قسط نمبر 23
ڈاکٹر فرمان فتحپوری
ترتیب و پیشکش
قمر زمانی بیگم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ اور ان کی اہمیت کیا ہے؟ ان سوالوں کے مفصل جوابات آپ کو اس تحریر کے مطالعہ سے خود معلوم ہوجائیں گے۔ ابتداً اتنا ضرور کہنا ہے کہ اِن کے اور اُن کے معاشقے کی جو داستان یہاں بیان کی جارہی ہے۔ وہ فرضی نہیں حقیقی ہے۔ من گھڑت نہیں سچا واقعہ ہے۔ محض ایک رنگین و رومان پرور کہانی نہیں، ادبی تاریخ کا ایک دلکش باب ہے۔ معمولی اشخاص کی زندگی کی تفصیل نہیں، علم و ادب کی غیر معمولی شخصیتوں کا مرقع ہے۔ سنی سنائی باتوں کا مصنوعی مجموعہ نہیں، خطوط کی صورت میں ایک خاص عہد کی ادبی دستاویز ہے۔ جس کے منتخب حصے قارئین امت کی نذر ہیں۔
’’عکاس‘‘ کے خط نما انشائیہ سے گمان ہوتا ہے کہ ’’نقاد‘‘ میں ’’بلبل و گلاب‘‘ کے عنوان سے جو مضمون شائع ہوا ہے، وہ بھی نیاز فتح پوری ہی کا ہے۔ اس خیال کو یوں بھی تقویت پہنچتی ہے کہ نقاد میں کبھی قمر زمانی کے نام سے، کبھی کہکشاں کے نام سے، کبھی ناہید کے نام سے، کبھی ثریا کے نام سے اور کبھی بلقیس کے فرضی نام سے رومانی تحریروں کا کھیل نیاز صاحب کھیل رہے تھے۔ چونکہ ’’بلبل و گلاب‘‘ ایک بلند پایہ انشائیہ ہے اور ادب کے قارئین کے نظر سے اوجھل ہے، اس لئے یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’بلبل وگلاب‘‘
’’اس نے کہا ہے کہ وہ میرے ساتھ رقص کرے گی۔ اگر میں اس کے لئے سرخ گلاب لادوں۔ نوجوان طالب علم پکار اٹھا۔ لیکن میرے باغ میں تو کوئی سرخ گلاب نہیں ہے۔ اپنے آشیانہ میں سدا بہار شاہ بلوط کے درخت پر بلبل نے اسے سنا، پتیوں میں سے جھانکا اور متعجب ہوئی‘‘
’’میرے تمام باغ میں ایک بھی سرخ گلاب نہیں‘‘۔ وہ پھر بولا اور اس کی حسین آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں۔ آہ کس قدر حقیر چیزوں پر آسودگی منحصر ہے۔ میں نے وہ سب کچھ پڑھا ہے، جو عقلا نے لکھا ہے اور فلسفہ کے راز گویا میرے اپنے ہیں۔ لیکن ایک سرخ گلاب کے نہ ہونے نے میری زندگی کو المناک بنا دیا ہے‘‘۔
’’بالآخر یہاں ایک سچا عاشق مل ہی گیا‘‘۔ بلبل بولی راتیں گزر گئی ہیں کہ میں اس کا گیت گایا کرتی ہوں، حالانکہ میں اسے نہیں جانتی تھی۔ راتیں گزرگئی ہیں کہ اس کی کہانی ستاروں کو سنایا کرتی ہوں اور آج میں اسے دیکھ رہی ہوں۔ اس کے بال سیاہ ہیں۔ سیاہ جیسے غنچۂ سنبل اور اس کے ہونٹ سرخ ہیں۔ سرخ جیسے گلاب، جس کی اسے تلاش ہے۔ لیکن محبت نے اس کے چہرے کو زرد بنایا ہے۔ اور غم نے اپنی مہر اس کی پیشانی پر ثبت کر دی ہے۔ ’’شہزادہ کے یہاں کل شب کو جلسہ رقص ہونے والا ہے‘‘۔ نوجوان طالب علم پھر آہستہ سے بولا۔ ’’اور میری محبوبہ بھی شریک ہوگی۔ اگر میں اسے ایک سرخ گلاب لادوں تو میں اسے اپنی آغوش میں لے سکوں گی اور وہ اپنا سر میرے شانہ پر ڈال دے گی اور اس کے ہاتھ میرے ہاتھوں میں ہوں گے۔ مگر میرے باغ میں تو ایک بھی سرخ گلاب نہیں ہے، اس لئے میں تنہا بیٹھا رہوں گا اور وہ میرے پاس سے گزر جائے گی۔ ذرا توجہ نہ کرے گی اور میرا دل ٹوٹ کر رہ جائے گا‘‘۔
’’حقیقتاً یہ ایک سچا چاہنے والا ہے‘‘۔ بلبل نے کہا۔ ’’جس کا میں گیت گاتی ہوں یہ اس کا مبتلا ہے جو چیز میرے لئے مسرت ہے وہی اس کے لئے الم ہے۔ یقیناً محبت عجیب و غریب شے ہے۔ وہ زمرد سے زیادہ قیمتی اور نفیس لال سے زیادہ گراں بہا ہے۔ ہیرے اور موتی سے اس کا سودا نہیں ہو سکتا اور نہ وہ بازار میں پیش کی جاسکتی ہے۔ دنیا کی تمام دولت اس کی قیمت ادا نہیں کر سکتی اور نہ وہ سونے کے عوض میں وزن کی جا سکتی ہے۔ مطرب اپنی اپنی جگہوں پر تار ہائے رباب کو چھڑیں گے اور میری محبوبہ نغمہ بربط و سرود پر رقص کرے گی۔ وہ رقص کرے گی، ایسا سبک رقص کہ گویا اس کے پاؤں فرش کو چھوتے ہی نہیں۔ ارباب محفل پرتکلف لباس میں اس کے گرد جمع ہوں گے، مگر وہ میرے ساتھ رقص نہیں کرے گی۔ کیونکہ میرے پاس کوئی سرخ گلاب اس کے دینے کو نہیں ہے۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے آپ کو فرش سبزہ پر ڈال دیا اور سرجھکا کر رونے لگا۔
’’یہ کیوں رو رہا ہے۔ ایک کوے نے پوچھا، جبکہ وہ اس کے پاس سے گزرا‘‘۔
’’سچ تو یہ ہے آخر کیوں، ایک تیتری بولی، جو شعاع آفتاب سے پیدا ہونے والی فضائے نور میں تھرتھرا رہی تھی‘‘۔
’’ہاں آخر اس رونے کا سبب‘‘۔ ایک گل بہار نے اپنے ہمسایہ سے نہایت دبی آواز میں سرگوشی کی۔ ’’وہ ایک سرخ گلاب کے لئے رو رہا ہے‘‘۔ بلبل نے کہا۔
’’کیا ایک گلاب کے لئے‘‘۔ وہ سب بولے۔ ’’کتنا مضحک خیال ہے‘‘۔ اور وہ کوا جو کسی قدر مغرور بھی معلوم ہوتا تھا، ہنسا اور قہقہہ مار کر ہنسا۔
مگر بلبل، طالب علم کے راز الم کو سمجھ گئی اور شاہ بلوط کے درخت میں خاموش بیٹھی رہی اور طلسم زار محبت پر غور کرتی رہی۔ یکایک اس نے اپنے بازوؤں کو پرواز کے لئے ہوا میں پھیلا دیا اور فضا میں صعود کر گئی۔ اس نے ایک کنج کو سایہ کی طرح طے کیا اور سایہ ہی کی طرح ایک باغ کو عبور کرگئی۔ ایک سبزہ زار کے وسط میں ایک گلاب کا درخت لگا تھا۔ بلبل نے جب اس درخت کو دیکھا تو اس کی طرف اتری اور ایک شاخ پر بیٹھ گئی۔
’’مجھے ایک سرخ پھول دے‘‘۔ وہ بولی۔ ’’میں اپنا شیریں ترین نغمہ تجھے سناؤں گی۔ لیکن درخت نے اپنا سر ہلایا۔ ’’میرے پھول سفید ہیں‘‘۔ اس نے جواب دیا۔ ’’سفید جیسے کف دریا اور سفید تر پہاڑوں کی برف سے۔ لیکن تو میرے بھائی کے پاس جو پرانی دھوپ گھڑی کے پاس ملے گا، شاید وہ تجھے ایسا پھول دے گا، جس کی تجھے تلاش ہے۔ چنانچہ وہ وہاں سے اڑ کر اس درخت کے پاس پہنچی، جو دھوپ گھڑی کے پاس تھا۔
’’مجھے ایک سرخ پھول دے‘‘۔ وہ بولی۔ ’’میں تجھے اپنا شیریں ترین نغمہ سناؤں گی‘‘۔ لیکن درخت نے اپنا سر ہلایا۔ ’’میرے پھول زرد ہیں‘‘۔ اس نے جواب دیا۔ ’’زرد جیسے بنت البحر کے بال، جو ایک تخت کھربا پر بیٹھی ہے اور زرد تر ہیں اس گل نرگس سے، جو آخر ایام خریف میں، قبل اس کے کہ وہ کاٹ لی جائے۔
چراگاہوں میں پھولتا ہے۔ لیکن تو میرے بھائی کے پاس جا، جو طالب علم کی کھڑکی کے نیچے لگا ہوا ہے۔ شاید وہ تجھے ایسا پھول دے سکے گا، جس کی تجھے تلاش ہے‘‘۔
چنانچہ وہ وہاں سے اڑ کر اس درخت کے پاس پہنچی، جو طالب علم کی کھڑکی کے نیچے لگا ہوا تھا۔
’’مجھے ایک سرخ پھول دے‘‘۔ وہ بولی۔ ’’اور میں تجھے اپنا شیریں ترین نغمہ سناؤں گی‘‘۔ لیکن اس درخت نے اپنا سر ہلایا۔ ’’میرے پھول سرخ ہیں۔ اس نے جواب دیا۔ ایسے سرخ جیسے فاختہ کے پاؤں اور سرخ تر ہیں۔ شاخ مرجاں سے جو بحری غاروں میں لہریں لیتی رہتی ہے۔ لیکن سردی نے میری شرائیں کو منجمد کردیا ہے۔ میرے غنچوں کو پالا مار گیا ہے اور طوفان نے میری شاخیں توڑ ڈالی ہیں اور اس سال مجھ میں کوئی پھول نہ آئے گا۔ ہاں ایک طریقہ ہے‘‘۔ درخت نے جواب دیا۔ ’’لیکن وہ اس قدر خوفناک ہے کہ میں تجھ سے کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا‘‘۔
’’مجھ سے کہہ‘‘۔ بلبل بولی۔ ’’میں خوف نہ کھاؤں گی‘‘۔ (جاری ہے)