انسان نما بھیڑیے

بے نیام

یہ سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے کہ وہ کیسا منظر ہو گا، جب کچھ انسان نما بھیڑیے ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب مہر خلیل کی گاڑی پر اندھا دھند گولیاں برسا رہے تھے اور مہر خلیل کی بیوی نبیلہ نے اپنے بچوں کو اپنی اوٹ میں لے رکھا تھا کہ اس کے بچوں کی طرف لپکنے والی گولیاںبھی اسی کے جسم ہی میں پیوست ہو جائیں، لیکن وہ مظلوم ماں اپنی بڑی بیٹی کو پھر بھی بچا نہ سکی کہ تیرہ سالہ اریبہ اپنی اماں کی آغوش میں سما نہ سکی ہوگی۔ ہائے ری ممتا! نجانے قدرت نے تجھے کس مٹی سے گوندھ کر بنایا ہے کہ مرتے مر جاتی ہے، لیکن اپنے بچوں کو تتی ہوا نہیں لگنے دیتی۔ افسوس! دہشت گردی کے خلاف جاری نام نہاد جنگ نجانے ابھی اور کتنی مائوں کو رُلائے اور تڑپائے گی۔
یادش بخیر! نائن الیون کے بعد ہم جس نام نہاد امریکی جنگ کا حصہ بنے، اس نے گزشتہ سترہ برسوں کے دوران میں پاکستان کو جابجا چرکے لگا کر لہولہان کرنے کے علاوہ ہمیں تین ایسے ’’تحفے‘‘ بھی دیئے، جن کے نتائج پوری قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ اولاً اس جنگ کے طفیل پاکستان میں انسانوں کی خرید و فروخت کا کاروبار خوب پھلا پھولا۔ یار لوگوں نے القاعدہ اور طالبان کے نام پر باریش نوجوانوں کو فروخت کرکے لمبی لمبی دیہاڑیاں لگائیں۔ ثانیاً ملک میں ’’پیشہ ور اجرتی قاتلوں‘‘ کی نئی فصل اُگ آئی اور بدقسمتی سے ان قاتلوں نے پولیس کی وردی پہن رکھی تھی۔ ثالثاً خاص طور پر ڈاڑھی جیسی سنت ِ رسولؐ کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نفرت کی علامت بنایا گیا۔ ساہیوال میں ہونے والے قتل عام کے پیچھے بھی مؤخر الذکر دونوں عوامل کارفرما دکھائی دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نائن الیون کے بعد امریکہ، بھارت اور افغانستان نے پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کا جو بازار گرم کیا، اُس کے سدباب کے لیے کائونٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ جیسے ادارے کھڑے کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔ لیکن خرابی تب پیدا ہوئی، جب ان اداروں کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ چنانچہ جب پولیس کو وسیع اختیارات کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کی ذمہ داری ملی تو گویا بندر کے ہاتھ میں اُسترا آگیا، جس کے نتیجے میں ’’سرکاری اجرتی قاتلوں‘‘ نے غریبوں اور دین دار لوگوں کے گھر اجاڑنے شروع کر دیئے۔ اس کی واضح مثالیں کراچی کے چوہدری اسلم اور رائو انوار ہیں۔ پولیس کی مخصوص ذہنیت کی تشریح ایک جملے میں یوں کی جا سکتی ہے کہ پولیس ڈپارٹمنٹ طاقتور کو سلام اور کمزور کو کالانعام سمجھتا ہے۔
مفکر احرار چوہدری افضل حقؒ سیاست میں آنے سے پہلے پولیس میں بطور تھانیدار کام کر رہے تھے۔ وہ مشرقی پنجاب میں قلعہ پھلور میں واقع پولیس ٹریننگ اسکول میں پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے کے بعد تھانہ لدھیانہ میں تعینات رہے۔ پولیس افسران کی ذہنیت کے بارے میں وہ اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں:
