وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کی وجہ سے بڑی کمپنیاں ملک چھوڑ گئی تھیں، لیکن جانے والے سرمایہ کار اب واپس آرہے ہیں اور ملک اوپر اٹھ رہا ہے۔ کوئی سیاسی لیڈر عوام کا پیسا اپنی ذات پر خرچ نہی کر سکے گا۔ پاکستان کا ہر رہنما اب عوام کو جوابدہ ہو گا۔ عمران خان نے کہا کہ چین میں چار سو وزیروں کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ یہاں حکمرانوں سے ان کے مال کی باز پرس ہو تو انہیں جمہوریت خطرے میں نظر آنے لگتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ایوب خان اور نواز شریف کو جنرل ضیاء الحق سیاست میں لائے تھے اور میاں شہباز شریف اپنے بھائی وجہ سے سیاست میں آئے، ورنہ ان میں کیا صلاحیت تھی کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے یہ باتیں اتوار کو نمل یونیورسٹی کے چھٹے کانووکیشن سے خطاب کے دوران کہیں۔ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں ہر موقع پر بڑھ چڑھ کر بولنے والے وزیر اعظم عمران خان کا نمل یونیورسٹی میں خطاب کے موقع پر سیاسی باتیں کرنا اہل وطن، طلباء اور اساتذہ کو غلط مقام پر نامناسب خطاب لگا۔ اس کا جواز پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے پارلیمنٹ میں بولنے نہیں دیا جاتا، اس لئے میں یہاں ایسی باتیں کر رہا ہوں۔ پارلیمنٹ میں بولنے سے روکنے کا الزام بالکل بے بنیاد ہے۔ انہوں نے وزیراعظم بنتے ہی وعدہ کیا تھا کہ وہ سابق حکمرانوں کی طرح پارلیمان کے اجلاس سے غیر حاضر نہیں ہوں گے۔ وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں اپنے موجود رہنے کے لئے ہر بدھ کا تعین بھی کر دیا تھا۔ لیکن اسمبلی کا ریکارڈ گواہ ہے کہ وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں بہت کم شریک ہوئے۔ پارلیمنٹ اور اس سے باہر شور ہنگامے، واک آئوٹ اور دھرنوں کی سیاست کرنے والے تحریک انصاف کے رہنما اور قائد حزب اقتدار عمران خان کے خطاب میں اگر اپوزیشن جماعتیں احتجاج اور شور شرابا کرتی ہیں تو انہیں خود بھی برداشت کرنا چاہئے۔ ہزار چیخ پکار اور مخالفانہ نعروں کے باوجود جو لوگ ایوان میں اپنی تقریروں کے ذریعے متعلقہ حلقوں اور عوام تک کوئی بات پہنچانا چاہیں تو ذرائع ابلاغ انہیں پیش کر دیتے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے سلسلے میں معاملہ کچھ یوں نظر آتا ہے کہ اس کے رہنمائوں کے اپنی حکومت کی کارکردگی، پالیسی اور منصوبہ بندی کے بارے میں کہنے کے لئے کوئی بات ہو تو وہ بولیں۔ ان کی جانب سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کو لائوڈ اسپیکر بناکر آگے کر دیا گیا ہے کہ وہ ایوان کے اندر اور باہر سابقہ حکومتوں پر الزامات کی گولا باری کرتے رہیں اور ملک بھر کے لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کریں کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو ورثے میں مسائل ہی مسائل ملے ہیں تو وہ عوام کو کیا دیں۔ اچھے حکمرانوں کا کام ماضی کی دیوار گریہ پر ٹسوے بہانا نہیں ہوتا، بلکہ کانٹے بھری جھاڑیوں سے خود بھی نکلنا اور ملک و قوم کو اس سے نکالنا ہوتا ہے اور یہی کسی نئی حکمت کی کامیابی قرار پاتی ہے۔
پاکستان کی تاریخ بلاشبہ اس امر کی شاہد ہے کہ 1958ء سے ملک پر دو خاندانوں کی باری باری اور کبھی بیک وقت وفاق اور صوبوں میں حکومتیں بنتی رہیں۔ یہ دونوں خاندان، دو فوجی آمروں کے زیر سایہ اپنے اقتدار اور مال و دولت میں اضافہ کرتے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو تو جنرل ایوب خان کے بعد دوسرے فوجی صدر جنرل یحییٰ خان کا بھی ہم پیالہ و ہم نوالہ بننے کا ’’شرف‘‘ حاصل رہا۔ جنرل ضیاء الحق برسراقتدار آکر شریف خاندان کی سرپرستی نہ کرتے تو یہ خاندان آج تک لوہا پیٹتا ہوا ہی نظر آتا۔ اس پر ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ ملک بھر میں یہی دونوں خاندان جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔ 2018ء کے عام انتخابات میں ملک کے ناقص ترین انتخابی نظام کی وجہ سے نتائج میں کوئی مثبت تبدیلی تو نظر نہیں آئی، لیکن تبدیلی کی اتنی لہر ضرور نظر آئی کہ بہت کم ووٹوں کی اکثریت کے باوجود تحریک انصاف کو وفاق، خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں حکمرانی کا موقع مل گیا۔ اسے ہر جگہ نہایت کمزور اپوزیشن کا سامنا رہا، اس کے باوجود کوئی واضح مقصد، تعمیری سوچ اور ملک و قوم کی فلاح کے لئے کوئی قابل عمل پروگرام نہ ہونے کی وجہ سے وزیر اعظم عمران کی حکومت ابتدائی چھ ماہ کے عرصے میں عوام کی حمایت کھوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے قابل انتخاب (ELECTABLE) کے نام پر دوسری جماعتوں کے جن امیدواروں کو آخر وقت میں اپنے ساتھ شامل کیا تھا، وہ پارٹی قیادت سے مایوس ہونے اور اپنی توقعات پوری نہ ہونے پر دوبارہ اپنی سابقہ جماعتوں میں جانے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ملک چھوڑ کر جانے والے سرمایہ کار واپس آرہے ہیں، حالانکہ صورت حال صرف اتنی ہے کہ بعض ممالک کے حکمران موجودہ حکومت کے دور میں کچھ امداد اور قرضہ دینے پر آمادہ ہوئے ہیں۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر تحریک انصاف کی حکومت کچھ بھی کرنے کے قابل نہ ہوگی اور یہ سود خور عالمی مالیاتی ادارہ تاحال موجودہ حکومت کے اصلاحاتی پیکیج کا جائزہ لینے میں مصروف ہے۔ حکومت اس کی جانب سے شرائط آنے سے قبل ہی اہل وطن کو شدید مہنگائی میں مبتلا کرچکی ہے۔ لیکن آئی ایم ایف اب بھی ڈالر کی قیمت بڑھانے اور ٹیکسوں میں مزید اضافے پر اصرار کر رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک تعلیمی ادارے میں سیاسی تقریر کرکے یہ تو کہہ دیا کہ اب ملک کا ہر حکمران عوام کو جوابدہ ہوگا۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ جوابدہی کیونکر ممکن ہے؟ وہ خود کو اپنی پارٹی کے رہنمائوں کے سامنے جوابدہ تصور نہیں کرتے تو عوام کو کیا اور کیسے جوابدہی کر سکیں گے۔ ملک کے اوپر اٹھنے کا دعویٰ اس وقت تک بے بنیاد ہے جب تک مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم سمیت تمام جماعتوں کے لٹیروں سے لوٹ کا مال اور زائد از ضرورت دولت چھین کر قومی خزانہ بھر نہیں دیا جاتا۔ اس کے بغیر ٹیکسوں میں معمولی ردو بدل اور تمام ضروریات زندگی کی قیمتیں مسلسل بڑھانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ملک کے اصل اثاثے وہ ہیں، جو چند سو خاندانوں نے سمیٹ رکھے ہیں۔ باقی بائیس کروڑ عوام کو دو وقت کی باعزت روٹی اور سر پر چھت بھی میسر نہیں۔ عمران خان کے اپنے بنی گالہ سے نیچے اتر کر عوام میں آنے سے پہلے وہ فلاح و بہبود کے جو دعوے بھی کریں گے، حسب سابق سب ہوا میں اڑ جائیں گے۔ اچھی نیت اور درست سمت کے بغیر کسی عمل کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔٭