محبتوں کا قرض (آخری حصہ)

ہیڈ ماسٹر صاحب کی زبانی جب اسکول کی ابتری سے متعلق حکومتی بے حسی اور فنڈز کی عدم دستیابی کے بارے میں ساری صورت حال امجد کو معلوم ہوئی تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے ان تمام خرابیوں کا ذمہ دار وہ خود ہے۔ وہ کیوں اپنے وطن کو چھوڑ کر غیروں کے دیس میں جا بسا۔ اپنے ملک کی خدمت کے بجائے دوسروں کی غلامی پر اس نے کیوں ترجیح دی۔ وہان سیاستدانوں سے بھی نالاں تھا، جو ووٹ لیتے وقت تو ہر ہر دروازے پر جا کر خوشامد کرتے ہیں اور ووٹ حاصل کر کے جیتنے کے بعد کسی عہدے پر فائز ہوکر انہی لوگوں سے چھپنے لگتے ہیں۔ ان کے کام کرنے کے بجائے ان سے بچنے کے لئے اپنے اردگرد سیکورٹی کی تعداد بڑھالیتے ہیں۔
امجد نے سوچا کہ ہم سب کم زور لوگ ہیں، بے عمل اور کم ظرف۔ ایک بہترین اور دائمی نظام حیات ہوتے ہوئے بھی طاغوتی طاقتوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اس نے اپنا بریف کیس میز پر رکھا۔ اسے کھول کر دیکھا۔ پنتیس لاکھ کی رقم جو اس کی پنشن کی تھی، اس کے سامنے تھی۔ اس نے لمحے بھر کو ہیڈ ماسٹر صاحب کو دیکھا، جو حیرت سے منہ کھول کر رہ گئے تھے۔ نوٹوں کی گڈیاں اٹھا کر ہیڈ ماسٹر صاحب کے سامنے رکھ دیں۔
امجد نے کہا: ’’سر یہ نذرانہ ہے میری طرف سے۔ میرے اس گلشن کے لئے۔ جس کی خوشبو میں اپنی ہر سانس میں محسوس کرتا ہوں۔ جس کے درو دیوار سے مجھے والہانہ پیار ہے۔ اسی نے مجھے ہر لمحہ بھٹکنے سے بچایا ہے۔ سر اس کو ویران ہونے سے بچا لیجئے۔ آپ بغیر گورنمنٹ کی مدد کے اپنے طور پر مزدور لگا کر اس کی مرمت کرائیں۔ اس سے پہلے کہ اس کی چھتیں طلباء پر گریں اور یہ میرا گلشن بند کر دیا جائے۔ اس کو اجڑنے سے آپ ہی بچا سکتے ہیں سر۔ یہ نذرانہ ان محبتوں کا قرض ہے، جو اس ادارے نے مجھے دی ہیں۔ یہ قرض مجھ پر واجب ہے، میں آئندہ بھی کچھ نہ کچھ کرتا رہوں گا اس چمن کی شادابی کے لئے۔‘‘
اس سے پہلے کہ ہیڈ ماسٹر صاحب کچھ سمجھتے یا اس کا شکریہ ادا کرتے، وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔ جہاں ٹیکسی والا دروازہ کھولے اس کا انتظار کر رہا تھا۔ ’’آئی ایم سوری مجھے کچھ دیر ہوگئی۔‘‘ وہ ٹیکسی والے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنائیت سے بولا۔ ’’کوئی بات نہیں صاحب‘‘۔ ٹیکسی والا مسکرا کر بولا۔ جاوید کے دل کا بوجھ ہلکا ہو چکا تھا۔ وہ پنشن جو اس نے پاکستان سے اپنی پرانی خدمات کے عوض وصول کی تھی، وہ یہیں لوٹا دی تھی۔ محبتوں کا قرض ادا کر کے دل بالکل ہلکا پھلکا ہو گیا تھا۔ اس نے ٹیکسی والے سے اسپیڈ بڑھانے کا کہا اور خود آنکھیں بند کر کے سیٹ کی پشت پر سر ٹکا دیا۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment