’’السلام علیکم سیلانی بھائی! کیا حال چال ہے، آپ ٹھیک ٹھاک ہو؟‘‘
بات کرنے والے کا لہجہ بتا رہا تھا کہ سیلانی کا مخاطب مقبوضہ کشمیر کا ڈار، لون، بھٹ یا کوئی منشی، وانی ہے۔ اس جنت نظیر وادی کے لوگ اردو سمجھ بھی لیتے ہیں، بولتے بھی ہیں اور پڑھ بھی لیتے ہیں، لیکن بعض الفاظ کی ادائیگی میں انہیں مشکل ہوتی ہے، ان کی بات سمجھنے کے لئے مکمل دھیان دینا پڑتا ہے۔ سیلانی نے پہلی بار یہ لہجہ استنبول میں سنا تھا، جہاں مقبوضہ کشمیر کے ایک نوجوان طالب علم سے ملاقات ہوئی تھی۔ دوسری بار اس نے یہ لہجہ کراچی میں ایک نیوز رپورٹ کی تیاری کے دوران معروف کشمیری بزرگ اور ولی اللہ حضرت انور شاہ کشمیریؒ کے بھتیجے کے گھر میں اس وقت سنا تھا، جب ان کے اہل خانہ سیلانی کے سامنے ویڈیو کال پر مقبوضہ وادی میں اپنے عزیزوں سے رابطہ کیا تھا۔
سیلانی نے فون کان سے لگاتے ہوئے سلام کا جواب دیا اور کہا ’’کیا حال ہے، سردی تو بہت ہوگی؟‘‘
’’آج ذرا کم ہے، لیکن پھر بھی ٹمپریچر مائنس میں ہے۔‘‘
’’دوست!! سچی بات ہے مجھے تو سمجھ ہی نہیں آرہا کہ آپ سے کیا بات کروں، میرے لئے یہ اعزاز ہے کہ میں ایک مجاہد سے بات کر رہا ہوں۔‘‘
’’اللہ، اللہ… سیلانی بھائی! اللہ مجاہد بنا دے، آپ دعا کرنا، ہم نے تو بس بندوق اٹھا لیا ہے، اللہ اسے قبول کرلے۔‘‘
یہ کہہ کر اس نوجوان نے سیلانی کو خوشگوار حیرت میں ڈال دیا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اس نے سیلانی کے کالم پڑھ رکھے ہیں۔
’’ارے واہ! مگر، مگر آپ کو میرا کالم کہاں سے ملے؟‘‘
’’سیلانی بھائی! دنیا چھوٹا سا ہوگیا ہے ’’کھبر‘‘ کی اسپیڈ بلٹ کی اسپیڈ سے کم نہیں ہوتی، ہم ادھر گولی چلاتے ہیں، ادھر انڈین آرمی کو پتہ چل جاتا ہے اور ساتھ ہی میڈیا میں بھی نیوز آجاتا ہے، اسی طرح دنیا میں کچھ بھی ہوتا ہے تو پتہ چل جاتا ہے، ہم جنگل میں رہتے ہیں، لیکن ’’کھبر‘‘ برابر رکھتے ہیں۔‘‘
’’موبائل کے استعمال سے آپ غیر محفوظ نہیں ہوتے؟ انڈین انٹیلی جنس کو آپ لوگوں کی نشاندہی نہیں ہوتی؟‘‘
’’کیوں نہیںہوتی، ان کے پاس latest devicesہیں، mobile locater ہیں، لیکن ہم بھی احتیاط کرتے ہیں، کچھ نہ کچھ کرتے ہیں۔‘‘
سیلانی اس وقت مقبوضہ وادی میں غاصب بھارتی فوجیوں سے برسر پیکار ایک مجاہد سے گفتگو کر رہا تھا۔ گفتگو کرانے والے دوست نے نہ تو سیلانی سے اس مجاہد کا تعارف کرایا، نہ سیلانی نے کوئی سوال کیا۔ البتہ اس نے سیل فون سیلانی کو دینے سے پہلے سیلانی کے حوالے سے دو تعارفی جملے ضرور کہہ دیئے تھے۔
’’اللہ آپ لوگوں سے راضی رہے، یوم جمہوریہ کیسا رہا؟‘‘
’’ہمارا تو یہ یوم سیاہ ہوتا ہے، ہمیشہ کی طرح Black
