نظام انصاف کا تضاد

کراچی میں قانونی غیر قانونی عمارتیں گرانے کا عمل شروع ہوا تو جہاں پورا شہر کھنڈر میں تبدیل ہوگیا، وہیں ہزاروں افراد روزگار سے محروم ہوگئے۔ متاثرین آج بھی دربدر اور ان کے اہل خانہ فاقوں کی زد میں ہیں۔ یہ ساری کارروائی سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی کو تجاوزات سے پاک کرکے اس کی اصل حالت پر لانے کے حکم کی آڑ میں ہوئی۔ صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں نے شہر کا حلیہ بگاڑنے میں بھرپور کردار ادا کیا تھا، لیکن پھر وہی سپریم کورٹ کے حکم کو بہانہ بنا کر لوگوں پر ظلم و ستم ڈھانے لگیں۔ اس کا ایک پہلو اہل شہر نے یہ بھی دیکھا کہ اپنے پسندیدہ لوگوں کی تجاوزات ہٹانے سے حتی الامکان گریز کیا گیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کراچی شہر وسائل روزگار کا سب سے بڑا قومی مرکز ہے۔ ملک کے تمام علاقوں سے لوگ یہاں آکر آباد ہوئے اور اپنا رزق کماتے ہیں۔ دوسرے شہروں اور دیہات میں روزی کمانے کے باعزت ذرائع موجود ہوں تو کوئی بھی خاندان یا اس کا کفیل اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر دوسری جگہ جانے کو ترجیح نہیں دے گا۔ کراچی میں دکانوں کے آگے فٹ پاتھ اور سڑکوں پر جگہ جگہ سامان کے پتھارے اور ٹھیلے والوں کی اکثریت ملک بھر سے آنے والے غریب لوگوں کی ہے جو سردی، گرمی، بارش اور سخت دھوپ برداشت کرکے اپنے اہل خانہ کے لئے روزی کماتے ہیں۔ روزگار کی فراہمی پر حکومت کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ اس کے برعکس لوگوں کو روزگار سے محروم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا جائے تو اپنے فرائض سے غفلت کے علاوہ یہ حکومت کا ظلم بھی قرار پائے گا۔ ایسے معاملات میں سپریم کورٹ کو احکام جاری کرنے سے پہلے تمام عقائب و نتائج پیش نظر رکھنے چاہئیں، کیونکہ حکومتی ادارے انصاف کی فراہمی کے کسی فیصلے کو بھی ظلم و زیادتی میں بدل کر اپنے مقاصد پورے کرنے میں سرگرم ہو جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اب کراچی کی پانچ سو غیر قانونی طور پر قائم عمارتیں گرانے کا تازہ حکم جاری کیا ہے۔ عوام کے شدید ردعمل کے خوف سے صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے کہا ہے کہ ہم سپریم کورٹ سمیت تمام عدالتی فیصلوں کا احترام کرتے ہیں اور ان پر عملدرآمد کے پابند ہیں، لیکن گزشتہ دو روز میں جس طرح کے فیصلے آئے ہیں اور جس طرح پانچ سو عمارتوں کو توڑنے کے احکام دیئے گئے ہیں، یہ ہمارے لئے کسی صورت بھی ممکن نہیں، عدلیہ کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کسی پلاٹ کو قانون کے مطابق کمرشلائز کردیا جائے، اس کے دس پندرہ سال بعد عدلیہ حکم دے کہ اس کو توڑ کر وہاں رہنے والے ہزاروں افراد کو بے گھر کر دیا جائے یا متبادل رہائش فراہم کی جائے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر فاضل عدالت شہر میں رہائشی عمارتوں کو گرانے اور ان کے مکینوں کو بے گھر کرنے کے احکام دے تو میں بحیثیت وزیر بلدیات اپنے عہدے سے استعفیٰ تو دے سکتا ہوں، لیکن یہ کام نہیں کر سکتا۔ سعید غنی نے کہا کہ ہم اب تک تجاوزات کے تحت توڑی جانے والی دکانوں کے مالکان کو قانونی معاملات کے باعث متبادل دکانیں فراہم نہیں کر سکے ہیں تو ہزاروں خاندانوں کو کس طرح متبادل گھر چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں میں دے سکتے ہیں؟ حکومت سندھ کے پاس اتنا بجٹ نہیں کہ وہ اس کام پر خرچ کر سکے۔ دریں اثناء عمارتیں گرانے کے عدالتی حکم سے سندھ میں آئینی بحران کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ صوبائی حکومت نے اس پر عملدرآمد سے انکار کرکے حکام کو کسی قسم کی کارروائی نہ کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ سپریم کورٹ میں جمع کرانے کے لئے ڈائریکٹر جنرل بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی سمری کو بھی التوا میں ڈال دیا گیا ہے۔ البتہ پارکوں، رفاعی اور سرکاری اراضی پر تجاوزات کے خلاف ہنگامی آپریشن کلین اپ کی منظوری دے دی گئی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا ہے کہ رہائشی عمارتیں گرانے کا حکم نہیں آیا ہے۔ اہل وطن حیران و پریشان ہیں کہ چھوٹے چھوٹے رہائشی اور تجارتی پلاٹوں پر تو شہری، صوبائی اور وفاقی اداروں کے علاوہ عدلیہ کی بھی نظریں ہیں۔ ان میں بہت سی یقینا غیر قانونی بھی ہو سکتی ہیں، لیکن اپنے ملک میں یہ عجب رسم ہے کہ قومی دولت کے بڑے بڑے لٹیروں نے اندرون و بیرون ملک بے پناہ جائیداد املاک بنا رکھی ہیں، ان کے ملزمان برسوں سے بچے ہوئے ہیں۔ اگر وہ جیل میں ہوں تو وہاں بھی انہیں بہترین سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ معمولی بیماری پر ڈاکٹروں کے بورڈ تشکیل دیئے جاتے ہیں اور علاج و معالجے کی بہترین سہولتیں فراہم کرنے کے احکام جاری کئے جاتے ہیں، یہاں تک کہ بیرون ملک جانے کی اجازت بھی دے دی جاتی ہے۔ اس بہانے ملک سے فرار ہونے والے کئی مجرم تو آج تک واپس بھی نہیں آئے ہیں۔ امیر، متوسط اور غریب کے درمیان یہ امتیازی سلوک ہمارے نظام انصاف کا بڑا تضاد ہے، جس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
کراچی سرکلر ریلوے، شیخ رشید کا عزم
ریلوے کے وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے یکم فروری سے ریلوے ہیڈ کوارٹرز کو کراچی منتقل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے اب بحال نہ ہوئی تو پھر قیامت تک نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ ہم سرکلر ریلوے کا راستہ روکنے والوں کو روندتے ہوئے گزر جائیں گے۔ انہوں نے یکم فروری سے اٹھائیس فروری تک گینز ورلڈ ریکارڈ توڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس دوران ٹرین ہی میں رہوں گا اور وہیں سوئوں گا۔ دو کروڑ سے زیادہ آبادی والے شہر کراچی کے لئے سرکلر ریلوے کا منصوبہ گزشتہ کئی دہائیوں سے زیر التوا ہے، اس پر خوب سیاست ہوئی اور بے پناہ رقم بھی خرچ کی گئی۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو بلانے اور ان سے بھتے کمیشن طلب کرکے بھگانے کا سلسلہ بھی جاری رہا، لیکن کسی صوبائی اور وفاقی حکومت نے کوئی سنجیدگی ظاہر نہیں کی، حالانکہ کراچی سرکلر ریلوے سے ملک کی ترقی وابستہ ہے۔ اب جبکہ شیخ رشید احمد نے اسے بحال کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ اس بار یہ منصوبہ ضرور پایۂ تکمیل کو پہنچ کر رہے گا۔ شیخ رشید سے کوئی کتنا ہی اختلاف کرے، انہوں نے اپنے سابقہ دور میں بھی ریلوے کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اب بھی جو کہا ہے کہ سرکلر ریلوے ان کے موجودہ دور میں بحال نہ ہوئی تو قیامت تک نہیں ہوگی اور یہ کہ ہم سرکلر ریلوے کا راستہ روکنے والوں کو روندتے ہوئے گزر جائیں گے تو ان کی بات اور عہد پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment