سرفروش

عباس ثاقب
اسی دوران امر دیپ کی طرف سے مالٹے کی کاشت کا رقبہ بڑھانے کے ذکر پر نیک دل بوڑھے کو اپنا بہنوئی الکھ سنگھ یاد آگیا اور وہ اداس ہوگیا۔ ’’واہگرو جانے ڈاکوؤں کواس غریب کے پاس دولت ہونے کا شبہ کیوں ہوا، جو اس کے پیچھے لگ گئے۔ چلو جو ہاتھ لگا، وہ لوٹ بھی لیا تو ظالموں کو اسے قتل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘۔
میں نے ہمدردی بھرے لہجے میں کہا۔ ’’کبھی کبھی انسان بُری گھڑی کا نشانہ بھی تو بن جاتا ہے سردار جی۔ الکھ سنگھ جی کے ساتھ بھی شاید ایسا ہی ہوا ہے۔ مگر مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اسے لوٹنے والے اس کا اتنا قیمتی گھوڑا کیوں ساتھ نہیں لے گئے؟‘‘۔
مجھے امر دیپ کے ہونٹوں پر دبی دبی مسکراہٹ نظر آئی۔ میں نے نظر بچاکر اسے آنکھ ماری اور براہم دیپ کی طرف متوجہ ہوگیا، جو بدستور اداس لہجے میں کہہ رہے تھے۔ ’’ہاں یہ تو سوچنے والی بات ہے۔ ویسے مجھے تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ اس کے پاس کوئی گھوڑا بھی موجود ہے‘‘۔
یہی وہ موقع تھا، جب امر دیپ نے گفتگو میں شامل ہوکر اس کا رخ اسی طرف پھیر دیا، جدھر میں لے جانا چاہتا تھا۔ ’’یہ تو انہوں نے ہمیں بھی کبھی نہیں بتایا پتا جی۔ بلکہ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کی موت سے چار چھ دن پہلے تک تو کوئی گھوڑا ان کی ملکیت نہیں تھا۔ میں دو ہفتے میں انہیں دو بار اپنی جیپ پر ان کے گاؤں چھوڑکر آیا تھا۔ وہ بات، بے بات اپنی مفلسی کا رونا رونے بیٹھ جاتے تھے۔ اور فاصلہ طویل ہونے اور اپنے سواری سے محروم ہونے کا دکھڑا روکر ہی تو وہ آپ سے حکم دلواتے تھے کہ انہیں جیپ پر ان کے گھر چھوڑ کر آؤں‘‘۔
اسی موقع پر بشن دیپ بھی گفتگو میں کود پڑا۔ ’’حیرت کی بات تو واقعی ہے۔ اپنے آخری سفر پر روانہ ہونے سے پہلے انہوں نے آپ سے جیپ کے ذریعے گھر چھڑوانے کی فرمائش نہیں کی تھی‘‘۔
امر دیپ نے اس کی ہاں میں ہاں ملاکر بات آگے بڑھائی۔ ’’اس سے بھی زیادہ حیرانی کی بات میرے لیے یہ تھی کہ حویلی کے آخری پھیرے میں انہوں نے مالی پریشانی کا رونا نہیں رویا تھا، جبکہ دو ہی دن پہلے وہ سخت ضرورت مند ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ رہے تھے‘‘۔
اس کی بات سن کر براہم دیپ نے کچھ سوچا اور پھر کہا۔ ’’او یار، اس نے ہماری پریشانی کا سوچ کر رقم کا مطالبہ نہیں کیا ہوگا۔ اس روز تو ہمارے گھر میں بہت ہنگامے والا ماحول تھا‘‘۔
امر دیپ نے اپنے باپ کی بات کو جھٹلائے بغیر اپنا موقف ایک نئے زاویے سے پیش کیا۔ ’’ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو، لیکن یہ گھوڑے والی بات اب بھی سمجھ میں نہیں آئی۔ اگر وہ کسی سے گھوڑا مانگ کر لائے ہوتے تو باتوں باتوں میں کئی بار جتا چکے ہوتے۔ ویسے بھی یشونت نے مجھے بتایا تھا کہ پھپھڑ نے اسے کہا تھا کہ ان کے گھوڑے کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھے اور وہ یہاں سے روانہ ہوئے تو گھوڑے پر بھاری سامان کی ایک گٹھڑی بھی لاد کر لے گئے تھے‘‘۔
اس کی بات سن کر براہم دیپ چونکا۔ ’’بھاری سامان کی گٹھڑی؟‘‘۔
