بے مثال قربانیوں کے بعد امید کی کرن

فلپائن کے مسلم اکثریت علاقے منڈاناو میں 20 جنوری کو ہونے والے استصواب رائے (ریفرنڈم) کے نتائج کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ریفرنڈم میں خود مختاری کے پیکیج (Bangsamoro Organic Law) پر ہاں یا ناں کا سوال کیا گیا تھا۔ نتائج کے مطابق 17 لاکھ افراد نے خود مختاری کے حق میں ووٹ دیا، جب کہ مخالفت میں 2 لاکھ 54 ہزار ووٹ ڈالے گئے، یعنی 87 فیصد لوگوں نے مسلم اکثریتی علاقے کو Bangsamoro Autonomous Region in Muslim Mindanao (BARMM) بنانے کی حمایت کی۔ بنگسومورو (Bongsomoro) کا ترجمہ موروں کی سرزمین کیا جا سکتا ہے۔
نئے قانون کے تحت پرچم، کرنسی اور خارجہ امور کے علاوہ بنگسمورو ریاست مکمل طور پر خود مختار ہوگی۔ اس کی منتخب پارلیمان قانون سازی کے لئے آزاد ہوگی اور مقامی محصولات کا 80 فیصد ریاستی حکومت کی ملکیت ہوگا، جب کہ وفاق کی آمدنی میں بنگسمورو کو دوسری ریاستوں کے برابر حصہ ملے گا۔ قانون کی منظوری کے ساتھ ہی MNLF کے سپاہیوں کو غیر مسلح کرکے انہیں ریاستی نیشنل گارڈ یا قومی فوج میں شمولیت کی دعوت دی جائے گی۔
یہاں فلپائنی مسلمانوں کی تاریخ پر چند سطور احباب کی دلچسپی کیلئے رقم کرکے آگے بڑھتے ہیں:
فلپائن کے جنوب میں واقع منڈاناو سر سبزو شاداب اور زرخیز جزیرہ ہے۔ فلپائن کی قومی زرعی پیداوار کا بڑا حصہ منڈاناو سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ یہاں پیدا ہونے والا عمدہ معیار کا چاول برآمد بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن سارے ملک کو غلہ فراہم کرنے کے باوجود یہ علاقہ بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ کے الیکٹرک کے مظالم سہنے والے کراچی کے قارئین کو نوید ہو کہ وہ اکیلے نہیں۔ منڈاناو میں بھی روزانہ 8 سے 12 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور اس اعتبار سے کراچی اور منڈاناو جڑواں شہر ہیں!!
فلپائن کی سرکاری تاریخ کے مطابق چودہویں صدی میں غلے کے عرب تاجروں نے سیمیونل Siminul جزیرے کی مسیحی آبادی کو اسلام سے متعارف کروایا۔ بہت جلد پورا جزیرہ مسلمان ہو گیا اور جامع شیخ کریم المخدوم کے نام سے پہلی مسجد تعمیر ہوئی۔ جلد ہی اسلام سارے منڈاناو میں پھیل گیا، بلکہ منیلا اور لوزان کے جزیروں میں بھی اسلام کو پذیرائی نصیب ہوئی، حتیٰ کہ منیلا نے برونائی مسلم سلطنت سے الحاق کر لیا۔ سترہویں صدی میں فلپائن ہسپانیویوں کے زیر تسلط آگیا۔ مسلمانوں اور ہسپانیویوں کی چپقلش صدیوں پرانی تھی، لہٰذا فاتحین مسلمانوں کو دیکھ کر سخت مشتعل ہوئے اور منڈاناو مسلمانوں کے خون سے رنگین ہو گیا۔ ہسپانیہ میں مسلمانوں کو مور Moor کہا جاتا تھا۔ اس خطاب کا بھی ایک تاریخی پس منظر ہے اور وہ کچھ اس طرح کہ جب 711ء میں مسلمان جبل الطارق کے راستے جزیرہ نمائے آئیبیریا Iberia میں داخل ہوئے تو لڑائی کے بعد نماز کے لئے صف بندی ہوئی۔ شکست خوردہ کیتھولک سپاہی بہت اشتیاق سے مسلمانوں کو باجماعت نماز پڑھتے دیکھ رہے تھے۔ نماز کے بعد کچھ سپاہیوں نے اپنے پادری سے اس ’’انوکھے‘‘ انداز عبادت کا ذکر کیا۔ پادری صاحب اپنی شکست پر پہلے ہی صدمے میں تھے۔ اس سوال پر جھلا گئے اور بولے کہ یہ موروں (کافروں) کی عبادت ہے۔ قدیم سریانی اور لاطینی میں زندیق یا کافر کو مور کہتے تھے۔ اس کے بعد سے ہسپانیہ میں مسلمانوں کا نام ہی مور پڑ گیا۔ اس وقت کے مسلمان تھے بھی اہل ذوق۔ چنانچہ انہوں نے ’’کافر‘‘ خطاب کو اپنی تعریف جانا اور لفظ مور ان کی شناخت بن گیا۔ فلپائن کے نئے ہسپانوی حکمرانوں نے بھی منڈاناو کے مسلمانوں کو مور پکارنا شروع کر دیا اور کچھ ہی عرصے بعد فلپائنی مسلمان مورو کہلانے لگے۔
1898ء میں ہسپانیویوں نے 2 کروڑ ڈالر کے عوض یہ علاقہ امریکہ کے حوالے کر دیا اور امریکیوں نے منڈاناو کو اپنی نوآبادی بنالیا۔ آقا کی تبدیلی سے بھی مورو آبادی کے حالات بہتر نہ ہو سکے، بلکہ اس دور کے ایک واقعے کا ذکر ڈونالڈ ٹرمپ نے 28 اپریل 2016ء کو کیلی فورنیا کے شہر کوسٹا میسا میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
جناب ٹرمپ نے کہا کہ فلپائن میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان پرشنگ نے 50 مورو قیدیوں کو ایک قطار میں کھڑا کیا۔ دوسری طرف اس کے سپاہی جنگلی سوروں کا ایک ریوڑ ہانک کر وہاں لائے۔ سپاہیوں نے ان سورروں کو گولیوں کا نشانہ بنایا اور پھر تڑپتے سوروں کے خون میں بھیگی گولیوں سے 49 مورو قیدیوں کو اڑا دیا گیا اور ایک قیدی کو سور کے خون میں لت پت گولی دے کر آزاد کر دیا گیا تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کو بتا سکے کہ قیدیوں کے ساتھ جنرل پرشنگ نے کیا سلوک کیا۔ جناب ٹرمپ کے مطابق اس واقعے کے بعد سے اگلی نصف صدی تک فلپائن میں دہشت گردی یا امریکی فوج پر حملے کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔ ’’مفتی اعظم‘‘ ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ مسلمان دہشت گردوں کا خیال ہے کہ وہ اگر لڑتے ہوئے مارے گئے تو سیدھا جنت میں جائیں گے، لیکن ان کے یہاں سور انتہائی نجس سمجھا جاتا ہے، لہٰذا اگر ان کی لاشیں نجس جانور کے خون سے آلودہ ہو جائیں تو ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اسی خوف سے فلپائن کے مورو دہشت گردوں نے لڑائی سے ہاتھ ہٹا لیا۔
تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بدترین تشدد کے باوجود پر عزم مورو مبلغین دل و دماغ فتح کرتے رہے اور منظم نسل کشی کے باوجود مسلمانوں کی آبادی بڑھتی چلی گئی۔ 1945ء میں فلپائن کی آزادی سے بھی مورو مسلمانوں کی محرومی کا مداوا نہ ہوا اور مسلمانوں نے 1969ء سے مورو نیشنل لبریشن فرنٹ (MNLF) کے نام سے سیاسی و عسکری تنظیم بنا کر مزاحمت شروع کر دی اور سوا لاکھ مورو آزادی و خود مختاری پر قربان ہوگئے۔
ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتر محمد نے فلپائن کی قیادت سے مل کر معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ اکتوبر 2012ء میں سابق صدر بینینو اکینو (Benigno Aquino) نے علاقے کو محدود خود مختاری عطا کی اور 6 لاکھ نفوس پر مشتمل سوا 12 ہزار مربع کلومیٹر کے اس علاقے کو Autonomous Region of Muslim Mindanao یا ARMM کا نام دے دیا گیا، لیکن نام کی تبدیلی وفاق کے رویئے میں کسی تبدیلی کا سبب نہ بن سکی۔
صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے پر فلپائنی صدر روڈریگو دوتیرتے Rodrigo Duterte نے ترپ کا پتہ پھینک دیا، یعنی داعش کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کرکے مارشل لا کے ساتھ ساری دنیا کی زبانوں کو تالہ بھی لگا دیا۔ داعش کے نام پر فلپائنی فوج مورو مسلمانوں پر ٹوٹ پڑی۔ قتل عام کی اس مجرمانہ واردات میں امریکہ کی چھاپہ مار یا US Special Operations Forces بھی ان کے شانہ بشانہ تھی۔
لیکن مسلمانوں نے پر امن عوامی جدوجہد جاری رکھی اور صدر دوتیرتے نے مذاکرات کا آغاز کیا۔ فروری 2016ء میں فلپائن کی سینیٹ نے منڈاناو کی خود مختاری کے لئے ایک قرارداد منظور کرلی۔
جس کے بعد حکومت اور مورو نیشنل لبریشن فرنٹ (MNLF) ایک مسودہ قانون پر متفق ہوگئے۔ علاقے میں عیسائی اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی آباد ہیں۔ مسلمان اپنی ریاست میں شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں، جس پر مسیحیوں کو فطری تحفظات تھے۔ گزشتہ ماہ مسلم علماء نے یقین دہانی کروائی کہ شرعی قوانین کا نفاذ صرف مسلمانوں پر ہوگا اور دوسرے مذاہب کے لوگ اپنے عقائد اور ثقافت کے لئے مکمل آزاد ہوں گے، حتیٰ کہ غیر مسلموں کے لئے ہم جنسی پر بھی کوئی پابندی نہیں ہوگی۔
غیر مسلموں کے بارے میں کشادہ دلی اور اعلیٰ ظرفی کا نتیجہ ہے کہ منڈاناو کے ساتھ شمالی ریاست کوٹاباٹو (Cotabato) اور لناو دیل نارتے (Lanao del Norte) نے بھی بنگسمورو سے الحاق کی خواہش ظاہر کی ہے، حالانکہ ان ریاستوں میں مسیحیوں کی اکثریت ہے۔ اب 6 فروری کو ان علاقوں میں بنگسمورو سے الحاق کے لئے ریفرنڈم ہوگا۔ مورو آبادی کے لئے اب سب سے بڑی آزمائش فلپائنی حکومت پر اعتماد کرکے MNL کو غیر مسلح کرکے انہیں میدان سیاست میں لانا ہے۔
اسرائیل کی مخالفت کی سزا:
معذور کھلاڑیوں کے اولمپک یا Paralymic کی منتظم کمیٹی نے 2019ء کے لئے تیراکی چمپئن شپ کے مقابلے ملائیشیا سے منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 2020ء کے ٹوکیو پیرالمپک کے لئے تیراکی کے Qualifying مقابلے اس سال 29 جولائی سے 4 اگست تک ملائی ریاست سراوک کے دارالحکومت کوچنگ میں ہونے تھے، جس کے لئے 60 ممالک سے 1600 معذور تیراک ملائیشیا آرہے تھے۔ گزشتہ ماہ ملائیشیا کی کابینہ نے فلسطینیوں کے خلاف ظلم و تشدد پر بطور احتجاج اسرائیلی کھلاڑیوں کے ملائیشیا آنے پر پابندی لگا دی تھی۔ وزیر اعظم مہاتیر محمد کا کہنا ہے کہ غزہ کی ناکہ بندی اور فلسطینیوں کی نسل کشی پر ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔
کل لندن میں بین الاقوامی پیرا اولمپک کمیٹی (IPC) کے سربراہ اینڈریوپارسن نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ اسرائیلیوں پر پابندی کی بنا پر تیراکی چمپئن شپ کوچنگ سے منتقل کی جا رہی ہے۔ نئے میزبان ملک کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ اس اعلان پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مہاتیر محمد کے ترجمان نے کہا کہ اسرائیل کے بارے میں ملائی عوام کے رائے اس وقت تک تبدیل نہیں ہو سکتی جب تک صہیونی ریاست فلسطینیوں کی عزت و وقار اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی نہیں بنا لیتی۔ ٭

Comments (0)
Add Comment