پی آئی اے میں اصلاحات کی کوشش

قومی پرچم بردار پی آئی اے ساری دنیا میں پاکستان کی شناخت ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ ادارہ بدعنوانیوں اور نا اہلیوں کی بنا پر ملکی معیشت کیلئے بوجھ بنا ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں اس کی بہتری کے لئے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا، جس میں وزیر اعظم عمران خان، وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر، وفاقی وزیر ہوا بازی محمد میاں سومرو، بری فو ج کے سربراہ، فضائیہ کے سربراہ اور پی آئی اے کے سی ای او ایئر مارشل ارشد ملک نے شرکت کی۔
اجلاس میں پی آئی اے کو منافع بخش بنانے کے لئے جو فیصلے کئے گئے، وہ کچھ اس طرح ہیں:
1. پی آئی اے کا صدر دفتر کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا جائے گا۔
2. نیو اسلام آباد ایئر پورٹ کا انتظام شہری ہوابازی (CAA) سے لے کر پی آئی اے کے حوالے کردیا جائے گا۔
3. ارکان پارلیمنٹ کی مفت ٹکٹ پالیسی پر نظرِ ثانی کی جائے گی۔
4. اندرونِ ملک سفر پر ٹیکس کم کیا جائے گا۔
5. حاضر سروس فوجی افسران کو 3 سال کے لئے پی آئی اے میں تعینات کیا جائے گا۔ جن میں سے 4 بری فوج سے اور 4 فضائیہ سے ہوں گے۔ یہ لوگ پی آئی اے میں تعیناتی کے دوران فوجی یونیفارم میں خدمات سر انجام دیں گے۔
6. پی آئی اے کو بوئنگ 777 طیاروں کی اپ گریڈیشن کے لیے 35 لاکھ ڈالر فوری طور پر دیئے جائیں۔
7. پی آئی اے کی عبوری مالی امداد کے لیے مزید 15 ارب روپے جنوری میں ہی جاری کئے جائیں گے۔
8. پی آئی اے کے ذمے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے اب تک کے تمام واجبات اور جرمانے منجمد کردیئے جائیں گے۔
9. پی آئی اے کے لیے ترکی سے دو ایئر بس 320 طیارے اور قطر سے ایک ایئر بس اے 330 کارگو طیارہ لیز پر لیا جائے گا۔
نکات 3 اور 4 عوام کے دل کی آواز ہے، جس پر فوری عمل ہونا چاہئے۔ مرکزی دفتر کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے سے اخراجات میں اضافے اور چھوٹے صوبے کی دل شکنی کے سوا اور کیا حاصل ہوگا؟ چھوٹے صوبوں میں یہ احساس عام ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کو تبدیلی کے ذریعے غیر مؤثر کرنے کے کے ساتھ، صدارتی نظام اور صوبے تحلیل کرکے ون یونٹ کے لئے رائے عامہ ہموار کی جا رہی ہے۔ اس پس منظر میں پی آئی اے کے دفتر کی وفاق کو منتقلی سے سندھ و بلوچستان کے لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہوگا۔
دنیا بھر میں ہوائی اڈوں کا انتظام شہری ہوا بازی کا شعبہ کرتا ہے۔ اسلام آباد ایئر پورٹ کا انتظام پی آئی اے کو دینے سے مسابقت کار ایئر لائنوں کو شکایت ہو سکتی ہے۔ پی آئی اے کو اضافی ذمہ داری سونپنے سے بطور ایئر لائن اس کی کارکردگی مزید متاثر ہوگی۔ اب دوسری ایئر لائنز اپنی پروازوں میں تاخیر اور دوسری خرابیوں کا الزام پی آئی اے پر لگا کر IATA میں شکایتوں کا انبار لگا دیں گی اور پی آئی اے نہ صرف پیشی بھگتے گی، بلکہ بھاری جرمانوں کا بھی امکان ہے۔
