عباس ثاقب
قسط نمبر: 243
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
میں نے سوچا کہ غیر رسمی طور پر تو اس طرح کے انتظام کی افادیت پہلے ہی ثابت ہو چکی ہے۔ ظہیر طویل عرصے سے پنجاب میں نہ صرف پناہ حاصل کرتا رہا ہے، بلکہ اپنی جدوجہد کے لیے اس علاقے سے کمک بھی حاصل کر رہا ہے۔ کشمیر میں اسے اور اس کے ساتھیوں کو قابض ہندوستانی فوج کے خلاف کارروائیوں کے بعد فرار ہوکر پوشیدہ ہونے کے لیے دشوار اور بلند و بالا پہاڑوں پر گھنے جنگلوں میں قدرتی پناہ گاہوں کی جو سہولت حاصل ہے، خالصتان کے جانباز اس سے محروم ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے ہمدردوں کے ہاں چھپ سکتے ہیں۔ لیکن انہیں ہر وقت مخبری کا شبہ رہتا ہوگا۔ اگر انہیں کشتواڑ جیسے مقامات پر پوشیدہ رہنے کے مواقع دستیاب ہوں تو وہ زیادہ بے جگری سے اپنے دشمنوں سے ٹکرا سکیں گے۔
خالصتان کے قیام کے لیے ہتھیار اٹھانے والے نوجوانوں کی کشمیر کے گھنے جنگلوں میں تربیت میں بھی ظہیر اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ دوسری طرف ظہیر اور اس کے ساتھیوں کو اپنے علاقے میں ہتھیاروں اور ایمونیشن کی کمی کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔ جسے پورا کرنے میں پنجاب اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کسی کشمیری کے مقابلے میں کسی پنجابی کے لیے ایمونیشن کا بندوبست کرنا کہیں زیادہ آسان ہے۔
یہی کچھ سوچتے سوچتے سورج مغرب کی طرف جھکنے لگا۔ اس دوران نیرج مجھے دو بار چائے پلا چکا تھا۔ بالآخر میں اپنے ٹھکانے سے نکلا اور لگ بھگ پوری اونچائی تک بلند گندم کے پودوں سے مزین سرسبز کھیتوں کا ایک طویل چکر لگاکر مغرب سے عین پہلے مہمان خانے میں لوٹ آیا۔
مجھے اندازہ تھا کہ کم ازکم نو گھنٹوں پر محیط دو طرفہ سفر اور ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان سے ممکنہ تفصیلی گفتگو اور کھانے پینے وغیرہ پر صرف ہونے والا وقت ملا کر امر دیپ اور بشن دیپ نصف رات سے پہلے بمشکل ہی واپس لوٹ سکیں گے۔ تاہم میں نے رات شروع ہوتے ہی لاشعوری طور پر ان کا انتظار شروع کر دیا۔
سردار براہم دیپ نے مجھے رات کے کھانے پر حویلی میں طلب کیا، لیکن میں اس کے ٹبر سے دماغ کھپانے میں اس وقت دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ لہٰذا میں نے نیرج کو کہا کہ میری معذرت پہنچاکر یہیں کھانا لے آئے۔
امر دیپ اور بشن دیپ میرے اندازے سے پہلے واپس لوٹ آئے۔ ان کی جیپ کی آواز سنی تو مجھے تشویش ہوئی کہ شاید ان کی ڈاکٹر چوہان سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ میں جلدی سے اٹھ کر مہمان خانے سے باہر نکلا۔ وہ دونوں جیپ سے اتر آئے تھے۔ میں نے دونوں سے مصافحہ کر کے سوالیہ نظروں سے ان کے چہرے کی طرف دیکھا۔ امردیپ میرے چہرے پر جھلکتی تشویش بھانپ کر مسکرایا۔ نیرج کی موجودگی میں وہ شاید واضح بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لیکن میرے لیے اپنے اشتیاق، بلکہ اضطراب پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا، لہٰذا میں نے امید بھرے لہجے میں پوچھا۔ ’’تقریب کیسی رہی امر دیپ بھائی؟‘‘۔
امر دیپ نے جواب دیا۔ ’’بہت اچھی۔ کافی کارآمد کھادیں تیار کی ہیں ان لوگوں نے۔ چلیں میں آپ کو تفصیل سے بتاتا ہوں‘‘۔ پھر وہ نیرج سے مخاطب ہوا۔ ’’پتا جی اور سب گھر والوں کو بتادو کہ ہم خیریت سے واپس آگئے اور بہادر سنگھ بھائی سے کچھ دیر گپ شپ کے بعد گھر آئیں گے۔ کھانا ہم نے پٹیالے میں کھالیا تھا، بس تم اچھی سی چائے بناکر لے آؤ‘‘۔
نیرج کو وہاں سے ٹالنے کے بعد دونوں بھائی میرے کمرے میں آگئے۔ میری بے تابی کے پیش نظر امر دیپ نے مزید وقت ضائع کیے بغیر بتانا شروع کیا۔ ’’فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے چھوٹے بھائی۔ ہم نے ڈاکٹر چوہان سے نہ صرف ملاقات کرلی ہے، بلکہ یہ ملاقات ہماری توقع سے زیادہ کامیاب بھی رہی ہے‘‘۔
اس موقع پر بشن دیپ نے بات آگے بڑھائی۔ ’’ہم نے ذاکر اور اس کے آزادی پسند کشمیری لڑاکوں کے بارے میں انہیں بتایا اور دونوں قوموںکے درمیان ممکنہ تعاون کی تجویز پیش کی تو وہ پہلے تو، جیسا کہ ہمیں پہلے ہی اندازہ تھا، تشویش اور اندیشوں میں گرفتار دکھائی دیئے۔ پھر جب ہم نے یقین دلایاکہ یہ کوئی سرکاری ہتھ کنڈا نہیں ہے اور ذاکر واقعی کشمیری جنگجو ہے، جو اپنے علاقے میں غاصب ہندو فوج کو بھاری جانی نقصان پہنچا چکا ہے تو بظاہر وہ مطمئن ہوگئے‘‘۔
میں نے قدرے مایوس لہجے میں کہا۔ ’’صرف مطمئن ہوئے؟ کسی دلچسپی یا جوش کا مظاہرہ نہیں کیا؟‘‘۔
بشن دیپ کے بجائے امر دیپ نے جواب دیا۔ ’’یار، پہلے پوری بات تو سن لو بھائی۔ انہوں نے ہماری باتوں میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ ہم نے تو دونوں طرف کے اشتراک کے دو تین ہی فائدے گنوائے تھے، انہوں نے تو جواب میں تین چار فائدے اور گنوا دیئے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس موضوع پر پہلے بھی غور و فکر کر چکے ہیں،۔ لیکن پیش قدمی کے لیے کوئی ٹھوس راستہ سامنے نہ پاکر انہوں نے اس معاملے کو مناسب وقت کے لیے اٹھاکر رکھ دیا تھا‘‘۔
بشن دیپ نے گفتگو کی ڈور ایک بار پھر اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔ ’’جب ہم نے انہیں یقین دلادیا کہ ذاکر حقیقی کشمیری لڑاکا ہے اور اس کے ذریعے معاملہ آگے بڑھایا جاسکتا ہے تو انہوں نے پُر جوش لہجے میں کہا کہ یہ معاملہ بلا تاخیر عملی رخ پر آگے بڑھایا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تم اس لڑکے ذاکر کو زیادہ سے زیادہ دو تین دن میں امرتسر میں ہرمندر صاحب لے کر آجائو‘‘۔
میں نے دہرایا۔ ’’ہرمندر صاحب؟‘‘۔
امر دیپ نے کہا۔ ’’ہاں بھائی، دربار صاحب، جسے گولڈن ٹیمپل بھی کہتے ہیں، سکھ مت کا سب سے مشہور اور مقدس گردوارہ اور سب سے اہم یاترا ہے‘‘۔
میں نے بات بناتے ہوئے کہا۔ ’’وہ سب تو مجھے پتا ہے، میں تو اس لیے چونکا ہوں کہ ہوشیار پور کے بجائے ہرمندر صاحب کیوں بلوایا ہے بڑے صاحب نے؟‘‘۔
امر دیپ نے جواب دیا۔ ’’اس لیے بہادر سنگھ بھائی کہ گولڈن ٹیمپل ہماری تحریک کا مرکز ہے۔ ڈاکٹر جگجیت چوہان بہت محتاط انسان ہیں۔ وہ ہماری بات کا اعتبار کرنے کے باوجود ہوشیار پور میں اپنے کلینک یا گھر پر کسی کشمیری لڑاکے سے ملاقات کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہوں گے۔ ہرمندر صاحب ایسی کسی ملاقات کے لیے محفوظ اور موزوں ترین جگہ ہے۔
(جاری ہے)