محض اتفاق تھا کہ سیلانی کپتان کو قطر کے اوکرہ اسٹیڈیم میں پردیسی ہم وطنوں کے سامنے گرجتا برستا دیکھ رہا تھا۔ عمران خان وہی کر رہا تھا جو ان کے پیشرو کرتے رہے ہیں۔ یہ ملک میاں صاحب کے دور میں بھی نازک دور سے گزر رہا تھا اور زرداری صاحب کے دور میں بھی اسی سرنگ میں تھا، ان سے پہلے آنجناب مشرف صاحب کے دور میں بھی نازک دور کا اختتام نہ ہوسکا تھا، بلکہ وہ ہی کیا، اس سے پیچھے بھی چلے جائیں تو مورخ یہی نازک دور دیکھتا ہوا ملے گا۔ سچی بات تو ہے کہ جب سے سیلانی نے ہوش سنبھالا ہے، ملک پر یہی ’’نزاکت‘‘ سوار ہے، یہ نازک صورت حال جانے شیطان کی کون سی آنت ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی؟ کپتان صاحب بھی اسی نازک صورت حال کا ذکر کر رہے تھے اور ساتھ ہی دلاسہ بھی دیئے جا رہے تھے کہ گھبرانا نہیں ’’ابھی کریزپر میاں داد اور عمران کھڑے ہیں… آپ کو پتہ ہے مجھے پریشر میں کھیلنا آتا ہے…‘‘ قمیض شلوار میں عمران خان صاحب کے بے تکلفانہ انداز تخاطب سے ان کے پردیسی حمایتیوں پر حال آئے ہوئے تھے، اسٹیڈیم کپتان کے نعروں سے گونج رہا تھا اور سیلانی اپنے مہمان اور مہمان اپنے میزبان کو بھول بھال کر ٹیلی ویژن سے آنکھیں چپکائے بیٹھا تھا۔
1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کی فتح عمران خان نے کہاں، کہاں اور کیسے، کیسے کیش نہ کرائی، لیکن ابھی تک ان لمحات کا طلسم ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ کپتان نے ورلڈ کپ کا ذکر کیا تو سیلانی کو کڑوا کسیلا خود پسند جون ایلیا یاد آگیا۔ جون ایلیا نے ہم جیسوں کے لئے کیا ہی خوب کہا تھا کہ ہم ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ جون نے تو ہزار برس پرانی فتوحات کی بات کی تھی۔ یہاں تو ورلڈ کپ اٹھائے بمشکل اٹھائیس برس ہوئے ہیں۔
کپتان کا انداز وہی کنٹینر والا تھا، بس فرق یہ تھا کہ پہلے ملک کنگال اور خزانہ خالی ہوتا تھا، اب کنگالی کے خاتمے اور خزانہ بھرنے کے دن آنے کو تھے۔ کپتان کہہ رہا تھا کہ آج ان لوگوں کے سامنے الیکشن کے بعد پہلا جلسہ کر رہا ہوں، جن کی سب سے زیادہ عزت کرتا ہوں… جب ہمیں حکومت ملی تو… میں آپ سب کو کرکٹ کی زبان میں بتاتا ہوں، وہ ایسے تھا کہ میں جب بیٹنگ کرنے گیا تو بیس رنز پر چار آؤٹ ہو چکے تھے، لیکن آپ سب جانتے ہیں مجھے پریشر میں کھیلنا آتا ہے…‘‘ یہ کہہ کر کپتان نے بشارت دینا شروع کر دی۔
’’ہماری پارٹنر شپ لگنا شروع ہو گئی ہے، میاں داد اور عمران خان وکٹ پر کھڑے ہوگئے ہیں، آپ بے فکر ہو جائیں، ہم ملک کو اس مشکل وقت سے نکالیں گے، یہ وہ ملک بننے جا رہا ہے، جس میں آپ کو ملک سے باہر نوکریاں ڈھونڈنے نہیں جانا پڑے گا، اللہ نے پاکستان کو ستائیسویں روزے پر بنایا تھا، یاد رکھنا یہ اللہ کا خاص ملک ہے، جس طرح کرپٹ لوگوں نے اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے، کوئی اور ہوتا تو دیوالیہ نکل چکا ہوتا…‘‘
سیلانی کی کپتان کی روایتی سیاستدانوں والی تقریر میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں تھی، بلکہ سچی بات ہے اسے حکمرانوں کی اس قسم کی لن ترانیوں سے کبھی دلچسپی رہی ہی نہیں۔ سب کی تقریریں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ کپتان کی تقریر کے متن سے نام نکال کر کاغذ کسوٹی پروگرام میں رکھ دیا جائے تو کوئی مائی کا لعل نہیں پہچان سکے گا کہ یہ ’’گولا بارود‘‘ کپتان کا ہے۔ کمزور دل کے مالک میاں صاحب کا یا نوابشاہ کے خوش قسمت رنڈوے کا… قریب تھا کہ سیلانی ٹیلی ویژن کی آواز بند کرکے اپنے مہمان مراد خان کی جانب متوجہ ہوتا، اس کے کانوں میں کپتان کی آواز آئی:
’’صرف ایک چیز آپ سن لیں، ملائیشیا میں ٹورازم صرف سمندر کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے اور انہیں اس سے بیس ارب ڈالر آمدنی ہوتی ہے، جبکہ ہماری ساری ایکسپورٹ ہی چوبیس ارب ڈالر کی ہیں… ترکی کی سیاحت سے سالانہ آمدنی چالیس ارب ڈالر ہے… اور پاکستان جس کے پاس بہترین ساحل اور موہن جو دڑو جیسا پانچ ہزار برس پرانے آثار قدیمہ ہیں، دنیا کے قدیم ترین شہر پشاور اور لاہور ہیں… تیسرا پاکستان کے پہاڑ اور چوتھی چیز سن لیں سکھوں کا مکہ اور مدینہ پاکستان میں ہے۔ ہندوؤں کی پرانی پرانی یادگاریں مقدس مقامات ہیں۔ یہاں چار قسم کی سیاحت ہوگی۔ میں یہ کرکے دکھاؤں گا، ہم سیاحت سے اتنا کما لیں گے کہ کسی سے ڈالر نہیں لینا پڑیں گے‘‘۔
کپتان کے اس دعوے پر سیلانی مسکرا دیا اور ٹیلی ویژن کی آواز بند کرکے اپنے مہمان کی جانب متوجہ ہوا تو اسے بھی احساس ہوا کہ وہ کہیں مہمان ہے۔ سیلانی نے نوٹ کیا کہ مراد خان کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ تھی۔
’’آپ کیوں مسکرا رہے ہو؟‘‘ سیلانی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’یہی سوال میرا بھی ہے، آپ بھی تو مسکرا رہے ہیں؟‘‘ اس سوال جواب پر دونوں ہی ہنس پڑے اور جب ہنسی تھمی تو سیلانی نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا ’’یہ بات کپتان کی بالکل ٹھیک ہے، سیاحت میں بڑا پیسہ ہے، میرا ترکی جانا ہوا تھا، دنیا کی کون سی قوم ہے، جس کا بندہ مجھے وہاں دکھائی نہ دیا، گرمیوں میں تو حال یہ ہوتا ہے کہ جہازوں کی قطاریں لگی ہوتی ہیں، ہوٹلوں میں جگہ نہیں ملتی، استنبول میں اتنے غیر ملکی آتے ہیں کہ استنبول کے شہری اقلیت بن جاتے ہیں۔‘‘
’’یارا! ایسا یہاں بھی ہو جائے تو مزہ نہیں ہے!!‘‘
’’ان مزوں کے لئے کچھ کرنا بھی ہوتا ہے، لیکن ہنوز دلی دور است۔‘‘
مراد سے باتیں کرتے کرتے ایک بار پھر سیلانی کی نظر ٹیلی ویژن کی جانب اٹھ گئی۔ وہاں ایک نجی ٹی وی کا رپورٹر بریکنگ نیوز دے رہا تھا اور بتا رہا تھا کہ سی ٹی ڈی نے فرانزک لیب کو وہ رائفلیں بھیجی ہی نہیں، جن سے ساہیوال میں گولیاں چلی تھیں۔ قانون کے رکھوالے استعمال شدہ گولیوں کے سکے بھیجنا بھی ’’بھول‘‘ گئے۔ یہ چھوٹی خبر نہ تھی۔ ایک ایسا واقعہ جس نے پوری قوم کو لرزا کر رکھ دیا ہو، جس کے ردعمل پر وزیر اعظم پریشان ہو گیا ہو، اس ہائی پروفائل کیس میں ایسی ’’بھول‘‘ ظاہر کر رہی ہے کہ قوم کے جذبات اور وزیر اعظم کا صدمہ سی ٹی ڈی والوں نے ہیجڑے کے پاؤں میں گھنگھرو سے باندھ دیئے ہیں۔
سیلانی کو کپتان پر بھی حیرت ہوئی کہ وہ کس برتے پر پاکستانیوں کے ’’شیخ‘‘ ہو جانے کا دعویٰ کر رہے ہیں؟ یہاں تو حال یہ ہے کہ ساہیوال میں دن دیہاڑے بچوں کے سامنے ماں باپ سمیت چار قتل کی تحقیقات بھی شفاف ہوتی نہیں لگ رہیں۔ سیلانی کو یقین ہے کہ اس مقدمے میں اصل ملزمان محفوظ رہیں گے۔ ابھی تو تحقیقات کا مرحلہ درپیش ہے۔ کالے کوٹ والوں کی عدالتی جنگ تو باقی ہے۔ بے گناہ شہریوں کے قتل کے مقدمے کے اندراج میں ہی پیٹی بند بھائی سامنے آگئے تھے۔ اب تفتیش میں بھی روڑے اٹکانا شروع ہوگئے۔ تحقیقاتی ٹیم نے بیانات لینے کے لئے عینی شاہدین کو اپنے دفتر طلب کر لیا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ بیانات وہیں ریکارڈ کئے جائیں تو وہ بیانات لئے بنا ہی واپس چلی گئی۔ آخر کیوں؟؟
