قطرہ قطرہ ٹپکتا ہوا سرخ خون۔ اس گاڑی میں پڑی ہوئی چار خاموش لاشیں۔ ان لاشوں کے قریب کھڑے ہوئے وردی اور بندوق والے وہ پولیس اہلکار جن کی وردی کا رنگ تو تبدیل ہوا ہے، مگر ان کی بے دردی کا ڈھنگ تبدیل نہیں ہوا۔ ان پولیس اہلکاروں نے غلطی سے ایک گھر کو اجاڑا یا جان بوجھ کر انہوں نے گناہ کیا، کچھ بھی ہوا، مگر کیا یہ اس ملک کا پہلا واقعہ ہے؟
ابھی کراچی میں قتل ہونے والے نقیب اللہ کی پہلی برسی آئی اور خاموشی سے گزر گئی۔ کس نے سڑک پر ٹائر تو کیا، کسی نے پریس کلب کے سامنے سستی اور پتلی موم بتی بھی نہیں جلائی۔ میڈیا نے اس بارے میں خبر دی اور پولیس والوں کو پورے ملک میں محسوس ہوا کہ ان کے وردی پر لگنے والا خون تھوڑے وقت کے بعد کسی کو نظر نہیں آتا۔ قانون کو بھی نہیں۔ انصاف کو بھی نہیں۔ کیا پولیس کی وردی اس کاغذ سے بنتی ہے؟ جو سیاہی کو فوری جذب کر لیتا ہے!!
پوری دنیا میں پولیس کو دیکھ کر تحفظ کا احساس ہوتا ہے، مگر اس ملک میں پولیس کو دیکھ کر عدم تحفظ کا احساس ابھرتا ہے۔ وہ پولیس جس کا فرض مدد کرنا ہے۔ جس کا کام تحفظ فراہم کرنا ہے۔ جس کو اس لیے وردی پہنائی گئی ہے کہ وہ معاشرے کی محافظ بنے۔ جب وہ پولیس بے گناہوں کو قتل کرتی ہے۔ جب وہ پولیس عوام کو تحفظ دینے کے لیے دی گئی گولیوں سے عوام کو نشانہ بناتی ہے۔ اس وقت صرف ایک حکومت نہیں، بلکہ پوری ریاست ایک چیخ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ وہ چیخ جو کار میں سوار محمد خلیل کی اہلیہ کے ہونٹوں پر ابھری اور اس کے خون میں بہہ گئی۔ وہ چیخ جو محمد خلیل کی نوجوان بیٹی کے گلے سے پھوٹی، مگر ہونٹوں تک نہیں پہنچ سکی۔ وہ چیخ جو ریاست کے ہاتھوں بغیر کسی جرم کے یتیم کیے گئے بچوں کی روح میں مچل رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر اشوز اٹھانے اور بٹھانے والے جدید دماغ اس وقت اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ کیا والدین کو آنکھوں سے قتل ہوتا ہوا دیکھنے والے بچوں سے میڈیا کو واقعے کی تفصیل معلوم کرنی چاہئے؟ وہ بچے جنہوں نے وحشت سے بھرا ہوا ایسا منظر دیکھا ہے اور نہ صرف دیکھا، بلکہ جن بچوں پر یہ سانحہ گزرا ہے، اگر وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو بیان نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا؟ کون ان احساسات کو الفاظ دے گا، جو احساسات گولیوں سے بھونے جانے والے جسموں کی طرح ہر شہری کی روح میں تڑپ رہے ہیں۔ ہر شہری سوچتا ہے کہ یہ سانحہ اس کے خاندان کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے۔ اس لیے یہ ایک خاندان کے لیے نہیں، بلکہ ہر خاندان کے لیے افسوس سے بھرا ہوا ایک سچا افسانہ ہے۔
اس ملک کا ہر خاندان چاہتا ہے کہ وہ اس خاندان کی پوری کہانی سنے، جو خاندان گمنامی میں تحفظ کے ساتھ جی رہا تھا۔ وہ خاندان جو خون میں ڈوب کر مشہور ہو گیا۔ مگر ہر خاندان ایسی شہرت سے ڈرتا ہے۔ ہر خاندان سوچتا ہے کہ بچے کیسے ہوں گے؟ بچے کیا سوچیں گے؟ عمران خان کے بارے میں۔ پولیس کے بارے میں۔ پاکستان کے بارے میں اور اپنے اس خاندان کے بارے میں جو بغیر کسی جرم کے سرعام خون میں ڈبویا گیا۔
یہ حکومت ایسی نہیں کہ اپنی غلطی تسلیم کرے۔ یہ حکومت استعفیٰ تو کیا، اس مقام پر ایک یادگار بھی نہیں بنوائے گی، جس مقام پر ایک خاندان اجڑ گیا۔ ایک خاندان جو کبھی خوش تھا۔ اب خاموش ہے۔ وہ خاموشی تاریخ میں ہمیشہ گونجتی رہے گی اور پوچھتی رہے گی کہ اس خاندان کا آخر کیا قصور تھا؟ اس خاندان سے کوئی کیا انصاف کرے گا؟ کاش! کوئی اس خاندان کے بچے جانے والے بچوں کی وہ کہانی منظر عام پر لائے، جو کہانی روتے ہوئے بچوں نے روتی ہوئی نرسوں کو سنائی۔ وہ کہانی جو تکیے پر سر رکھ کر سسک رہی ہے۔٭