امریکہ اور چین کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان فوجی تصادم کے نئے خطرات پیدا ہوتے نظر آرہے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے چین کو فوجی طور پر دھمکانے اور خوفزدہ کرنے کیلئے تین عدد جدید ترین اور Steelth صلاحیتوں کے حامل B-2 بمباروں کو جزیرہ ہوائی میں واقع ایئر بیس پر تعینات کر دیا گیا ہے، جس کے ہمراہ امریکی ایئر فورس کے 200 اہلکار بھی ٹرانسفر کئے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ ان امریکی B-2 بمبار طیاروں اور عملے کا تعلق امریکی ایئر فورس کی اسٹرٹیجک کمانڈ سے ہے۔ اس موقع پر امریکی ایئر فورس کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل موشوا ڈور نے کہا کہ ان طیاروں کی ہوائی آمد کا مقصد امریکہ کو لاحق خطرات کا تدارک کرنا ہے، جن میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ خود کو، اپنے اتحادیوں اور حلیفوں کو لاحق خطرات کا ہر قیمت پر تدارک کرے گا۔
امریکی دفاعی ماہرین B-2 بمبار طیاروں کی ہوائی میں تعیناتی کو چین کیلئے ایک بھیانک خواب قرار دے رہے ہیں، جبکہ بظاہر چین اس اقدام سے کسی بھی طرح خوفزدہ دکھائی نہیں دیتا۔ ہوائی میں ان بمبار طیاروں کی تعیناتی کا مقصد چین کی فوجی سرگرمیوں پر 24 گھنٹے نظر رکھنا ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ امریکہ کے لانگ رینج طیارے پہلے ہی جنوبی چینی سمندر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں گشت کرتے رہتے ہیں، جس پر چین نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ فریڈم آف نیوی گیشن کی آڑ میں چین کے علاقائی سمندری حدود میں پرواز کرنے سے باز رہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی ایئر فورس نے ان B-2 بمبار طیاروں کو گوام میں تعینات کررکھا تھا، جہاں شمالی کوریا اور امریکہ کے اتحادیوں اور حلیفوں کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی تھی۔ واضح رہے کہ 2017ء میں شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کے باعث امریکہ اور شمالی کوریا میں کشیدگی انتہائی عروج پر جاپہنچی تھی اور دونوں ملکوں کے درمیان تصادم کے خطرات بہت بڑھ گئے تھے۔
چین کی جانب سے اپنے جنوبی سمندر اور اس میں موجود جزائر پر ملکیت کے دعویٰ کے بعد امریکہ اور چین میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ چین نے اس مقام پر ایک مصنوعی جزیرہ بھی تعمیر کیا ہے، جس میں ایک ایئر اسٹرپ بھی تعمیر کی گئی ہے، جس پر چینی ایئر فورس کے طیارے اترتے اور پرواز کرتے ہیں۔ جبکہ دیگر جزائر پر چین نے جدید ہتھیار اور میزائل بھی نصب کر رکھے ہیں۔ امریکہ علاقے کے دیگر ممالک کی طرح چین کے اس دعوے کو متنازعہ تصور کرتا ہے اور اس علاقے کو چین کی سمندری حدود کے بجائے بین الاقوامی سمندر قرار دیتا ہے۔ ماضی میں امریکی نیوی کے جنگی جہاز اس حساس ترین علاقے میں چینی جزائر کے انتہائی نزدیک آتے رہے ہیں، جہاں چینی نیوی کے جنگی جہازوں نے انہیں روکا اور واپس جانے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس طرح امریکی اور چینی ایئر فورس کے طیارے ماضی میں انتہائی قریب آچکے ہیں، لیکن دونوں اطراف سے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تصادم سے گریز کیا گیا۔
گو امریکی ایئر فورس کی جانب سے B-2 بمبار طیاروں کی تعیناتی کو معمول کے مطابق قرار دیا گیا ہے، لیکن امریکہ کے اس اقدام سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔ امریکہ کی پیسیفک ایئر کمانڈ کے ایئر اینڈ سائبر اسپیس آپریشنز کے ڈائریکٹر میجر جنرل اسٹیفن ولیم نے کہا ہے کہ B-2 طیاروں کی تعیناتی کے بعد علاقے میں امریکہ کی واضح موجودگی کا احساس اجاگر ہوگا اور علاقے میں سیکورٹی کی صورتحال بہتر ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اس امریکی اقدام کا مقصد اپنے اتحادیوں اور حلیفوں کو تحفظ کا احساس دلانا بھی ہے کہ امریکہ خطرات کی صورت میں انہیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔
فوجی ماہرین کے مطابق امریکہ کی جانب سے اپنے جدید ترین B-2 Steelth بمبار طیاروں کی ہوائی میں تعیناتی دراصل چین کے لئے ایک پیغام ہے، کیونکہ ریڈار کی نظروں سے اوجھل پرواز کرنے کی صلاحیتوں کے باعث یہ طیارے مدمقابل کے ایئر ڈیفنس کو دھوکہ دے کر دور تک گھس کر کارروائی کرسکتے ہیں اور اہم ترین اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ان طیاروں کی تعیناتی کے بعد امریکی ایئر فورس کو اپنی Inder Operability کو قائم رکھنے میں مدد ملے گی۔ امریکی ایئر فورس کے یہ جدید ترین Steelth طیارے گلوبل اسٹرائیک فورس کا حصہ ہیں۔
کیا امریکہ اور چین ایک فوجی تصادم کے انتہائی نزدیک پہنچ چکے ہیں؟ چین کے ساتھ ایک ممکنہ جنگ پنٹاگون کے ڈرائنگ بورڈ پر موجود ہے، لیکن چین بھی اس خطرے سے کسی بھی طور غافل نہیں، بلکہ وہ بھی امریکہ کے ساتھ اپنی ممکنہ جنگ کی بھرپور تیاریاں کر رہا ہے۔ چینی صدر نے فوج کو جنگ کیلئے تیار رہنے کا حکم دیدیا ہے اور کہا ہے کہ جنگ کی تیاریاں کی جائیں اور چینی فوج کیلئے جدید ترین ٹیکنالوجی بھی تیار کی جائے۔ چین کے سینٹرل ملٹری کمیشن سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدر نے کہا کہ فوج جدید دور کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اپنی جنگی تیاریاں کرے، کیونکہ دنیا تبدیلی کے اس عمل سے دوچار ہے جو اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا گیا اور چین کو اسٹرٹیجک مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ چینی صدر نے کہا کہ مستقبل کی جنگ کی تیاریوں کے لئے فوج بڑے پیمانے پر اپنی جدید ترین تربیت اور جنگی مشقوں پر توجہ مرکوز کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چینی فوج کو مستقبل کی جنگوں کے لئے اور خاص کر کسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا ہوگا۔
اس سے قبل ایک چینی فوجی ماہر بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ چین ناصرف امریکہ کی جانب سے پیدا کئے جانے والے خطرات سے اچھی طرح سے واقف ہے، بلکہ چین کے پاس امریکہ کو مناسب جواب دینے کے لئے قابل ذکر فوجی قوت اور صلاحیت بھی موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ یہ نہ سمجھے کہ وہ چین کو اپنی فوجی قوت سے خوفزدہ کرسکتا ہے، کیونکہ چین ایک قابل ذکر اور طاقتور ڈیٹرنٹ کا حامل ہے اور اس کے پاس مناسب جواب دینے کیلئے قابل ذکر فوجی قوت بھی موجود ہے۔ اگر امریکہ نے چین کے خلاف کسی قسم کی جارحیت کی تو اسے اس کی ناقابل تلافی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین نے اپنی فوجی قوت میں گزشتہ برسوں میں قابل ذکر اضافہ کیا ہے، جبکہ چین کی اس حوالے سے فوجی تیاریاں بھی جاری رہی ہیں اور یہ کسی بھی بدترین اور ہنگامی صورت حال سے نبرد برآ ہونے کے لئے بہت ضروری ہے۔
امریکہ کی جانب سے جنوبی چینی سمندر میں چین کو مشتعل کرنے کا سلسلہ خاصے عرصے سے جاری ہے اور امریکہ چین کے ان علاقوں کی جاسوسی کے لئے پروازیں بھی روانہ کرتا رہا ہے، جہاں کئی بار امریکی اور چینی طیارے انتہائی خطرناک حد تک قریب بھی آچکے ہیں، لیکن خوش قسمتی سے دونوں ملکوں کے درمیان تصادم نہیں ہوا۔ اگست 2018ء کو امریکی نیوی کا ایک PSA جاسوس طیارہ چین کے متنازعہ علاقوں پر پرواز کرتے ہوئے چینی فوجی تنصیبات کے انتہائی نزدیک آگیا تھا۔ یہ واقعہ متنازعہ Spratley Island میں پیش آیا تھا، جس پر چین نے امریکی طیارے کو فوری طور پر واپس چلے جانے کی وارننگ دی تھی اور واضح کیا تھا کہ اس علاقے سے دور رہا جائے، تاکہ کسی قسم کی غلط فہمی سے بچا جا سکے۔ بعد میں سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق چینی فوج نے امریکی طیارے کو وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس علاقے سے فوری طور پر واپس چلا جائے، ورنہ اسے اپنی اس حرکت کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
امریکہ نے اس واقعہ کے بعد اپنے مؤقف میں کہا تھا کہ اس کا طیارہ چینی فضائی حدود میں نہیں، بلکہ بین الاقوامی فضائی حدود میں پرواز کر رہا تھا اور چین کی فضائی حدود سے عالمی قوانین کے مطابق 12 ناٹیکل میل کے فاصلے پر تھا، لیکن چین روز بروز مزید علاقوں پر ملکیت کے دعوے کرکے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جسے امریکہ تسلیم نہیں کرتا۔ واضح رہے کہ امریکہ نے اپنے مؤقف کو تقویت دینے کے لئے علاقے کے دیگر ممالک کو چین کے خلاف اپنے ساتھ ملا رکھا ہے، تاکہ چین پر دبائو ڈالا جاسکے۔ ٭
٭٭٭٭٭