ڈاکٹر فرمان فتحپوری
قمر زمانی کا خط مرقومہ 13 اپریل، بہت مختصر تھا۔ لیکن ایک غزل اور ایک مضمون منسلک کر کے انہوں نے اختصار خط کی تلافی کر دی تھی۔ دلگیر نے خط ملتے ہی اس کا جواب لکھا۔ اس میں اختصار نویسی کی شکایت بھی کی، لیکن برائے نام۔ غزل اور مضمون میں انہوں نے معنوی حیثیت سے وہ سب کچھ پالیا ہے، جس کے وہ متمنی تھے۔ چنانچہ انہوں نے غزل کے ایک ایک شعر اور ’’اے کلی‘‘ کے ایک ایک لفظ کے معنی اپنے مزاج کے موافق نکالے اور داد و تحسین میں کھو گئے۔ دلگیر کا یہ خط بھی خاصا طویل ہے اور ان کی کمال انشا پردازی کا ایک نمونہ ہے۔ اصل خط دیکھئے۔
14 اپریل 17ء
پیاری!
جذبہ محبت دیکھئے۔ آج آپ کا (چاند سا) خط ملا اور آج ہی آپ کو نامہ دلگیر و نقاد مل گیا ہوگا۔ کل جس وقت آپ کا خط پوسٹ ہوا ہے، (1:30 P.M) ٹھیک اسی وقت نقاد بھی ڈاک میں ڈالا گیا تھا۔ لکھئے کب ملا؟
میرے طویل خط کا مختصر و تشنہ جواب، میرے شوق کی یہ رعایت معکوس، داد قبول فرمائیے۔ میرے سراپا آرزو سوال کو آپ نے اب تک لاجواب رکھا۔ آپ کی مرضی، لاجواب ہی رکھئے۔ اس ادا پر بھی جاں نثار ہے…
مطلب کی کہی نہ ایک ظالم
کیا بات ہے تیری گفتگو کی!
اب کسی طرح صبر نہیں ہو سکتا۔ ہائے اللہ کیا کروں۔ کلی نے اور آگ لگادی۔ نقاد دیکھ کر تفصیلی رائے لکھئے۔ کیسا نکلا۔ جو نقائص رہ گئے ہیں، مطلع فرمائیے کہ دور کردیئے جائیں۔ میں چاہتا ہوں نقاد آپ کے خیالات کی تصویر مرمریں بن کر نکلے۔ اس لئے ہمیشہ ٹوکتی رہئے۔
’’حسن‘‘ کا منتظر ہوں۔ جلد آئے (قمر زمانی نے خط کے ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ ایک مضمون بعنوان ’’حسن‘‘ مکمل ہو رہا ہے۔ جلد بھیج دیا جائے گا، اس جگہ اسی طرف اشارہ ہے)۔
غزل اور کلی دیکھی۔ کیا بتاؤں افسردہ دل پر کیا گزر گئی۔ ایک گھنٹہ سے کم نہیں رویا۔ اب بھی آنکھیں نم ہیں۔ یہ ان کی داد ہیں۔
غزل سراسر حال ہے، کس کس شعر کی داد دوں، خصوصاً مطلع اور ان اشعار نے کلیجہ نکال لیا۔
(1) روح آئی تنِ بے جان میں امیدیں پلٹیں
اس نے پوچھا تھا بس اتنا ہی کہ ’’حال اچھا ہے؟‘‘
(2) یہ نہ سمجھیں گے کہ اب تاب تپش بھی نہ رہی
یہ کہیں گے کہ سکون ہے تیرا حال اچھا ہے
(3) آنکھ ملنی تھی کہ دل ہی نہ رہا پہلو میں
اے فسون ساز یہ نیرنگ جمال اچھا ہے
’’اے کلی‘‘
اف اس دلگیر عنوان نے کہیں کا نہ رکھا۔ کلی کے پردے میں مخاطب صحیح کون ہے آہ، یہ میں نہیں جانتا۔ مگر اتنا جانتا ہوں کہ جیسے کوئی مجھ پر گزری ہوئی پتے پتے کی کہہ رہا ہے اور شب دلگیر کی یاد دلا رہا ہے۔ جب چاند نظر کے سامنے آتے ہی چھپ گیا تھا، اوجھل ہوگیا تھا۔ آہ، میں اس چاندنی رات کے خواب کو اب تک نہیں بھولا، جسے میں نے بیداری میں کبھی دیکھا تھا۔
’’مضمون سر سے پا تک تخیل ہی تخیل ہے، کن کن نزاکتوں کی داد دی جائے۔ اگر قوت اتنی ہی مجروح ہے تو میرا قصور نہیں۔
میں وہ زبان کہاں سے لاؤں جس سے لطافت جذبات کی داد دوں۔ تاہم جہاں آپ کی نازک خیالی میری آنکھ سے آنسو بن کر ٹپکی اسے قوسین ( ) میں لے لے کر ظاہر کرتا ہوں۔ آپ بھی ایک اچٹتی ہی نگاہ ڈال لیجئے۔
1۔ (اے گرہ رنگ و بو، ایک عقدہ بہار) اس خطاب پر شعرا کے ہزاروں دیوان نثار۔
2۔ (اور تیری حس کی قائل ہوں کہ صبح تک تو میرے ہم نفس ہونے کا بار بھی نہ اٹھا سکی) آپ نے کس قیامت کی چٹکی لی ہے۔ دلی کا گزرا ہوا واقعہ یاد آگیا۔ آہ کس قدر شرمندہ ہوں۔
3۔ (جب چاند کی کرنیں میرے پریشان بالوں کو آخری بار چوم کر آہستہ آہستہ چلی جارہی تھیں… میری انگڑائیوں سے ایک مد و جزر کی کیفیت پیدا ہورہی تھی)
ہائے کتنی حسرت ہے۔ اس وقت جب یہ عالم کیف طاری تھا، میں موجود نہ تھا۔ ورنہ میر جان نثاری سے ان اداؤں میںجان پڑ جاتی۔ بتائیے:
کیا میری قسمت میں کوئی ایسی رات نہ تھی
4۔ (میری نیند میں تو اپنی آنکھیں کھول کر تباہ و برباد ہوجائے) کاش یہ موقع مجھے نصیب ہو۔
5۔ (تیرا تن نازنین تو ہمیشہ اسی خواب کے پاس رہے گا)
6۔ (میں تجھے مرقع میں… خواب ہی دیکھ رہی ہوں)
7۔ (اے کلی… میرے دامن میں رہے گا)
8۔ (لے میں قبائے تصویر… میری صورت کے لئے تڑپ رہا ہے بے قرار ہے)
کیا ان جذباتِ لطیف و خیالاتِ نادر کی داد دی جاسکتی ہے۔ کیا ان ٹکڑوں کا کوئی مول ہوسکتا ہے جن کے معاوضے میں جان شے بے حقیر ہے۔
سچ یہ ہے کہ نہ اس سے بہتر تمہید ہوسکتی ہے اور نہ خاتمہ۔ پر جس قدر ناز کروں کم ہے کہ ان کا مخاطب دنیا میں دلگیر کے دل کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
’’ایک ننھا سا مزار‘‘
آپ کی زبان سے سنتے ہی دل اچھل پڑا۔ میں نے دیکھا کہ وہ ’’کلی‘‘ بھی اس کے ساتھ ہی ساتھ اچھل رہی تھی اور زبان حال سے گویا تھی:
’’میں وہاں پہنچ گئی جہاں مجھے پہنچ جانا چاہیے تھا‘‘
کیا میں اس چاند سی صورت کو دیکھ سکتا ہوں جس کے یاسمین سینہ پر اس کلی نے ایک رات پوری ایک چاندنی رات بسر کی ہے۔ کیا مجھے بھی یہ شرف و افتخار حاصل ہو سکتا ہے کہ ایک رات مل کر بسر کرلینے کے بعد میری خاک آرزو بھی آپ کے دامن رنگین میں رہے۔ خدا کے لئے ان سوالوں کا عملی جواب دیجئے ورنہ حسرت ہی میں تمام ہوجاؤں گا، جو آپ کو منظور نہیں۔
ایک جگہ آپ نے لکھا ہے ’’اے پژمردہ کلی‘‘ پژ مردہ کی جگہ دلگیر لکھ دیتیں تو میری آبرو یقیناً بڑھ جاتی۔ مگر ابھی قسمت کہاں یہ…۔
آپ ہنسیں گی اگر میں یہ کہوں کہ اپنے مضمون اور غزل کی معرفی کے خود ہی نوٹس لکھ دیجئے، کیونکہ میں اپنی قابلیت کو اس فرض کی ادائیگی سے قاصر پاتا ہوں۔ کم از کم میری یہ خواہش تو پوری کرنی ہوگی۔
دیکھو! تمہیں ہماری قسم انکار نہ کرنا۔
جواب فوراً آئے اور مفصل۔
کیوں کر کہوں
آپ کا… ’’دلگیر‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