کاش! سیلانی وزیر اعظم کے سامنے ہوتا تو وہ کہتا: کپتان صاحب! جس ملک میں ماں باپ معصوم بچوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر جان دے دیں، وہاں سیاح نہیں جنازوں کو کاندھا دینے والے آتے ہیں… جن ممالک کا آپ نے ذکر کیا ہے، وہاں کی زمین اپنے شہریوں کے لہو کی پیاسی نہیں ہوتی… وہاں پولیس خوف کی علامت نہیں ہوتی… وہاں موسیقی کا مترنم شور ہوتا ہے… پرندوں کی چہچہاہٹ ہوتی ہے… بچوں کی کلکاریاں ہوتی ہیں… گولیوں کی تڑتڑاہٹ نہیں ہوتی… سیاحت کے لئے پہلی شرط ہی امن ہے، جو کہ قانون کے نفاذ سے مشروط ہے۔ آپ ہمت کریں، سانحہ ساہیوال سے قانون کے ’’نفاذ‘‘ کا نون لکھ ڈالیں۔ سارے کام چھوڑ دیں اور اس واقعے کو بنیاد بنا کر پولیس کی تطہیر پر لگ جائیں۔ ملک میں قانون کا نفاذ ہوگا تو امن بھی ہونے لگے گا، پھر امریکہ، انگلینڈ اور کینیڈا اپنے شہریوں کو پاکستان کے سفر میں احتیاط برتنے کا مشورہ نہیں دیں گے۔ آج بھی برطانیہ کی ویب سائٹ پر آپ کے پشاور کو، دنیا کے قدیم ترین شہر کو اپنے شہریوں کے لئے خطرناک قرار دیا گیا۔ جنت نظیر سوات سمیت سرسبز پہاڑوں کے لوئیر دیر پر سرخ دائرہ لگا ہوا ہے۔ انگریزحکومت نے اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ پشاور سے چترال جانے کا رسک بھی نہ لیں۔ امریکہ کی بھی سن لیں۔ اپنے شہریوں کو بلوچستان، کے پی کے اور آزاد کشمیر جانے سے منع کر رہا ہے۔ کینیڈا تو اپنے شہریوں کو غیر ضروری طور پر پاکستان کے سفر سے ہی منع کر رہا ہے۔ اس کے نزدیک تو پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد بھی محفوظ نہیں۔ آسٹریلوی حکومت بھی اپنے شہریوں کو کے پی کے اور بلوچستان سفر کا مشورہ نہیں دے رہی… کپتان صاحب! پولیس گردی پاکستان کے امیج کے لئے بارودی سرنگ بن چکی ہے۔ وطن عزیز سے ان سرنگوں کا صفایا کریں۔ پھر یہاں سکھ یاتری بھی ست سری اکال کہتے ہوئے آئیں گے اور ہندو جوگی بھی پرنام کرتے دکھائی دیں گے۔ نیلی آنکھوں والے گورے بھی پانچ ہزار سال پرانی موہن جو دڑو کی تہذیب سے ہمکلام ہوتے ملیں گے اور خوشحال جاپانی بھی سوات، پشاور میں بدھا کے مجسموں کو حیرت و عقیدت سے تکتے نظر آئیں گے۔ ہمارے گرم پانیوں کے ساحل گوروں کے لئے بڑی کشش رکھتے ہیں۔ یہاں بھی خوش حال سیاح واٹر اسکوٹر اور اسپیڈ بوٹس دوڑاتے نظر آسکتے ہیں۔ اگر انہیں یہاں امن سکون دکھائی دے۔ آپ امن دیں۔ اپنی ذمہ داری پوری کریں، پھر سچ میں ہمارے جوانوں کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہو گی… سیلانی نے یہ سوچتے ہوئے مراد کی طرف دیکھا اور اس کی نظروں کے تعاقب میں دوبارہ ٹیلی ویژن اسکرین کی طرف پلٹ پڑا، جہاں ناحق مارے جانے والے خلیل کا بھائی انصاف کے لئے سسک رہا تھا۔ سیلانی کا جی بوجھل ہو گیا اور وہ افسردگی اور بے چارگی سے اس دکھیارے کو دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
٭٭٭٭٭