شاہ فیصل کا بھارت سے اعلانِ بغاوت

مقبوضہ کشمیر سے ایک اعلیٰ سرکاری افسر شاہ فیصل کے اعلان بغاوت نے تہلکہ مچا دیا ہے۔ 2010ء میں بھی انہوں نے آئی اے ایس (Indian Administrative Service) کے امتحان میں پورے ہندوستان میں اول آ کر تہلکا مچایا تھا۔ یہ وہی سال ہے جب آزادی کی لہر کو دبانے کی سرکاری کارروائی میں ایک سو سے زیادہ نہتے کشمیری نوجوان شہید کر دیئے گئے تھے۔
شاہ فیصل کا تعلق کشمیر کے کپواڑہ ضلع کے ایک دور دراز گاؤں سے ہے۔ انہوں نے کشمیر میں مسلح جدو جہد آزادی کے عروج کے دور میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد اور والدہ دونوں تعلیم کے شعبے سے وابستہ تھے۔ ان کے والد کو نوے کی دہائی میں نامعلوم بندوق برداروں نے گولی مار دی تھی۔ شاہ فیصل نے حالات کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے اور میڈیکل کا امتحان اعزاز سے پاس کرلیا، تاہم ڈاکٹری کا پیشہ اختیار کرنے کے بجائے انہوں نے بھارتی سول سروسز کے امتحانات میں شرکت کی اور ہندوستان بھر میں اول پوزیشن حاصل کر کے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ چار لاکھ سے زائد امیدواروں نے اس امتحان میں شرکت کے لیے درخواست دی تھی، مگر ایک لاکھ ترانوے ہزار امیدواروں کو داخلہ ملا۔ ان میں آٹھ سو پچھہتر امیدوار کامیاب ہوئے، جن میں شاہ فیصل اوّل رہے۔
بھارت کے ٹی وی چینلز نے شاہ فیصل کی کامیابی کا خوب چرچا کیا اور کہا کہ کشمیری نوجوان علیحدگی پسندی چھوڑ کر بھارتی سول سروسز کی طرف مائل ہو رہے ہیں، وہ ہندوستان کی مرکزی حکومت کو مضبوط کر رہے ہیں۔ بھارتی اور ریاستی حکمران شاہ فیصل کو ایسا ’’ماڈل بھارتی‘‘ افسر قرار دیتے رہے، جو کشمیری نوجوانوں کے لیے امن کی مثال بن کر ابھرا ہے۔
معروف مورخ اور دانش ور پی جی رسول نے لکھا: ’’شاہ فیصل کو تشدد کے خلاف پوسٹر بوائے کے طور پر پروجیکٹ کیا جا رہا ہے۔‘‘
شاہ فیصل نے ایم بی بی ایس کی ڈگری نمایاں کارکردگی کے ساتھ حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹری کا پیشہ اختیار نہیں کیا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ وہ کشمیریوں کو راحت پہنچانے کے لیے وہاں پہنچنا چاہتے تھے، جہاں فیصلہ سازی ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں اہل کشمیرکی خدمت کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
امتیازی کامیابی حاصل کرنے والوں کا استحقاق ہوتا ہے کہ وہ من پسند محکموں میں جائیں۔ عام طور پر کامیاب ہونے والے افسر وزارت خارجہ اور کسٹمز وغیرہ کے محکموں میں جانا پسند کرتے ہیں، مگر شاہ فیصل نے افسر شاہی کی عام روش سے ہٹ کر مقبوضہ کشمیر میں محکمہ تعلیم میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہونا پسند کیا۔ بعد میں وہ کشمیری انتظامیہ میں دیگر کئی اہم عہدوں پر بھی فائز رہے۔
اپنی ملازمت کے دوران انہوں نے بار بار بھارتی سیکورٹی فورسز کو کشمیریوں پر ظلم وستم کا مرتکب ٹھہرایا۔ وہ سوشل میڈیا پر حکومت کی پالیسیوں پر سخت تنقید بھی کرتے رہے، جس سے وہ ہمیشہ سرخیوں میں رہے۔ خواتین کی بے حرمتی کے مسلسل واقعات پر انہوں نے ایک بیان میںکہا: ’’اب ہندوستان ’’ریپستان‘‘ (Rapistan) بن کر رہ گیا ہے۔‘‘ اس پر بھارتی میڈیا میں ان پر شدید تنقید کی گئی۔ ریپ کے بڑھتے واقعات کے خلاف کیے گئے ان کے طنزیہ ٹویٹ کے خلاف شدید انضباطی کارروائی کا اعلان کیا گیا۔ اس پر شاہ فیصل نے لکھا: ’’میرے باس کی طرف سےlove letter آیا ہے۔ یہی المیہ ہے، اب ہندوستان میں دل کی بات کہنے کی آزادی کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔‘‘
بھارتی حکومت نے شاہ فیصل کو متنبہ کیا، لیکن شاہ فیصل سوشل میڈیا پر سرگرم رہے۔ وہ بھارت میں مسلمانوں پر ہندوئوں کے حملوں، لِنچنگ، گائو رکشکوں کے تشدد اور کشمیر میں جاری جارحانہ ملٹری پالیسی کے خلاف کھل کر اظہار خیال کرتے رہے۔
ایک مرتبہ شاہ فیصل نے ٹویٹ کیا: ’’جبر کی طاقتیں ملک میں مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔‘‘ چھ ماہ قبل بھارتی حکومت نے سرکاری افسروں کے اس طرح اظہار خیال کو روک دیا اور سوشل میڈیا پر حکومت سے ہر طرح کے اختلاف کا اظہار کرنا بھی ممنوع قرار دے دیا۔ اس پر شاہ فیصل رخصت لے کر امریکہ چلے گئے، جہاں انہوں نے فُل برائٹ اسکالرشپ کے تحت انتظامی امور میں ڈگری حاصل کی۔
ڈاکٹر شاہ فیصل کے دل میں ہمیشہ جموں کشمیر کے حالات کا درد رہا۔ وہ فوج کے ذریعے جد وجہد آزادی کو دبانے کے طریقے سے بھی ہمیشہ ناراض رہے اور شروع سے ہی وہ اس مسئلے پر اظہار خیال کرتے رہے اور فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے دل کی بھڑاس نکالتے رہے۔ ان کے استعفے کے فیصلے نے کئی لوگوں کو حیران کیا۔ میڈیا جو کل تک ان کی تعریفوں کے پُل باندھ رہا تھا، استعفیٰ دیتے ہی ان کا دشمن بن گیا، خاص طور پر جب انہوں نے استعفے کا سبب بتاتے ہوئے کہا کہ وادی میں مسلسل قتل کی موجودگی میں وہ مزید بھارت سرکار کی ملازمت نہیں کر سکتے، تو بھارتی چینلز ان پر چلانے لگے۔
تاہم کشمیر میں شاہ فیصل کے استعفے کی خبر نے لوگوں کو بالکل بھی حیران نہیں کیا، زیادہ تر لوگوں کو ان کے ارادوں کا پہلے سے علم تھا۔ ہر کشمیری جانتا ہے جو کچھ مقبوضہ وادی میں ہو رہا ہے، کوئی با ضمیر کشمیری اس سے آنکھیں نہیں چرا سکتا۔ اظہار خیال پر پابندی کے فوراً بعد وہ رخصت پر امریکہ چلے گئے۔ حالانکہ کچھ عرصہ قبل ہی میں وہ ہاورڈ کینیڈی اسکول سے لوٹے تھے۔ ہاورڈ میں رہنے کے دوران بھی انہوں نے کئی مرتبہ سوشل میڈیا پر بھارتی حکومت اور ’’ہندوتوا طاقتوں‘‘ پر سخت تنقید کی تھی۔
وطن واپسی کے چار روز بعد انہوں نے جو بیان دیا، اس سے ان کے مستقبل کے عزائم کی نشان دہی ہوگئی۔ شاہ فیصل نے کہا ’’کشمیر میں مسلسل قتل و غارت گری اور پورے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جاری ہندوتوا تشدد سے میں بہت پریشان ہوں۔ لہٰذا میں اب افسری کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔‘‘
اس کے فوراً بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر اور قومی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کر کے شاہ فیصل نے ایک بار پھر تہلکہ مچا دیا۔ استعفیٰ دیتے ہوئے شاہ فیصل نے علانیہ طور پر کہا کہ وہ بھارتی افواج کے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر خاموش نہیں رہ سکتے اور بطور احتجاج مستعفی ہو رہے ہیں۔ بھارت کے میڈیا نے کہا کہ یہ بغاوت ہے اور ہندوستان سے غداری ہے۔ اگرچہ شاہ فیصل نے ابھی تک اپنے مستقبل کا فیصلہ نہیں کیا، تاہم وہ ہندوستان کی قومی اسمبلی (لوک سبھا) کے انتخابات میں حصہ لے کربھارتی ایوان میں کشمیر کی آواز اُٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
نیشنل کانفرنس کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ شاہ فیصل عمر عبد اللہ کی نیشنل کانفرنس میں شامل ہو رہے ہیں، لیکن اس کی انہوں نے تردید کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے میرا خیال تھا کہ میں استعفیٰ دے کر سید علی شاہ گیلانی کی حریت کانفرنس میں شامل ہو جائوں گا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں وہاں کروں گا کیا؟ اس لیے کہ وہ تو انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہیں، حالانکہ کشمیر میں تبدیلیاں الیکشن اور قانون سازی سے لائی جا سکتی ہیں۔ میں کشمیر کے لیے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ میرے خیال میں یہ ضروری ہے کہ اہل کشمیر کی آواز بھارت کے ایوانوںسے بلند ہو۔ اگرچہ شاہ فیصل ابھی تک حریت کانفرنس کی راہ اور منزل کو اپنانے سے گریزاں ہیں اور کہتے ہیں ’’اداروں میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر ہماری زندگیوں پر پڑتا ہے۔ وہاں قانون بنتے ہیں، قوانین میں ترامیم ہوتی ہیں۔ اگر حساس لوگ پارلیمنٹ یا اسمبلی میں نہیں ہوں گے، تو عوام دشمن قوانین اور پالیسیاں بنیں گی‘‘۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا: ’’میں نے اپنی دانست میں فیصلہ صحیح کیا ہے، لیکن یہ آخری منزل نہیں، کل کو لگا کہ سیاست کے ذریعے بھی کچھ نہیں ہو سکتا تو میں اسے بھی چھوڑ دوں گا۔‘‘

Comments (0)
Add Comment