day منایا۔ سری نگر، بڈگام، پہلگام، کپواڑہ اور سارے کشمیر میں کالے جھنڈے لگائے اور مجاہدین نے چھ گھنٹوں میں چھ Attack کیا۔ ایک بی ایس ایف کا سپاہی کھتم کیا اور ان شاء اللہ سب کو کھتم کر دے گا یا کھود کھتم ہو جائے گا، شہید ہو جائے گا۔‘‘
ابو مجاہد گفتگو میں بارہا انگریزی زبان کے الفاظ بھی استعمال کر رہا تھا، جس سے سیلانی کو اندازہ ہوا کہ وہ کسی اسکول کالج کا پڑھا ہوا ہے۔ سیلانی نے یہ بات پوچھی تو ابو مجاہد بے ساختہ ہنس پڑا۔
’’میں گریجویٹ ہوں سیلانی بھائی! اب اس تحریک میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر، انجینئر، ایم اے، ایم ایس سی پاس نوجوان بھی شامل ہو چکا ہے۔ انڈیا نے اتنا ظلم کیا کہ ان سے برداشت نہیں ہوا، انہوں نے قلم چھوڑ کر بندوق اٹھا لیا، اب انڈین آرمی کے لئے عذاب بنے ہوا ہے۔‘‘
اتنا کہہ کر ابو مجاہد نے سیلانی سے کہا ’’سر! میں آپ سے زیادہ لمبا بات نہیں کر سکتا، یہاں کھطرہ (خطرہ) ہو جائے گا، بس مجھے ایک بات پوچھنا ہے میرا کھواہش تھا کہ کبھی کسی پاکستانی جرنلسٹ یا آفیشل سے بات ہو تو میں پوچھوں۔‘‘
’’جی جی فرمایئے‘‘
’’آپ لوگوں کو فریڈم کا قدر کیوں نہیں آتا، ہم یہاں پاکستان کے لئے جان دیتا ہے، سب جان دیتا ہے، ہمارے لئے پاکستان مسجد جیسا ہے، لیکن کبھی کبھی ایسا نیوز بھی آتا ہے کہ دل دکھ جاتا ہے، ابھی ہم نے الجزیرہ پر ایک پاکستانی جرنلسٹ کا آرٹیکل پڑھا کہ کیا پاکستان میں ایک اور بنگلہ دیش بن رہا ہے، پاکستان میں کوئی جماعت ہے پی ٹی ایم، جو کہہ رہا ہے کہ وہاں پٹھانوں پر بڑا ظلم ہو رہا ہے، ہم نہیں جانتا کہ یہ کتنا سچ ہے، ہو سکتا ہے سچ ہو، لیکن تھوڑا سچ ہو گا، زیادہ نہیں، اس کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف بات کرنا بالکل مناسب نہیں ہے… ہمارا سیاست سے کیا کام، ہمیں تو کل کا بھی نہیں پتہ کہ زندہ ہوں گے یا نہیں، لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ کسی نے ظلم دیکھنا ہے تو کشمیر آجائے اور دیکھے… بڑا دکھ ہوتا ہے جب کوئی پاکستان کے لئے غلط بات کرتا ہے، ہمیں بالکل اچھا نہیں لگتا‘‘۔
ابو مجاہد کے اس پیغام نے سیلانی پر ٹھنڈے یخ بستہ موسم میں جیسے گھڑوں پانی ڈال دیا ہو۔ اس کی تو زبان ہی تالو سے لگ گئی، اس نے کوشش کی کہ کچھ کہے، لیکن بس تھوک نگل کر رہ گیا۔ دوسری طرف سے کچھ آوازیں آئیں اور پھر ابو مجاہد کی آواز آئی:
’’اب جانا ہے، زندگی رہی تو پھر ملیں گے، اللہ حافظ۔‘‘
سیلانی نے کمزور سی آواز میں ان شاء اللہ کہا اور لب بھینچ کر صوفے پر بیٹھ گیا۔ ابو مجاہد سے بات کرانے والا دوست کہنے لگا ’’انہیں اب فوراً ہی علاقہ چھوڑنا ہوگا، ورنہ کریک ڈاؤن ہو سکتا ہے، انڈیا کی الیکٹرونکس انٹیلی جنس بہت جدید ہے۔‘‘ سیلانی نے خاموشی سے سر ہلا دیا۔
سیلانی کی خواہش تھی کہ مقبوضہ کشمیر کے کسی مجاہد سے رابطہ ہو اور وہ کسی شیر دل مجاہد سے بات کرے۔ بھارت کے یوم جمہوریہ پر تو یہ ممکن نہ ہو سکا، کیوں کہ پوری وادی میں ہائی الرٹ تھا اور موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی بند تھی، البتہ دوسرے دن اس کے ایک دوست کے توسط سے اس کی یہ خواہش پوری ہوگئی، لیکن اس طرح کہ ایک مجاہد کے پیغام نے پاکستانی کی حیثیت سے اس کا سر شرم سے جھکا دیا، وہ کشمیری مجاہد یقینی طور پر الجزیرہ میں 13 جنوری 2019ء کو شائع ہونے والے مضمون کے بارے میں بات کر رہا تھا، جس میں ایک خود ساختہ جلاوطن صحافی نے قوم پرستی کے لبادے میں پاکستان مخالف قوتوں کی پشت سہلائی گئی تھی۔ منظور پشتین کی تحریک کو حق بجانب دکھا کر اسے مسیحا بنا کر قبائلیوں کو اس کی جانب متوجہ کیا گیا تھا اور مضمون نگار نے عالمی سطح پر منظور پشتین کو متعارف کرانے کی تحریک میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ نفس مضمون کے مطابق فاٹا میں قبائل کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جا رہا ہے، جو دشمنوںکے ساتھ روا رکھا جاتا ہے اور جوکبھی بنگالیوں کے ساتھ رکھا گیا۔ اس خود ساختہ جلاو طن صحافی نے زہر میں بجھے قلم سے ننانوے فیصد جھوٹ اور صرف ایک فیصد سچ لکھا تھا کہ پی ٹی ایم ایک اور بنگلہ دیش بنانا چاہتی ہے… انہوں نے یہ سچائی چھپا لی تھی کہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں بھارت نے کتنی دہائیاں کیا کیا محنت کی تھی۔ پروپیگنڈے کی ہانڈی میں شکوے شکایتیں ڈال کر کیسے نفرت کی آگ جلا ئی تھی۔ تب ہی تو اندرا گاندھی نے سقوط ڈھاکہ کے بعد اسمبلی میں نظریۂ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبونے کا فخریہ اعلان کیا تھا۔ آج پھر وہی قوتیں اس کھیل کو دوہرانا چاہتی ہیں اور وہ کھلاڑی تلاش کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ قبائل کی ساری شکایات بے بنیاد اور سارے مطالبات غلط ہیں۔ قبائلی پشتونوں کی وطن سے محبت آنگن میں چمکتی دھوپ کی طرح روشن ہے۔ انہوں نے اس ملک کی خاطر قربانیاں دیں، اس ملک کی خاطر آئی ڈی پیز بنے، ہجرت کی اور اب واپس ہو رہے ہیں تو منہدم دیواریں اور مٹی کے ڈھیر ان کے منتظر ہیں۔ حکومت جو دے رہی ہے، وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ نہیں، زیرے کا چھلکا ہے اور اس میں بھی کرپشن کی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ یہ شکایات ترجیحی بنیادوں پر دور ہونی چاہئیں تاکہ کسی خود ساختہ جلا وطن کو پروپیگنڈے کی ہانڈی میں چمچ ہلانے کا موقع نہ ملے اور کوئی کھرا پاکستانی دکھی دل ے پاکستان کی قدر کرنے کا پیغام نہ دے… سیلانی نے یہ سوچتے ہوئے ٹھنڈی سانس لی اور دوست کی طرف موبائل فون بڑھا کر اسے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