پولیس نے گزشتہ برس تیرہ جنوری کو وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کا ماورائے عدالت قتل تسلیم کرلیا ہے۔ نقیب محسود کو بدنام زمانہ انکائونٹر اسپیشلسٹ رائو انور اور اس کی ٹیم نے پہلے گرفتار، پھر جعلی مقابلے میں ہلاک کر کے اسے دہشت گرد ظاہر کیا تھا۔ نقیب محسود کے ساتھ پہلے سے گرفتار شدہ مزید تین افراد کو قتل کیا گیا تھا۔ ان پر پولیس مقابلہ، اسلحہ ایکٹ، اقدام قتل اور دھماکہ خیز مواد رکھنے کے پانچ مقدمات بھی درج کئے گئے تھے۔ جمعرات کے روز انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب محسود کے خلاف دائر پانچوں مقدمات خارج کر دیئے۔ عدالت نے قرار دیا کہ نقیب کے سوشل میڈیا پروفائل سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’وہ ایک لبرل اور فن سے محبت کرنے والا نوجوان تھا، جو ماڈل بننے کا خواہش مند تھا‘‘۔ عدالت نے ایس ایس پی انوسٹی گیشن عابد قائم خانی کی پانچ رپورٹس کی روشنی میں یہ مقدمات خارج کرنے کا حکم جاری کیا۔ نقیب کے خلاف دائر پانچوں مقدمات کی الگ الگ تحقیقات کی گئی اور تمام الزامات کو گمراہ کن قرار دیا گیا۔ عدالت کے تحریری فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ ایس ایس پی عابد قائم خانی کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ نقیب کو چار جنوری 2018ء کو دو افراد، محمد قاسم اور حضرت علی کے ہمراہ کراچی کے علاقے ابوالحسن اصفہانی روڈ پر واقع ایک ہوٹل سے اٹھایا گیا۔ لیکن بعد میں دونوں ساتھیوں کو چھوڑ دیا گیا، جنہوں نے بطور چشم دید گواہ بیان بھی قلمبند کرائے ہیں۔ راؤ انوار کے میڈیا میں دعوے اور کمیٹی کے روبرو بیان کے برعکس نقیب کی کسی دہشت گردی کی سرگرمی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد اور فارنسک رپورٹ الزامات کو ثابت نہیں کرتے، لہٰذا پانچوں مقدمات خارج کیے جاتے ہیں۔ اس سے قبل رائو انوار کے اس جعلی مقابلے کی تحقیق کیلئے پولیس کی اپنی کمیٹی کے علاوہ ایک جے آئی ٹی بھی بنائی گئی تھی۔ دونوں کمیٹیوں نے اپنی رپورٹس میں مقابلے کو جعلی قرار دیا تھا۔ ’’امت‘‘ نے جے آئی ٹی کی اس تفصیلی رپورٹ کو قسط وار شائع کیا تھا۔ رائو انوار پر صرف نقیب محسود اور اس کے ساتھیوں کو جعلی مقابلے میں ہلاک کرنے کا الزام نہیں۔ اس درندہ صفت پولیس افسر نے مبینہ مقابلوں میں چار سو چوالیس افراد کو قتل کیا ہے۔ تاہم نقیب اللہ محسود کو قتل کرنے کے بعد سوشل میڈیا میں جو طوفان اٹھا، اس کے بعد وہ روپوش ہوگیا تھا۔ بعد میں ڈرامائی انداز سے گرفتاری بھی دیدی اور اب ضمانت پر رہا ہے۔ گرفتاری کے دوران بھی پیٹی بند بھائیوں کی جانب سے اسے شاہانہ سہولیات ملتی رہیں اور سینکڑوں افراد کے قاتل کو بغیر ہتھکڑی کے عدالت میں پیش کیا جاتا رہا۔ اب جبکہ عدالت نے خود تسلیم کرلیا ہے کہ اس نے جعلی مقابلے میں چار افراد کو ہلاک کیا تھا تو اس کے باوجود بھی اگر گرفتار کرکے کیفر کردار نہ پہنچایا گیا تو عوام میں ملکی نظام سے متعلق پھیلی مایوسی مزید بڑھ جائے گی اور وہ سسٹم سے مزید متنفر ہو جائیں گے۔ عدلیہ کو بخوبی علم ہے کہ نقیب محسود کے قتل کے بعد کالجز و یونیورسٹیز کے نوجوانوں میں زبردست اشتعال پھیلا تھا اور پشتون نوجوانوں نے ایک تنظیم کی بھی بنیاد ڈالی۔ ایسے لوگوں کو ریاست دشمن عناصر بھی اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں رائو انوار جیسوں سے شہ پا کر آئے روز پولیس اہلکار بے گناہ افراد کو دہشت گرد قرار دے کر ٹارگٹ کرتے ہیں۔ ساہیوال کا سانحہ اس کی واضح مثال ہے۔ درندوں سے معاشرے کو پاک کرنا انسانی بقا کے ساتھ ریاست کی بقا کا بھی بنیادی تقاضا ہے۔ قرآن کریم میں حق تعالیٰ نے تمام انبیائے کرامؑ کی بعثت اور آسمانی کتب کے انزال کا مقصد ہی لوگوں میں انصاف قائم کرنے کو قرار دیا ہے۔ (سورۃ الحدید، آیت: 25) حضرت علی المرتضیٰؓ کا مشہور فرمان ہے کہ کفر کے ساتھ معاشرہ چل سکتا ہے، لیکن ظلم کے ساتھ نہیں۔ مشہور چینی فلسفی کنفیوشس سے کسی نے پوچھا: اگر ایک قوم کے پاس تین چیزیں ہوں، انصاف، معیشت اور دفاع اور بہ وجہ مجبوری کسی چیز کو ترک کرنا مقصود ہو تو کس چیز کو ترک کیا جائے؟ کنفیوشس نے جواب دیا: دفاع کو ترک کردو۔ سوال کرنے والے نے پھر پوچھا اگر باقی ماندہ دو چیزوں انصاف اور معیشت میں سے ایک کو ترک کرنا لازمی ہو تو کیا کیا جائے؟ کنفیوشس نے کہا: معیشت کو چھوڑ دو۔ اس پر سوال کرنے والے نے حیرت سے کہا: معیشت اور دفاع کو ترک کیا تو قوم بھوکوں مر جائے گی اور دشمن حملہ کردیں گے؟ تب کنفیوشس نے کہا: نہیں! ایسا نہیں ہوگا، بلکہ انصاف کی وجہ سے اس قوم کو اپنی حکومت پر اعتماد ہوگا اور لوگ معیشت اور دفاع کا حل اِس طرح کریں گے کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر دشمن کا راستہ روک لیں گے۔ اس کی واضح مثال دنیا نے میدان بدر میں دیکھ لی۔ جب تین سو تیرہ نہتے جانبازوں نے ایک ہزار کے ایسے لشکرار جرار کو شکست دی، جو کیل کانٹے سے لیس تھا۔ ونسٹن چرچل کا قول بھی مشہور ہے کہ جب دشمن کی فوجیں برطانیہ پر پے درپے حملے کر رہی تھیں تو سپہ سالار نے چرچل سے کہا کہ دشمن عنقریب برطانیہ پر قبضہ کرلے گا اور ہم شکست کھا جائیں گے تو چرچل نے کہا کہ جا کر دیکھو کہ ہماری عدالتوں میں انصاف ہو رہا ہے کہ نہیں، اگر عدالتیں انصاف دے رہی ہیں تو برطانیہ کو کچھ نہیں ہوگا اور وقت نے یہی ثابت کیا کہ دشمن کو شکست ہوگئی اور برطانیہ آج تک نہ صرف قائم بلکہ دنیا کی ایک بڑی قوت ہے۔ مگر افسوس کہ وطن عزیز میں انصاف کا پورا نظام ہی تباہ ہے۔ معمولی جرائم میں قید و بند کی سزا پانے والے افراد جیلوں میں سڑتے اور مرتے ہیں۔ مگر اثر و رسوخ اور تعلقات رکھنے والے سینکڑوں افراد کے قاتل بھی رہائی پا لیتے ہیں۔ بد قسمتی سے حکمراں جماعت تحریک انصاف نے بھی اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے اس جانب کوئی پیشرفت کرتے دکھائی نہیں دے رہی، بلکہ الٹا سانحہ ساہیوال میں شہید ہونے والے بے گناہ افراد کے اہل خانہ پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ صلح کرلیں۔ جبکہ ایک بے گناہ شخص کو تو دہشت گرد ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔ اگر ہمارے حکمرانوں نے موجودہ روش نہیں بدلی تو ترقی کرنا دور کی بات، کہیں خدا نخواستہ ہمارے لئے اپنا وجود ہی باقی رکھنا مشکل نہ ہو جائے۔ ٭
٭٭٭٭٭