مغربی ملائیشیا میں گیارہ ریاستیں ہیں۔ پینانگ اور ملاکا ریاستوں کے علاوہ باقی نو ریاستوں میں سلطان ہیں، جو باری باری چار برس کے لیے پورے ملک (مشرقی اور مغربی ملائیشیا) کے بادشاہ بنتے ہیں۔ ہمارے مہربان دوست سید احمد شہاب الدین اور ان کے کزن مہاتیر محمد کا تعلق کیداح ریاست سے ہے۔ یہ ایک شمالی ریاست ہے۔ اس کے شمال اور مشرق میں تھائی لینڈ ہے اور جنوب میں پیراک، پینانگ ریاستیں ہیں۔ اس کے مغرب میںMalacca Srta Its ہے۔ دریائے سندھ کی طرح یہ ایک تنگ سی سمندری گزرگاہ ہے، جو بحرہند اور جنوبی چینی سمندر کو ملاتی ہے۔ ہم کولمبو، کلکتہ اور چٹا گانگ سے سنگاپور جانے کے لیے اپنے جہازوں کو اسی تنگ آبی گزرگاہ سے لاتے تھے۔ یہ ’’ راستہ‘‘ صدیوں سے استعمال ہوتا چلا آرہا ہے، اُس وقت سے جب انجن بھی ایجاد نہیں ہوئے تھے، چوبی بیڑے جن پر کپڑے کے بادبان ہوتے تھے، وہ ہوا کے زور پر اور ہوا کے رُخ کے مطابق چلتے تھے۔ آثار قدیمہ کی کئی چیزوں سے یہ ثبوت ملے ہیں کہ جنوبی ہندوستان کی تامل سلطنت کا سن110 ء سے سمندر کے راستے اس ریاست (کیداح) کے ساتھ تجارتی روابط تھے اور انہی کا کیداح پر راج تھا۔
جس طرح شاہ عبد اللطیف کے اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ سندھ کے لوگوں کا لنکا (سری لنکا) عدن اور جاوا میں سمندر کے ذریعے آنا جانا اور بیوپار تھا، اس طرح دوسری عیسوی صدی کے ایک تامل گیت ’’پاتی نا پالائی‘‘ میں کیداح ریاست کا ذکر ملتا ہے۔ تامل اور مرہٹی ادب میں کیداح کو مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔ مثلاً کادارام، کاتا ہانگارا، کاتا ہادویپا۔
ملئی زبان کی تاریخ ’’حکایات میرونگ مہا ونگسا‘‘ کے مطابق کیداح ریاست ہندو بادشاہت کے ماتحت تھی۔ 1136ء میں کیداح سلطنت وجود میں آئی، جب ہندو بادشاہ فرا اونگ مہاونگسا مسلمان ہوا اور اپنا اسلامی نام سلطان مظفر شاہ رکھا۔ اس کا تعلق سیام (موجودہ تھائی لینڈ) سے تھا۔ پندرہویں صدی میں ملاکا سلطنت کے قیام کے بعد وہاں کی ملئی حکومت نے کیداح کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ سترہویں صدی میں ملاکا پر قبضہ کرنے کے بعد پرتگالیوں نے کیداح پر حملہ کردیا۔ بعد میں کیداح پر دوبارہ سیامی قابض ہوگئے۔ تب کیداح کے سلطان نے سیامی (تھائی سلطنت) سے جان چھڑانے کی غرض سے آج کا پینانگ (جو کیداح کا حصّہ تھا) انگریزوں کی خواہش پر انہیں کوڑیوں کے دام فروخت کردیا، یہ اٹھارہویں صدی کے آخری برسوں کا ذکر ہے۔ انگریزوں نے پینانگ جزیرے کو خوب ترقی دی اور انگریزوں کی موجود گی کے سبب سیام والوں کے کیداح کے سلطان پر بڑھتے ہوئے دباؤ میں قدرے کمی آئی۔ لیکن 1811ء میں سیام والوں نے کیداح پر حملہ کر کے اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔ تقریباً ایک سو سال کے بعد 1909ء میں کیداح کا کنٹرول انگریزوں کے حوالے کیا گیا۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران کیداح (اور کیلنتان) ملایا کی پہلی ریاستیں تھیں، جو جاپانیوں کے ہتھے چڑھیں۔ اس کے بعد باقی ملایا اور سنگاپور پر قابض ہوئے۔ جاپانیوں نے فوراً کیداح ریاست کا انتظام تھائی لینڈ کے حوالے کردیا، جنہوں نے ریاست کا وہی ’’سائے بوری‘‘ (Syburi) نام رکھا، جو وہ پہلے بھی رکھ چکے تھے۔ بہرحال جاپانیوں کی شکست کے بعد کیداح دوبارہ انگریزوں کے حوالے کیا گیا۔ 1957ء میں انگریزوں کے رخصت ہونے کے بعد ان تمام ملئی ریاستوں کو ملاکر ایک ملک بنایا گیا، جو آج ملائیشیا کہلاتا ہے۔ کیداح ریاست اراضی اور آبادی کے لحاظ سے آٹھویں نمبر پر ہے۔ اس کی کل اراضی9500 مربع کلو میٹر (3700 مربع میل) ہے۔ یعنی نواب شاہ اور جیکب آباد ضلع کے برابر ہے۔ اس ریاست کی آبادی بیس لاکھ ہے یعنی لاڑکانہ ضلع سے بھی پانچ لاکھ کم!
کیداح کا پایۂ تخت الوراسٹار ہے، جہاں مہاتیر محمد نے جنم لیا۔ اس کے بعد دوسرے اور تیسرے نمبر پر بڑے شہر سنگائی پیتانی اور کُلیم ہیں۔ کُلیم وہ شہر ہے جہاں ملایا کے گورنر اور ہمارے دوست سید احمد شہاب الدین نے 1925ء میں جنم لیا۔ میں ان کے بارے میں لکھ چکا ہوں کہ وہ 1978ء تک وزارتِ داخلہ کے ڈپٹی وزیر رہے۔ دو سال تک سنگاپور کے سفیر (ہائی کمشز) رہے۔ وہیں میری ان سے ملاقات ہوئی تھی۔1984ء میں انہیں ملاکا کا پانچواں گورنر مقرر کیا گیا۔ ملئی زبان میں گورنر کو ’’ینگ دی پر تیانیگری‘‘ کہتے ہیں۔
سید احمد نے دو شادیاں کیں۔ پہلی شادی 1950ء میں شریفاں حنیفہ بنت سید علوی سے کی، پہلی بیوی سے چھ بچے ہوئے، ان کی پہلی بیوی کا انتقال 1993ء میں ہوا۔ گورنر صاحب کی دوسری بیگم کا نام مارفوزا بنت شیخ محمد عثمان ہے۔ ان کی یہ شادی 1960ء میں ہوئی۔ دوسری بیوی سے چار بچے ہیں۔ 7 جولائی 2008ء کو سید احمد صاحب کا انتقال اپنے کوالالمپور والے گھر میں ہوا۔ لیکن انہیں ملاکا کے اسٹیٹ قبرستان میں العظیم مسجد کے قریب دفن کیاگیا۔