پی آئی اے میں وردی والوں کی تعیناتی سے بلڈی سویلین غیر ضروری طور پر ہراساں ہوں گے اور اس ادارے میں ہر خرابی کا ذمہ دار اب فوج کو ٹھہرایا جائے گا۔
ایک کمرشل ایئرلائن کے اجلاس میں آرمی اور ایئر چیف کی شرکت سے مملکت کے کلیدی امور میں فوج کی مداخلت کا احساس پیدا ہو رہا ہے اور اس خبر سے سویلین بالادستی کی عوامی امنگوں کو ٹھیس پہنچی ہے۔ شنید ہے کہ اس اہم اجلاس میں شہری ہوا بازی کی نمائندگی نہیں تھی۔ یہ بھی سویلین بالادستی کے حوالے سے کوئی مثبت خبر نہیں ہے۔
شرمناک رویہ:
پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد نے جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں ہونے والے ایک روزہ عالمی کرکٹ میچ میں میزبان ٹیم کے سیاہ فام کھلاڑی اینڈائل پھلا کوائیو (Andile Phehlukwayo) کے بارے میں جو تضحیک آمیز جملہ کہا ہے، اس سے نے ساری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ کھیل کے دوران مخالف کھلاڑی کو دبائو میں لانے کے لئے جملے بازی عام ہے، جسے کرکٹ کی اصطلاح میں Sledging کہتے ہیں۔ سرفراز اس وقت وکٹ کیپنگ کر رہے تھے اور اردو میں کہا جانے والا یہ جملہ وکٹ سے نیچے نصب مائیک سے نہ صرف میدان، بلکہ ساری دنیا میں سنا گیا اور اب یہ دنیا بھر کے میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ یہ جملہ اس قدر مکروہ ہے کہ اسے نقل کرنے کی ہم میں ہمت نہیں، بس یوں سمجھئے کہ سرفراز نے سیاہ رنگت کی بنا پر اس کھلاڑی کو انتہائی حقارت سے پکارا۔
نسلی امتیاز ایک قابل نفرت عمل ہے اور اس سے متعلق تمام اشارے اور استعارے مہذب معاشرے میں ناقابل قبول ہیں اور پھر مسلمانوں کے یہاں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر سرکار دوعالمؐ نے گورے اور کالے کے فرق کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا تھا۔ سیاہ فاموں کی توہین کرتے سرفراز کو ذرا شرم نہ آئی کہ اس امت کے پہلے مؤذن حضرت بلالؓ بھی ایک سیاہ فام حبشی تھے اور سرکار ان سے بے حد محبت فرماتے تھے۔ جن کی عزت و احترام کا یہ عالم کہ امیر المومنیں ہوتے ہوئے بھی حضرت عمرؓ نے انہیں کبھی بلال نہیں پکارا، بلکہ وہ ہمیشہ سیدنا بلالؓ یعنی اے ہمارے قائد و سردار بلال کہا کرتے تھے۔
خیال ہے کہ ICC ان کے خلاف تادیبی کارروائی کرے گی۔ لیکن اس سے پہلے خود پاکستان کرکٹ بورڈ، حکومت اور سول سوسائٹی کو اس کی مذمت کرنی چاہئے۔ عالمی مقابلوں میں قومی ٹیم کے کھلاڑی پاکستان کے نمائندے اور سفیر کا مقام رکھتے ہیں۔ ان کے طرز عمل سے ملک کے بارے میں تاثر قائم ہوتا ہے۔ دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ڈربن میں سرفراز نے جو کچھ کہا وہ پاکستان کے اخلاق اور اقدار سے متصادم ہے۔ پاکستانی انصاف، اخوت اور نسلی مساوات پر یقین رکھتے ہیں اور اس معاشرے میں نسلی بنیاد پر امتیاز اور تضحیک کی کوئی گنجائش نہیں۔
(نوٹ: اب آپ ہماری سوشل میڈیا کی تحریریں اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment