افغان امن مذاکرات

مسعود ابدالی

پاکستان کے سوشل میڈیا پر طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے کے بارے میں پھیلنے والی افواہ میں کوئی صداقت نہیں۔ طالبان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ گفتگو خوشگوار ماحول میں ہوئی اور امریکہ کی جانب سے مفاہمت کی خواہش بڑی واضح ہے، لیکن پیر سے جمعہ تک جاری رہنے والے مذاکرات ابھی تک منطقی انجام کو نہیں پہنچے اور افغانستا ن کے طول و عرض میں موجود طالبان مستعد، سربکف اور حالتِ جنگ میں ہیں۔ امریکی وفد کے سربراہ زلمے خلیل زاد اشرف غنی انتظامیہ سے ملاقات کے لئے کابل گئے اور پھر اتوار کی شام واپس قطر آگئے، جس کے بعد آج پیر سے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہونے کی توقع ہے۔
طالبان وفد کے سربراہ ملا عبد الغنی برادر کا کہنا ہے کہ جب تک تمام نکات پر اتفاق نہیں ہو جاتا، طالبان جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے اور نہ ہی میدان میں مورچہ زن طالبان اپنے ہتھیاروں سے غافل ہوں گے۔
ادھر زلمے خلیل زاد نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ بات چیت میں خاصی کامیابی ہوئی ہے اور کئی امور پر مفاہمت ہوتی نظر آرہی ہے، لیکن ابھی بہت کام باقی ہے۔ اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ جب تک افغانوں کے درمیان (Intra-Afghan) بات چیت اور کامل و مؤثر (Comprehensive) فائر بندی پر اتفاق نہیں ہوتا، معاہدے پر دستخط نہیں ہوں گے۔
زلمے خلیل زاد کی جانب سے Intra-Afghan کا شوشہ مایوس کن ہے، یعنی امریکہ اب بھی کابل حکومت کو مذاکرات کی میز تک لانے پر اصرار کر رہا ہے۔ تاہم کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اپنے مؤقف سے باعزت پسپائی کے لئے یہ اصطلاح استعمال ہوئی ہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکہ معاہدے پر دستخط سے پہلے کابل انتظامیہ کو اعتماد میں لے گا، جس کے بعد اشرف غنی یہ اعلان کریں گے کہ معاہدہ ان کی مرضی سے ہو رہا ہے۔
اشرف غنی نے پاکستان کو دبائو میں لینے کے لئے کل ڈیوس (سوئٹزر لینڈ) میں ایک بار پھر امن بات چیت کے حوالے سے پاکستان کی عدم دلچسپی اور inaction کی شکایت کی۔ انہوں نے بقراطی جھاڑتے ہوئے اسلام آبادکو باور کرایا کہ افغانستان میں امن خود پاکستان کے لئے بہتر ہے اور انہیں بڑی حیرت ہے کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے اپنا مؤثر کردار کیوں نہیں ادا کر رہا۔ شاید ڈاکٹر صاحب کے مشیروں نے ان کو بتایا ہے کہ گزشتہ پانچ دنوں سے طالبان اور امریکی وفود قطر میں والی بال کھیل رہے ہیں۔ معلوم نہیں ان کے خیال میں مذاکرات کس چڑیا کا نام ہے۔
دوسری جانب طالبان عبوری حکومت اور سیٹ اپ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ملا عبد الغنی برادر اخوندزادہ کو امارات اسلامی افغانستان کا نائب امیر المومنین مقرر کر دیا ہے۔ ملا برادر قطر میں طالبان کے امن وفد کی قیادت بھی کر رہے ہیں۔ 50 سالہ ملا برادر نے ملا عمر کے ساتھ مل کر طالبان تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ انہیں فروری 2010ء کو ایک مشترکہ کارروائی میں کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ملا صاحب کو شکایت ہے کہ گرفتاری کے دوران انہیں امریکیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ ملابرادر کو اکتوبر 2018ء میں رہا کر دیا گیا تھا۔
اگر امن معاہدہ طے پا گیا تو افغان فوج کو طالبان میں مدغم کرنے کے کام کی نگرانی ملا عبد الکبیر کریں گے۔ ملا کبیر طالبان کی سیاسی کمیٹی کے رکن ہیں اور صوبے ننگرہار کے گورنر رہ چکے ہیں۔
افغان حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں قحط اور غذائی قلت کی وجہ سے بچوں کی نشوونما متاثر ہو رہی ہے اور مغربی افغانستان کے بعض علاقوں میں وبائی امراض کا بھی خطرہ ہے، جس کی بنا پر طالبان نے معاہدے کی صورت میں صحت عامہ کو اولین ترجیح دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملا فیض اللہ اخوند عبوری حکومت کے وزیر صحت ہوں گے۔ ملا اخوند سابق امیر المومنین ملا اختر منصور کے نائب تھے۔ ملا کبیر اور ملا فیض اللہ دونوں گوانتانامو کے عقوبت خانے میں سزا کاٹ چکے ہیں۔ ٭

Comments (0)
Add Comment