آئین کے تحت امریکی صدر سے توقع کی جاتی ہے کہ وفاق کے منتخب نمائندے کی حیثیت سے وہ وقتاً فوقتاً امریکی کانگریس کو وفاق کی مجموعی صورت حال سے آگاہ کرتا رہے گا۔ چنانچہ ہر سال جنوری کے آخری ہفتے میں امریکی صدر ایوان زیریں (قومی اسمبلی) اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہیں۔ اس خطاب کی بڑی اہمیت ہے، جسے سننے کے لئے کابینہ، عسکری قیادت، سپریم کورٹ کے جج اور عمائدین حکومت و سیاست کو خصوصی دعوت دی جاتی ہے۔ اس تقریر کو State of the Union یا SOTU Address کہا جاتا ہے۔ اس سال یہ تقریر 29 جنوری کی شام کو ہونی تھی۔ جس کے لئے صدر ٹرمپ نے مسودہ بھی تیار کر لیا تھا۔
لیکن کل کانگریس کی اسپیکر محترمہ نینسی پلوسی نے صدر ٹرمپ کو ایک خط لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اس وقت وفاقی حکومت ٹھپ ہے اور جب تک حکومت دوبارہ چالو نہیں ہو جاتی، ان کے لئے امریکی صدر کو کانگریس میں خوش آمدید کہنا مناسب نہیں۔ چنانچہ اسپیکر نے صدر سے درخواست کی ہے کہ وہ 29 جنوری کو ہونے والا SOTU خطاب ملتوی کر دیں۔ حکومت کی بحالی کے بعد باہمی مشورے سے اس خطاب کی نئی تاریخ مقرر کرلی جائے گی۔
خط موصول ہونے پر صدر ٹرمپ نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے امریکی تاریخ کا ایک افسوس ناک واقعہ قرار دیا اور ساتھ ہی کہا کہ اگر ان پر کانگریس کے دروازے بند کئے جا رہے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ اب وہ کسی اور مقام سے SOTU خطاب کریں گے۔ یعنی ان کی تقریر پہلے سے طے کردہ پروگرام کے مطابق 29 جنوری ہی کو ہوگی۔ لوگوں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ اب کسی جلسۂ عام یا فوجی چھائونی میں یہ تقریر کریں گے۔
امریکہ کی تاریخ میں اس سے پہلے صرف ایک بار SOTO خطاب ملتوی کیا گیا ہے، جب 28 جنوری 1986ء کو سابق صدر رونالڈ ریگن نے خطاب کرنا تھا، لیکن اتفاق سے اسی روز خلائی جہاز چیلینجر کو حادثہ پیش آیا، جس میں امریکہ کے 7 انتہائی تجربہ کار خلانورد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس کے سوگ میں SOTU خطاب ملتوی ہوگیا اور امریکی صدر نے 4 فروری کو کانگریس سے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ تاہم کانگریس کی جانب سے صدر کو دعوت واپس لینے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
وینزویلا میں امریکی مداخلت:
امریکی سی آئی اے مبینہ طور پر دنیا میں کئی جگہ حکومتوں کو الٹنے پلٹنے میں ملوث پائی گئی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ 1953ء میں ایران کے وزیر اعظم محمد مصدق کی برطرفی، 1958ء میں ایوب خان کی عسکری تاج پوشی، ترکی میں عدنان میندریس کی برطرفی و پھانسی اور مصر میں صدر مرسی کی معزولی سے لے کر 2016ء میں صدر اردگان کے خلاف ناکام فوجی بغاوت تک سیانوں کو امریکی سی آئی اے کا ہاتھ صاف نظر آرہا ہے۔
اب وینزویلا کو ایسی ہی شکایت ہے۔ براعظم جنوبی امریکہ کے شمال مغرب میں شمالی بحر اوقیانوس اور بحر کریبین کے ساحلوں پر واقع اس ملک کی آبادی 3 کروڑ 15 لاکھ کے قریب ہے۔ چند سال پہلے تک وینزویلا میں تیل کی پیداوار 22 لاکھ بیرل روزانہ تھی اور اس اعتبار سے دنیا میں اس کا ساتواں نمبر تھا۔ یہ ملک گزشتہ کئی برسوں سے عدم استحکام کا شکار ہے۔ بدترین کرپشن کے نتیجے میں لاکھوں بیرل تیل برآمد کرنے کے باوجود وینزویلا اربو ں ڈالر کا مقروض ہے۔
حالیہ سیاسی بحران کا آغاز سابق صدر ہیوگو شاویز کی موت کے بعد نئے انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے ہوا۔ ان انتخابات میں نکولس مدورو (Nicolas Maduro) صدر منتخب ہوئے، جس کی شفافیت پر ساری دنیا نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ اس کے دو سال بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حزب اختلاف نے کامیابی حاصل کرلی۔ جس کے بعد صدر اور پارلیمان کے درمیان رسہ کشی میں اضافہ ہوا۔ کشیدگی میں 2018ء کے صدارتی انتخابات کے بعد مزید اضافہ ہوا۔ ان انتخابات میں صدر نکولس مدورو 67.8 فیصد ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہوئے تھے۔ حزب اختلاف نے نتائج کو تسلیم نہیں کیا اور صدر مدورو نے دھاندلی کے الزامات کا مسترد کرتے ہوئے نئی مدت کیلئے حلف اٹھا لیا۔
حزب اختلاف نے اس کے خلاف مظاہرے شروع کردیئے اور پولیس تصادم میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ حزب اختلاف کی قیادت پارلیمنٹ کے صدر (اسپیکر) وان گیدو Juan Guaido کر رہے ہیں۔ 35 سالہ وان گیدو ایک انجینئر اور سماجی کارکن کے ساتھ شعلہ بیان مقرر ہیں۔ صدر ٹرمپ اور نکولس مدورو کے درمیان ذاتی مخاصمت کسی سے چھپی ہوئی نہیں اور دونوں کے درمیان الفاظ کی جنگ اور جملے بازی ایک عرصے سے جاری ہے۔
صدر ٹرمپ نے حزب اختلاف کے مظاہروں کی مکمل حمایت کی۔ امریکہ کی شہہ پر وان گیدو کے حوصلے بلند ہوئے اور کل انہوں نے خود کو صدر قرار دیتے ہوئے حلف بھی اٹھا لیا۔ امریکہ نے وان گیدو کو ملک کا صدر تسلیم کرلیا، جس پر مشتعل ہو کر نکولس مدورو نے امریکہ سے سفارتی تعلقات ختم کرتے ہوئے امریکی سفارت کاروں کو فوری طور پر وینزویلا سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ صدر ٹرمپ نے مدورو کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔
دیکھنا ہے کہ وینزویلا میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، اس لئے کہ صدر مدورو اور صدر گیدو کے حامی سڑکوں پر ہیں۔ ا ب تک فوج غیر جانبدار نظر آرہی ہے۔ صدر مدورو کا کہنا ہے کہ وان گیدو سی آئی اے کی پشت پناہی پر اچھل رہے ہیں۔
(نوٹ: اب آپ ہماری سوشل میڈیا کی تحریریں اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔)
٭٭٭٭٭