امر دیپ نے زور دے کر کہا۔ ’’ہاں پتا جی، یقین نہیں تو ابھی جاکر یشونت سے پوچھ لینا۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے ناں کہ وہ گھوڑا ساتھ ہونے کے باوجود مالٹوں کی بوری بھی بندھواکر ساتھ نہیں لے گئے‘‘۔
یہ سب سن کر براہم کچھ سوچ میں پڑگئے۔ ’’الکھ سنگھ بھائی کے پاس گھوڑا… گٹھڑی… بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی!‘‘۔
تبھی بشن دیپ نے کہا ’’باقی تو جو کچھ بھی ہے، اتنا میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس روز پھپھڑ جی کا کچھ اور ہی رنگ تھا‘‘۔
اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ امر دیپ نے الکھ سنگھ کے معاملے میں رازدار بنالیا تھا اور میں اس کی طرف سے الکھ سنگھ کے حوالے سے ڈھکے چھپے الفاظ میں شک کے اظہار کو محض اتفاق سمجھ رہا تھا۔ وہ دونوں اس راز کو اپنے باپ کے سامنے افشا کرنے کے لیے غالباً کسی مناسب موقع کا انتظار کر رہے تھے۔
میں نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ امر دیپ کو ایسا کرنے سے منع کر دوں گا۔ مجھے اسی وقت ادراک ہوا تھا کہ معاملہ کھلنے پر الکھ سنگھ کی میرے ہاتھوں ہلاکت کا راز بھی کھل جائے گا۔ میں نے سوچا امر دیپ تو میرے ساتھ پوری طرح حصے دار ہے، لیکن ممکن ہے براہم دیپ اس اطلاع کو کسی اور انداز میں لے۔
میں نے فوری طور پر گفتگو کا موضوع تبدیل کرنا غنیمت سمجھا۔ ’’امر دیپ بھائی، میں نے پٹیالے کی تو خوب سیر کرلی۔ اب آپ کو فرصت ہوگئی ہے تو مجھے آس پاس کے دیگر مشہور شہر بھی دکھا دیں‘‘۔
امر دیپ نے پتا نہیں میری منشا سمجھی یا نہیں، لیکن اس نے بلاتوقف میری ہاں میں ہاں ملائی۔ ’’فکر نہ کرو میرے بھائی، سارا پنجاب گھماؤں گا۔ بچہ پارٹی بھی ضد کر رہی ہے۔ ان کی فرمائش بھی پوری ہوجائے گی‘‘۔
اس دوران میں ہم حویلی کے احاطے میں پہنچ چکے تھے۔ میں اپنے ٹھکانے کا رخ کرنا چاہتا تھا، لیکن براہم دیپ نے کہا۔ ’’او کاکا، وڈی سردارنی دن رات تیرا پوچھتی ہے، پتا نہیں تم نے کیا جادو کیا ہے بڈھڑی پر۔ چلو اسے بھی شکل دکھا دو۔ پتا چلا تو مہمان خانے سے بلوالے گی۔ امر دیپ کی گھر والی بھی فکرمند تھی‘‘۔
میں نے سعادت مندی سے کہا۔ ’’جو حکم سردار جی!‘‘۔
تبھی جانے کس گوشے سے مانو نمودار ہوا اور والہانہ انداز میں مجھ سے لپٹ گیا۔ ’’آپ کدھر چلے گئے تھے انکل، یہاں بالکل مزا نہیں آرہا تھا۔ میں گیند بلا لے کر آتا ہوں، چلو کرکٹ کھیلتے ہیں!‘‘۔
امر دیپ اور بشن دیپ نے گھرک کر بمشکل میرا ہاتھ چھڑایا۔ تاہم میں نے وعدہ کیا کہ ہم جی بھرکے کرکٹ کھیلیں گے۔ ہم جیسے ہی حویلی میں داخل ہوئے، وہاں ایک ہنگامہ سا بپا ہوگیا۔ ساس بہو نے پیار اور شفقت بھرے لہجے میں میری خوب خبر لی۔ میں نے بمشکل معذرت اور اظہارِ ندامت کے بعد انہیں منایا۔ کئی دن بعد میں نے خالص پنجابی طرز کا پُرتکلف کھانا پیٹ بھر کے کھایا۔ کھانے کے بعد گڑ والی چائے کا دور چلا اور ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی رہی۔ میںاحتیاط کے دائرے میں رہتے ہوئے پٹیالے کی خوب صورتی اور وہاں واقع جلیل الشان عمارتوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتا رہا۔ وہ محفل رات گئے تک چل سکتی تھی، لہٰذا میں تھکن کا بہانہ کر کے اپنے ٹھکانے پر آگیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment