سوشل میڈیا پر فرنود عالم کے نام سے جانے جانے والے یونس عالم سے سیلانی کے خاصے مراسم رہے ہیں۔ یہ ان چند نوجوانوں میں سے ہیں، جن کی دسترس سیلانی کی بیٹھک تک رہی ہے، لیکن یہ تب کی بات ہے جب وہ فرنود عالم نہیں ہوئے تھے، البتہ دبے لفظوں میں مدارس کے نظام اور مولوی صاحبان کے خلاف تنقید کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔ سیلانی کی یونس سے روز کی گپ شپ تو نہ تھی، لیکن جب بھی ملاقات ہوتی، خوب ہوتی، پھر غم روزگار یونس عالم کو کراچی سے کھینچ کر اسلام آباد لے آیا اور فاصلے ایسے بڑھے کہ سیلانی کے اسلام آباد آنے پر بھی ختم نہ ہوئے۔ دونوں کی سنگت ’’سنگت‘‘ پر بھی نہ ہو سکی۔ سیلانی کو سامنے بیٹھے پریشان حال نوجوان سے ملنے کے بعد یونس عالم یاد آنے لگے۔ مدارس کے نظام اور اساتذہ کے رویوں کے حوالے سے اس کی باتوں میں بغاوت کی آنچ سیلانی تب ہی محسوس کر گیا تھا، اس آنچ کو بعد میں اسلام آباد کی مخصوص محفلوں کے فکری مباحث بڑھاوا دیتے گئے اور یونس عالم یوٹرن لے کر فرنود عالم ہو گیا۔
ایک دن سیلانی سے ملاقات میں یونس عالم نے عجیب بات کہی، کہنے لگا ’’سیلانی بھائی! مدارس ومساجد کی دنیا ہی الگ ہے، ہمارے اساتذہ کے نزدیک جس طالب علم نے تعلیم سے فراغت کے بعد منبر، مصلا یا مدرسہ نہیں سنبھالا، ان کے نزدیک اس نے پڑھا لکھا گنوا دیا اور جو کسی مدرسے میں گھنٹے لینے لگا یا مسجد میں امام خطیب ہو گیا، سمجھیں اس کی محنت ٹھکانے لگ گئی، جو لوگ مولوی نہیں بن پاتے، اساتذہ ان کا ذکر عبرت کے طور پر کرتے ہیں کہ اس کو اساتذہ کی دعا نہیں تھی، اس لئے پڑھ لکھ کر گنوادیا اور آج دنیا داری میں لگا ہوا ہے‘‘ ۔
سیلانی سامنے بیٹھے قاری صلاح الدین کا تعارف بعد میں کراتا ہے، پہلے کراچی کے ایک نوجوان مفتی صاحب سے مل لیجئے، جو کل سیلانی سے مخاطب تھے۔ یہ مفتی صاحب بھی اساتذہ کی بددعا نہیں لینا چاہتے تھے، ان کے والد صاحب نے انہیں مدرسے میں داخل کرایا تھا کہ وہ عالم فاضل بن کر دین کی خدمت کریں اور انہوں نے بھی دین کی خدمت کا تہیہ کرکے اساتذہ کے نقش قدم پر چلنے کا فیصلہ کیا۔ وہ عالم فاضل اور مفتی ہو چکے تھے اور مختلف مدارس میں پڑھاتے ہوئے زندگی کی گاڑی کسی نہ کسی طرح کھینچ رہے تھے۔ اساتذہ کے بقول ان کی محنت ٹھکانے لگ چکی تھی۔ وہ ایک مسجد کے خطیب وامام بھی تھے۔ وہ نوجوان قناعت پسند آدمی ہیں، زیا دہ کی ہوس نہیں، پھر انہوں نے خواہشوں کو ضرورت بھی نہیں بننے دیا اور سفید پوشی سے ایک استاد اور امام مسجد کی حیثیت سے زندگی گزارنے لگے۔ انہوں نے علم کی پیاس بجھانے کے لئے تدریس کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھی، یہاں تک کہ کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے کے بعد ایم فل بھی کر لیا۔ خوش قسمتی سے شاہراہ فیصل سے متصل ایک پوش علاقے کی مسجد میں امامت وخطابت کی ذمہ داری بھی مل گئی۔ قلیل آمدنی کے باوجود زندگی اطمینان سے گزر رہی تھی کہ سارا اطمینان تلپٹ ہو گیا۔ مسجد کے قریب رہائش پذیر ایک خاتون اسکالر نے مسجد انتظامیہ سے ہٹ کر رمضان میں تراویح کا انتظام کرانا چاہا۔ امام صاحب نے مخالفت کی، جس کے جواب میں قضیہ کھڑا کر دیا گیا۔ وہ خاتون اپنے گھر پر درس کی محفلیں منعقد کرتی تھیں، جس کی وجہ سے خواتین میں ان کا اچھا خاصا اثر و رسوخ ہو گیا۔ یہ اثرو رسوخ بیگمات سے حضرات تک میں نفوذ کر گیا۔ مسجد میں بھی امام صاحب پر سوال ہونے لگے اور مسجد انتظامیہ دو واضح گروپوں میں تقسیم ہوگئی۔ مخالف گروپ کو مسجد کے پیش امام صاحب کی قرأت میں غلطیاں محسوس ہونے لگیں۔ وہ معاملہ جامعہ بنوری ٹاؤن لے آئے۔ وہاں کے اساتذہ نے مسجد کے امام و خطیب کی اسناد چیک کیں۔ مفتی صاحب کا قرآن سنا اور ان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ یہاں بات ختم ہو جانی چاہئے تھی، لیکن ختم ہونے کے بجائے سرک کر کراچی کے ایک اور مدرسے میں پہنچ گئی۔ خاتون اسکالر کے حمایتی اس مدرسے کے سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے مہتم صاحب کے پاس بڑی امید لے کر پہنچے تھے۔ مفتی صاحب بھی ان کی امیدوں پر پورا اترے۔ وہ اس قسم کے تنازعات ختم کرانے میں خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہاں بھی تنازعہ یوں ختم کرایا کہ دس برس سے مسجد کے امام و خطیب کو معزول کروا کے اپنے نامزد کردہ امام کو مسجد کے مصلے پر کھڑا کر دیا کہ بس اب نماز یہ پڑھائیں گے۔ مسجد کے اصل پیش امام ہکا بکا رہ گئے۔ کاروباری لوگوں پر مشتمل مسجد انتظامیہ میں ہمت نہ تھی کہ وہ مفتی صاحب کے نامزد امام کے قدموں تلے سے مصلا کھینچتے اور ’’مقبوضہ مسجد‘‘ واگزار کراتے۔ سو وہ چپ ہو رہے اور ایم فل پاس نوجوان مفتی بھی ’’سابق‘‘ ہو کر نئی جگہ تلاش کرنے لگے۔ ایک دوست نے اس حوالے سے سیلانی کی مدد چاہی اور ان کی سی وی سیلانی کو بھیج دی۔ سیلانی نے سی وی پڑھی، متاثر کن تعلیمی قابلیت کا حامل نوجوان تھا۔ بیچار ے کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی، لیکن کیا کیا جا سکتا تھا؟ سیلانی کے پاس کوئی اختیار تو تھا نہیں کہ وہ انہیں دوبارہ مسجد کے منبر تک پہنچا دیتا، لیکن ان کے لئے ملازمت کی کوشش تو کی جا سکتی تھی۔ سو وہ کرنے کے لئے سیلانی نے اس نوجوان عالم دین سے پوچھا:
’’مفتی صاحب! آپ امامت و خطابت کے سوا کچھ اور کر سکتے ہیں؟‘‘
مفتی صاحب کا جواب حسب توقع نفی میں تھا اور یہی جواب آج مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء کی اکثریت کا بھی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ جگہ جگہ پر آباد مساجد اور مدارس میں قال اللہ اور قال الرسولؐ کی چہچہاہٹ انہی علمائے کرام کے دم سے ہے، لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ مساجد ومدارس کی تعداد محدود ہے اور خیر سے ہر برس ہزاروں کی تعداد میں علماء فضلاء دستار فضیلت لئے عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں اور وہ امامت اور خطابت کے سوا کچھ کر بھی نہیں پا رہے۔ یہ اس وقت کا المیہ ہے کہ باصلاحیت نوجوانوں سے ہم فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ یہ باصلاحیت، باکردار اور کھرے نوجوان مدارس کی بھٹی میں پگھلا ہوا وہ فولاد ہیں، جسے ہم نے اپنی ضرورت کے مطابق سانچے میں ڈھال کر کارآمد بنانا ہے، لیکن افسوس کہ ہماری اس پر توجہ ہی نہیں۔
اب ملئے سیلانی کے سامنے تشریف فرما قاری صلاح الدین سے۔ شرمیلا سے قاری صاحب سیلانی کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے اور سیلانی ان کے دماغ میں کلبلاتے صحافت کے کیڑے مارنے کی کوشش کر رہا تھا ’’بھائی! صحافت تنے ہوئے رسے پر چلنے کا نام ہے، اس سے تو بہتر ہے کہ کوئی مسجد مدرسہ ہی تلاش کر لو، وہاں بھی کوئی پنشن، گریجویٹی، بونس شونس نہیں ہوتا اور یہاں بھی خیر سے انگریز کی یہ باقیات نہیں ہوتیں، جب مالکان کا جی چاہے گا، کان سے پکڑ کر نکال دیئے جاؤ گے اور جس روز نکالا جائے گا، اس روز کی حاضری بھی اکاؤنٹنٹ تسلیم نہیںکرے گا، جب حساب کرے گا پیسے کاٹ لے گا۔‘‘
سیلانی کے مشورے پر قاری صاحب نے رونی صورت بنا کر کہا: ’’سیلانی بھائی! مسجدیں بھی تو نہیں ملتیں اور مدرسے میں تنخواہ کے نام پر استاد کو آنے جانے کا صرف کرایہ دیا جاتا ہے، آپ بتائیں پانچ چھ ہزار روپوں میں بندہ کیسے گزارہ کر سکتا ہے؟‘‘
’’اب ایسا بھی نہیںہے، دس پندرہ ہزار تو مل ہی جاتے ہوں گے!‘‘
’’دس پندرہ ہزار…‘‘ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ’’سیلانی بھائی! ہوسکتا ہے کراچی کے مدارس میں اتنی تنخواہ دی جاتی ہو، یہاں راولپنڈی میں تو اس کی آدھی بھی نہیں ملتی۔‘‘
قاری صلاح الدین کا مسئلہ یہ ہے کہ بچپن ہی میں اس کی خالہ زاد سے نسبت طے کر دی گئی تھی، اب خالہ اپنی بہن سے اصرار کر رہی ہیں کہ اپنی امانت آکر لے جاؤ اور قاری صاحب ٹالے جا رہے ہیں کہ دولہن کو لانا تو مسئلہ نہیں، لیکن اس کے بعد کے مسائل کیلئے وسائل بھی تو ہونے چاہئیں۔ قاری صاحب ایک دوست کے توسط سے سیلانی کے پاس پہنچ گئے کہ اور کچھ نہیں تو کسی اخبار میں ہی جز وقتی ملازمت مل جائے۔ ان کا دیرینہ خواب بھی پورا ہو جائے گا اور دولہن بھی گھر آجائے گی۔ اب سیلانی انہیں کیسے سمجھاتا کہ یہاں تو خود نان نفقے والی صورت حال ہے۔ میڈیا بحران سے اب تک چھ ہزار افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔ ہر روز کہیں نہ کہیں سے چھانٹی کی منحوس اطلاع سماعتوں میں برمے کی طرح گھس کر دل دہلائے دے رہی ہوتی ہے۔ ایسے میں کس سے کیا بات کی جائے؟
سیلانی نے قاری صاحب سے لگی لپٹی رکھے بغیر صاف بات کرتے ہوئے کہا ’’قاری صاحب! میں تو خود اس شہر میں ابھی نیا ہوں، کسی سے سفارش کرنے کی پوزیشن میں نہیں، دوسری بات حالات ہی ایسے ہیں کہ بات کرنا بے کار ہے۔‘‘
’’سیلانی صاحب! پھر میں کیا کروں؟‘‘ قاری صاحب نے کچھ ایسی بے بسی اور لاچارگی سے سیلانی کی طرف دیکھا کہ اس سے رہا نہ گیا۔ اس نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا ’’انگریزی میں کوئی شدبد ہے؟‘‘
’’سر! انگریزی پڑھی ہی نہیں، ہاں عربی آتی ہے۔‘‘
’’ یہاں عربی کا اتنا اسکوپ کہاں ہے، اچھا یہ بتاؤ عربی کے سوا کچھ اور پڑھا سکتے ہو؟‘‘
اس بار بھی جواب نفی میں ہی تھا۔ سیلانی ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔ وہ چاہنے کے باوجود اس نوجوان کے لئے کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔
ایک رو ز پہلے ہی سیلانی وفاق المدارس سندھ کے ترجمان اور اپنے دوست مولانا طلحہ رحمانی کو صبح صبح اٹھا کر اسی موضوع پر بات کر رہا تھا۔ وہ جاننا چاہ رہا تھا کہ حکومت کی جانب سے مدارس اصلاحات کے حوالے سے بنائی جانے والی کمیٹی کا کیا بنا۔ جواب میں طلحہ رحمانی نے بتایا کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ مہینوں پہلے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی، جس کی اب تک ایک میٹنگ بھی نہیں ہوئی۔ طلحہ رحمانی کا کہنا تھا کہ درس نظامی میںاصلاحات کا مرحلہ تو ابھی دور کی بات ہے، حکومت جو یکساںتعلیمی نصاب کی بات کر رہی ہے، پہلے اس پر پیش رفت تو کرے۔مولانا کا کہنا تھا کہ حکومت سے زیادہ ہمیںاپنے نصاب کی فکر ہے اور وفاق المدارس کی نصاب کمیٹی مدارس کے نصاب کا جائزہ لیتی رہتی ہے۔ اس کے تواتر سے اجلاس ہوتے ہیں۔ حکومت اصلاحات چاہتی ہے تو پورے ملک میں یکساں نصاب تعلیم کے لئے آگے بڑھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہم پر الزام ہے کہ مدارس میں دنیاوی علوم نہیں پڑھائے جا رہے، اب تو مدارس کے طلباء بڑی تعداد میں میٹرک کے امتحان دیتے ہیں اور پورے پورے بورڈ میں ٹاپ بھی کرتے ہیں۔ آپ کے اسلام آباد، کراچی اور پشاور بورڈ کی پوزیشنیں مدارس کے طلباء لے رہے ہیں۔ طلحہ رحمانی کی گفتگو سے سیلانی کو لگا کہ مدارس اور حکومت کے درمیان فاصلہ کچھ گھٹا تو ہے، لیکن بہت زیادہ کم نہیں ہوا۔ یہ فاصلہ کم ہونا چاہئے۔ مدارس میں پینتیس لاکھ بچے پڑھتے ہیں۔ حکومت مدارس میں ہنرمندی کے سینٹر کھولنے کا ارادہ کر رہی ہے، تو وفاق اس پر غور تو کرے۔ اس پیشکش میں جو قباحتیں محسوس ہو رہی ہیں، ان کا اظہار تو کرے۔ سچی بات ہے ان پینتیس لاکھ بچوں کو عالم فاضل بنانے کے ساتھ ساتھ ہنرمند بھی بنایا جا سکتا ہے۔ عربی سمجھنے بولنے والی لیبر فورس عرب ممالک کی پہلی ترجیح بن سکتی ہے۔ سامنے کی بات ہے کوئی بھی عرب اپنی ورکشاپ میں عربی بولنے اور سمجھنے والے ہنرمند کے مقابلے میں عربی سے نابلد ٹیکنیشن کو کیوں ترجیح دے گا؟ اور پھر بیرون ملک نہ سہی، اپنے ہی ملک میں ریفریجریشن، ایئر کنڈیشن، الیکٹریشن اور اسی طرح کے دیگر ہنر سکھائے جا سکتے ہیں، جس کی بڑی کھپت ہے۔ سرکاری اور نجی ٹیکنیکل ادارے تو تین تین برس کے ڈپلومے کرا رہے ہیں۔ حکومت وہ تمام نہ سہی، تجرباتی طور پر ہی مدارس کے محنتی طلباء کو ہنرمند بنانے کیلئے کچھ کورسز کا آغاز تو کرے۔ سیلانی کی دلی خواہش ہے کہ مدارس کے باکردار، دیندار طلباء فکر معاش میں الجھے ہوئے نہ رہیں۔ یہ بڑے باصلاحیت اور محنتی ہوتے ہیں۔ سیلانی ایسے طلباء کو جانتا ہے، جو مدارس سے اٹھے اور آج کوئی وکیل بنا ہوا ہے اور کوئی اسکالر بن کر دنیا میں لیکچر دے رہا ہے۔ حکومت بھی صرف زبانی جمع خرچ نہ کرے، آگے بڑھے اور ان نواجوانوں کو بھرپور استعمال کرے، ان کے لئے بیوروکریسی کے دروازے بھی کھولے، تاکہ داڑھیوں سے سجے روشن چہرے والے نوجوان بھی یہ اہم ذمہ دایاں نبھاتے ہوئے دکھائی دیں۔ یہ بھی اس دھارے میں شامل ہوں۔ مدارس کے طلباء کے لئے بھی ملازمتوں کے مواقع ہوں، انہیں صرف مولوی، خطیب اور موذن بھرتی نہ کیا جائے۔ وہ کہیں تھانے کے ایس ایچ ہوں، کہیں ٹریفک پولیس میں سارجنٹ ہوں، کہیں باوردی افسر ہوں اور کسی محکمے میں سیکریٹری ہوں۔ اس کے لئے وفاق المدارس اور حکومت کو آگے بڑھنا ہوگا، ہم آہنگ ہونا ہوگا، حکومت کو اپنی ضرورت بتانی ہوگی، درخواست کرنی ہوگی کہ انہیں ایسا مال چاہئے۔ علمائے کرام کو ڈیمانڈ کے مطابق پروڈکشن دینا ہوگی۔ ایک عالم دین گاڑی کا چالان کاٹتے ہوئے بھی عالم دین ہی ہوگا اور ایس ایچ او گشت کرتے ہوئے بھی عالم دین رہے گا۔ اس کے موبائل پر گشت سے اس کا علم کم نہیں ہوگا۔ ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ ایسا نہ ہوا تو خالی خالی نظروں سے خلاؤں میں گھورنے والے قاری صلاح الدین ہی مدارس سے دستار فضلیت لے کر نکلتے رہیں گے اور بااثر لوگوں کی جانب سے مسجدیں چھین لئے جانے کے بعد ایم فل اسکالر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔ ہمیں مدارس میں تیار ہونے والے اعلیٰ فولاد کو ضرورت کے سانچے میں ڈھالنا ہوگا… سیلانی یہ سوچتے ہوئے سامنے بیٹھے پریشان نوجوان کو ہمدردی سے دیکھنے لگا اور دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
٭٭٭٭٭