پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے اتوار کو ساہیوال میں فائرنگ کرکے تین چھوٹے بچوں کے سامنے ان کے ماں، باپ، بہن اور ڈرائیور کو قتل کردیا تھا۔ سرکاری محکمے کی اس دہشت گردی اور چار افراد کے اندوہناک واقعہ قتل پر سارا ملک سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے قتل کی اس بھیانک واردات کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ذمے داروں کو نشان عبرت بنانے اور بچوں کی سرکاری کفالت کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر بے گناہ شہریوں کی ہلاکت میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ نئے اور تبدیل شدہ پاکستان کا یہ خوفناک چہرہ سامنے آنے کے بعد عوام میں تحریک انصاف کی حکومت سے مایوسی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک ہی دن اس کے دو رخ سامنے آئے۔ ایک طرف پولیس اہلکار بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ، بہن اور ڈرائیور کو گولیوں سے چھلنی کرنے میں مصروف تھے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نشے میں دھت تھے تو دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کے چہیتے اور سادگی کے دعوے کرنے والے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار شاہانہ پروٹوکول کے ساتھ میانوالی پہنچے۔ وہ اٹھارہ بیس گاڑیوں کے قافلے میں تشریف لائے۔ ان کے قافلے میں عام پولیس، ٹریفک پولیس، جیمرز اور وزیراعلیٰ ہائوس کی گاڑیاں شامل تھیں۔ ان کے ایک روزہ دورے کے موقع پر پولیس کے ایک ہزار سے زائد اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔ عثمان بزدار کے بارے میں وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کا تعلق پنجاب کے ایک ایسے علاقے سے ہے، جو اب تک بجلی سے محروم ہے۔ اس سے قطع نظر کہ وہ کون ہیں اور کہاں سے تعلق رکھتے ہیں، ساہیوال کا واقعہ وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان کیلئے چیلنج کی حیثیت اختیار کرگیا ہے کہ وہ بے گناہ شہریوں کی داد رسی کرتے ہیں یا نہایت تن دہی کے ساتھ اپنی حفاظت کرنے والے محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں کو بچاکر انہیں کوئی رعایت دیتے ہیں۔ نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ سی ٹی ڈی کے حکام نے سب سے پہلے تو جائے وقوع کو فوراً ہی صاف کردیا تاکہ ان کے جرم کی کوئی شہادت یا ثبوت نہ مل سکے۔ اہل وطن بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارا پولیس کا محکمہ بے گناہ شہریوں پر تشدد کرنے، انہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسانے یہاں تک کہ دوران تفتیش وحشت و درندگی کی انتہا کرکے ان کو ہلاک کردینے کی عالمگیر شہرت رکھتا ہے۔ حکومت کی اعلیٰ سطح پر شراب، کوکین اور دیگر منشیات کا استعمال عام ہو تو پولیس کے حکام اور اہلکاروں کو نشہ کرنے سے کون روک سکتا ہے۔ بے گناہوں پر جھوٹے مقدمات بنانا اور خطرناک مجرموں کو بھاری رشوت کے عوض چھوڑ دینا پاکستانی پولیس کا معمول ہے۔ اس محکمے کے اکثر لوگ نہ صرف خود بدترین جرائم میں ملوث ہوتے ہیں، بلکہ جرائم کی سرپرستی اور فروغ کیلئے بھی مشہور ہیں۔ اسی بنا پر بعض اوقات یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس محکمے کو بالکل ہی ختم کردیا جائے۔ اس طرح جہاں قومی خزانے کا بوجھ کم ہوگا، وہیں جرائم کی شرح میں بھی نمایاں کمی نظر آئے گی۔
محکمہ انسداد دہشت گردی کے حکام نے یہ مضحکہ خیز مؤقف اختیار کیا کہ ہلاک شدگان کا دہشت گرد تنظیم داعش سے تعلق تھا اور یہ کہ انہیں خود دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔ یہ بھی کہا گیا کہ محکمہ کے افراد نے اپنے تحفظ کیلئے کارروائی کی اور جب فائرنگ کا سلسلہ رکا تو معلوم ہوا کہ دو خواتین سمیت چار دہشت گرد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوچکے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان مبینہ دہشت گردوں کی فائرنگ سے کوئی اہلکار زخمی ہوا نہ ان کی کسی گاڑی کو نقصان پہنچا۔ یہ عجیب مقابلہ تھا کہ دہشت گرد آپس ہی میں ایک دوسرے کو مارتے رہے، جبکہ بچ جانے والے بچوں نے بتایا کہ ان کی گاڑی کو روک کر فائرنگ کی گئی تو بچوں اور ان کے والدین نے کہا کہ ہم سے پیسے لے لو، لیکن ہمیں مت مارو۔ ادھر مقتولین کے محلے داروں کا بیان ہے کہ وہ ان کو گزشتہ تیس سال سے جانتے تھے۔ یہ لوگ نمازی اور پرہیزگار تھے، جبکہ ان کی گاڑی کے اندر سے کوئی مزاحمت بھی نہیں ہوئی۔ جعلی پولیس مقابلوں اور ان میں ہلاک ہونے والے بے گناہ شہریوں سے پاکستانی پولیس کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے مطابق جنوری 2014ء سے مئی 2018ء تک تین ہزار تین سو پینتالیس افراد کو پولیس مقابلوں میں ہلاک کیا جاچکا ہے۔ ان میں پچپن پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ کراچی میں نقیب اللہ کو قتل کرنے والا ایس ایس پی ملیر رائو انوار اب تک سزا سے بچا ہوا ہے، جبکہ اس پر کم و بیش ساڑھے چار سو افراد کو جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاک کرنے کا الزام ہے۔ اس حوالے سے صوبہ سندھ سرفہرست ہے، جہاں ایک ہزار پانچ سو بانوے افراد پولیس مقابلوں میں مارے گئے۔ پولیس اہلکاروں کو کتنا ہی معصوم، قانون پسند اور فرض شناس باور کرانے کی کوشش کی جائے، ملک بھر کے شہریوں کا روز مرہ کا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ کسی بھی شہری کو پکڑ کر اس پر ناجائز اسلحہ اور منشیات رکھنے کا الزام لگادینا پولیس کیلئے ذرا بھی مشکل نہیں ہے۔ کسی گاڑی میں لاش، ہتھیار اور نشہ آور اشیاء رکھ کر اس سے رشوت طلب کرنا، بصورت دیگر اسے گرفتار کرلینا پولیس کا معمول ہے، جس سے ملک کا ہر شہری واقف ہے۔ کیونکہ شہریوں کے اپنے یا عزیز و اقارب کے ساتھ ایسے واقعات اکثر پیش آتے رہتے ہیں۔ ساہیوال میں ہلاک شدگان کو جہاں خود اپنی گولیوں کا نشانہ بننا قرار دیا گیا وہیں ان پر اپنے بچوں کو اغوا کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ قومی زندگی کے ہر شعبے میں بری طرح ناکام تحریک انصاف کی حکومت کا خواجہ آصف کے یہ الفاظ مسلسل پیچھا کرتے رہیں گے کہ ’’کوئی شرم ہوتی ہے، حیا ہوتی ہے۔‘‘ جو حکومت بے لگام، ظالم، عیاش اور دہشت گرد پولیس پر قابو نہ پاسکے اور صرف بلند و بانگ دعوے کرتی رہے تو اس کا مصنوعی غبارا پھٹنے یا اس میں سے ہوا نکلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ ٭