’’غلام ہندوستان میں سب انسپکٹر بھوکا بھیڑیا ہے۔ جدھر منہ اٹھاتا ہے، چیرتا پھاڑتا چلا جاتا ہے۔ سرکار کے ملازمین کے ہاتھوں انسانیت کی ایسی تذلیل شاید ہی کہیں ہوتی ہو۔ جب میں قلعہ سے ضلع میں آیا تو تھانہ صدر لدھیانہ کے حوالدار تفتیش نے مجھے سمجھایا کہ تفتیش
کے لیے عقل کی ضرورت نہیں۔ جس گائوں میں تفتیش کے لیے جائو، پہلے چماروں کے گھروں کی طرف سیدھے ہو لو۔ ان پر بلا تکلف ڈنڈے برسائو۔ پھر چوکیدار کو بلا کر اس کے منہ پر بے شک بلاوجہ چپت لگائو۔ چمار اور چوکیدار کبھی ظلم کی داد رسی نہیں چاہتے، بلکہ مظالم پر صبر کرتے ہیں اور عاجزی سے ہاتھ جوڑ دیتے ہیں۔ نمبردار کا سوال البتہ ٹیڑھی کھیر ہے۔ پہلے اس کو معمولی سی گالی دے کر اس کے صبر کا امتحان کرنا چاہیے۔ اگر سُور کتے کی گالی برداشت کر جائے تو فحش گالیاں دو۔ یہ گالیاں بھی برداشت کر لے تو بے شک ڈاڑھی پکڑ کر ہلائو۔ ان تین مدارج میں سے کسی مرحلے پر نمبردار ناک بھوں چڑھائے یا تیوری ڈالے تو وہیں بس کرکے بات ٹال دو۔ ایسے گائوں میں جا کر جس پر شبہ بھی نہ ہو، بلا کر بغیر کچھ پوچھے سنے کان پکڑوا دو اور خوب جوتے برسائو۔ بہتر ہے کہ جوتے پٹوانے کا عمل رات کے وقت شروع کیا جائے تاکہ اس کی آواز سنی جائے اور عورتیں پکار اٹھیں کہ حاکم بڑا سخت مزاج ہے۔ لیکن اگر خدا نخواستہ کوئی مقابلہ پر اتر آئے تو خان صاحب کی طرح مقابلہ نہ کرو، بلکہ شیخ صاحب کی طرح فوراً مونچھیں نیچی کر لو اور بھیگی بلی بن جائو اور مناسب موقع کی تلاش کرو‘‘۔
افسوس! پولیس ڈپارٹمنٹ کی جو ذہنیت غلام ہندوستان میں تھی، وہی ذہنیت آزاد و خود مختار پاکستان میں بھی برقرار ہے۔ سانحہ ساہیوال کے پیچھے بھی یہی پولیس ذہنیت ہی کارفرما ہے۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ جب کائونٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ جیسے ادارے کھڑے کیے گئے تو بندر کے ہاتھ میں اُسترا تھمانے کے بجائے ان اداروں کے لیے نئے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھرتی کیے جاتے، جو ضروری پیشہ ورانہ تربیت پانے کے بعد وطن عزیز کو دہشت گردی جیسے عفریت سے بچانے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے۔ لیکن یہاں پر حکمران آڑے آ گئے، جس کی وجہ سے کائونٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ پنجاب میں بھرتیوں کا معاملہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے التوا کا شکار ہے۔
فروری 2017ء میں پنجاب حکومت کی طرف سے سی ٹی ڈی میں کارپورلز کی بھرتی کا اشتہار دیا گیا۔322 اسامیو ں کے لیے قریباً 40 ہزار نوجوانوں نے درخواستیں دیں۔ کم از کم تعلیمی معیار گریجویشن رکھا گیا۔ این ٹی ایس ٹیسٹ، فزیکل ٹیسٹ، سائیکالوجیکل ٹیسٹ اور انٹرویو کے مراحل میں سے گزارنے کے بعد اکتوبر 2017ء میں 322 منتخب کردہ نوجوانوں کو تقرر نامے جاری کیے گئے اور اس کے ہفتہ دس دن بعد ہی نیا لیٹر جاری کیا گیا کہ سی ٹی ڈی پنجاب میں بھرتیاں فی الحال منسوخ کر دی گئی ہیں۔ امیدواران اپنا مقدمہ عدالت عالیہ میں لے گئے۔ عدالت نے فیصلہ اُن کے حق میں دے دیا۔ اب سرکار نے اس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلنٹ بینچ کے روبرو اپیل دائر کر رکھی ہے۔ سی ٹی ڈی کی ملازمت کے لیے منتخب ہونے والوں میں ایم اے، ایم ایس سی ڈگری ہولڈر بلکہ وکلا اور انجینئر تک شامل تھے، جو ہر چند روز بعد لاہور اور ملتان میں سراپا احتجاج دکھائی دیتے ہیں کہ سرکار کی اس ستم ظریفی کے خلاف کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں۔
یہ خوش آئند اقدام ہے کہ سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے، لیکن جے آئی ٹی کی تحقیقات ابھی شروع بھی نہیں ہوئیں اور وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت سی ٹی ڈی کو بچانے کے لیے میدان میں بھی آگئے۔ واقفان ِ حال کا دعویٰ ہے کہ حکومتی وزراء کی یہ پھرتیاں سی ٹی ڈی کو نہیں، بلکہ آئی جی پولیس پنجاب کو بچانے کے لیے ہیں۔ آئی جی پنجاب کے بارے میں ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے رہائشی اور ارائیں برادری کے چشم و چراغ ہیں۔ علاوہ ازیں گورنر پنجاب سے کچھ قرابتداری بھی رکھتے ہیں اور ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب ذیشان کی گاڑی پر فائرنگ کا مبینہ حکم آئی جی آفس سے دیا گیا تھا۔ اس معاملے کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ اصل حقائق کیا ہیں اور ان اطلاعات میں کتنی صداقت ہے۔
جہاں تک جے آئی ٹی کا تعلق ہے، یاد ش بخیر! راجن پور کے چھوٹو گینگ کے سلسلے میں بھی ایک جے آئی ٹی بنی تھی۔ اس جے آئی ٹی نے متعدد پولیس افسران کو چھوٹو گینگ کا سہولت کار ہونے، انہیں اسلحے کی فراہمی اور پولیس آپریشنز کے بارے میں قبل از وقت مخبری کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی۔ ان افسران میں ڈی پی او اور ڈی ایس پی سطح کے افسر بھی شامل تھے۔ لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آج تک ان افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ محض خانہ پُری کے لیے چند اہلکاروں کو معطل کیا گیا، جنہیں بعد ازاں خاموشی سے بحال کر دیا گیا۔ ہمارے ہاں گزشتہ 70برسوں سے یہی روایت چلی آرہی ہے کہ جس معاملے کو سردخانے کی نذر کرنا ہو ،اسے کسی کمیشن ،کمیٹی یا ٹربیونل کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔غالباً آج کل یہی کام جے آئی ٹی سے لیا جا رہا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن قائم کیا جائے جو اس سانحے کی تحقیقات کرے کہ مہر خلیل کی گاڑی پر فائرنگ کا حکم کس نے دیا؟مخبر کی اطلاع کو کسی دوسرے ذریعے سے چیک کرنے کی زحمت کیوں نہ کی گئی؟ اور جے آئی ٹی کی انکوائری شروع ہونے سے پہلے ہی وزیر قانون پنجاب نے کس ’’بڑی مچھلی‘‘ کو بچانے کے لیے کار ڈرائیور ذیشان کا تعلق داعش سے جوڑنے کی سعی کی؟ علاوہ ازیں گزشتہ برسوں میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں مبینہ پولیس مقابلوں میں مارے گئے مبینہ دہشت گردوں کے لواحقین سے بھی اگر تحقیقات کی جائیں تو کئی دلخراش انکشافات سامنے آسکتے ہیں اور آخر میں قومی سیاسی قیادت سے صرف اتنی سی گزارش ہے کہ مہر خلیل کی فیملی کے قتل عام کا معاملہ پارلیمان میں زیر بحث لایا جائے اور یہ طے کیا جائے کہ یہ ملک ایک آزاد ریاست ہے یا پولیس اسٹیٹ، جہاں انسان نما بھیڑیے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں نہتے شہریوں کا قتل عام کر رہے ہیں؟ ٭

Comments (0)
Add Comment