روزنامہ امت میں میرا کالم بعنوان ’’جوا کسی کا نہ ہوا‘‘ مورخہ گیارہ دسمبر 2018ء کو شائع ہوا۔ یہ تحریر میرے بچپن کے ایک دوست کے بارے میں تھی۔ جس کے متعلق میں کسی کالم میں لکھ چکا ہوں کہ میرا یہ دوست ان افراد میں شامل ہے جو سفید پوش طبقے سے اپنے چار نکاتی مادی ترقی کے شیطانی فلسفے کی مدد سے ’’چھکا‘‘ مار کر نام نہاد اعلیٰ اور سوپر کلاس میں اپنا نام درج کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ابلیسی زقند سے انہیں دائمی ترقی مل گئی ہے۔ ان کا پائوں طاغوتی کار میں لگے ہوئے حرس و ہوس اور طمع و لالچ کے ایکسیلیٹر پر دبائو بڑھاتا رہتا ہے۔ مال و زر کے پھیلائو کے لئے وہ جاہ پرست توسیع پسندوں کی حجت اختیار کرتے رہتے ہیں۔ پھر اچانک فلک فلک کج رفتار ان کے لئے خوف ناک اسپیڈ بریکر بناتا ہے اور شیطان کے راستے پر چلنے والے والوں کو منہ کے بل گرنا پڑتا ہے۔ وہ ترقی کے نام نہاد آسمان سے زمین پر پٹخ دیئے جاتے ہیں۔
میرے بچپن کے دوست کے ساتھ بھی یہی سب کچھ ہوا۔ وہ ذلت و رسوائی کے ایسے گڑھے میں جا گرا، جہاں سوائے تاسف اور پچھتاوے کے کچھ نہیں ملتا۔ گزشتہ کالم میں، میں نے اس کی زبوں حالی بیان کرکے اسے دو نصیحتیں کی تھیں اور اس کے لئے خصوصی دعا بھی کی تھی کہ خدا پاک اسے پریشانی سے نکال دیں اور وہ عزت کے ساتھ سادگی سے زندگی بسر کرے۔
چند روز قبل میرا دوست آیا۔ گزشتہ وزٹ کے مقابلے میں وہ خاصا نارمل نظر آرہا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ تھا اور دوسرے میں گلدستہ تھا۔ ہم نے ابتدائی دعا سلام کے بعد گفتگو شروع کی۔ اس نے کہا: ’’ماسٹر! میں تیرا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔ میں نے تیرے دونوں مشوروں پر عمل کیا۔ خدا کا بے حد و بے حساب احسان ہے کہ میں ہیبت ناک صورت حال سے آہستہ آہستہ باہر نکل رہا ہوں۔ میرے معاشی، معاشرتی اور انتظامی مسائل رفتہ رفتہ حل ہو رہے ہیں۔‘‘
میں خاموشی سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ جو کچھ اس کے دل میں ہے، وہ خود بغیر کسی سوال یا استفسار کے بیان کرتا جائے… اس نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے بتایا: ’’تیری نصیحت کے مطابق میں اپنی بیگم کے ساتھ چھوٹے بیٹے کی دوسری بیوی کے پاس پہنچا۔ میرے خدشات اور وسوسوں کے برعکس اس نے پوری توجہ اور ہمدردی کے ساتھ میری بپتا سنی۔ کافی حالات کا علم اسے پہلے سے تھا۔ اس نے مجھے دلاسہ دیا اور تمام تر مالی معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر میری ڈوبتی ہوئی کشتی کو کنارے پر پہنچانے کی جامع منصوبہ بندی کرنے لگی۔ ماسٹر! تو نے سچ کہا تھا کہ بہوئیں ہماری حسبی بیٹیاں ہوتی ہیں۔ میری بہو نے تو بیٹیوں سے بھی بڑھ کر مجھے سہارا دیا۔ سب سے پہلے اس نے تمام مزدوروں اور کاریگروں کے واجبات ادا کئے۔ ہمارا رکا ہوا تعمیراتی منصوبہ زندہ ہو گیا۔ کلائنٹس نے بھی اقساط کی رقم ادا کرنا شروع کر دی ہے۔ مزدوروں اور کارکنوں نے ہمارے لئے دعائیں کرنی شروع کردی ہیں۔ ہمارے کام میں حیرت انگیز برکت پیدا ہوگئی ہے۔ مجھے اپنی آنکھوں سے نظر آرہا ہے کہ بندوں کے حقوق ادا کرنے سے رب کی رحمت کیسے برستی ہے۔‘‘
میرا دوست جذبات سے مغلوب تھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔ میں خاموشی سے اسے تکتا رہا۔ اس نے مزید بتایا: ’’ماسٹر! میرا پوتا بھی کار ایکسیڈنٹ کیس میں ضمانت پر رہا ہو گیا ہے۔ بینکوں سے سودی قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے میری بہو نے ساری پے منٹ کو ری شیڈولڈ کرا کر سود سے نجات کے لئے خود کوششیں شروع کر دی ہیں۔ میری بہو انسان کے روپ میں فرشتہ ہے۔ اس نے ہم سے کہا کہ ابو ایک وقت ہوتا ہے، جب بچے ماں باپ کے ساتھ رہتے ہیں، پھر ایسا مرحلہ آتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کے پاس رہتے ہیں۔ اس کی خواہش پر میں نے اپنا ڈیفنس والا بنگلہ کرائے پر دے دیا ہے اور ہم بہو کے ساتھ ہیں۔ اسی کے مشورے پر میں نے اپنی گاڑی فروخت کر دی ہے اور بوقت ضرورت ہم بہو کی گاڑی استعمال کرتے ہیں۔ وہ ہمارا بے حد و بے حساب خیال رکھتی ہے اور ہمیشہ کہتی ہے کہ یہ سب کچھ آپ کا ہے۔ آپ میرے لئے دعا کیا کریں۔ اس ساری سچویشن میں ہمارا بیٹا لندن سے ہمارے ساتھ رابطے میں ہے۔ خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ بیٹے نے تمام گندی عادتیں چھوڑ دی ہیں اور سچے دل سے توبہ کی ہے۔ میں بھی ہر وقت کہتا ہوں: ’’یا رب! میری توبہ!‘‘
میں نے دیکھا کہ میرا دوست زار وقطار رو رہا ہے۔ میرا بھی دل بھر آیا… پھر میں نے پوچھا: ’’اچھا یہ بتا کہ تو نے دنیاوی ترقی کرنے کے لئے اپنے چار نکاتی فلسفے کو ہمیشہ کے لئے دفن کردیا یا نہیں؟‘‘
میرا سوال سن کر اس نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور شہادت کی انگلی سے کئی مرتبہ ناک رگڑا، پھر بولا: ’’میں نے ساری زندگی رزق کمانے کے لئے رشوت اور سود کے پیسے پر بھروسہ کیا، ساتھی ہی اپنی شیطانی کامیابیوں کا ہر جگہ چرچا بھی کیا۔ خدا تعالیٰ کو میری دونوں خبیث حرکات سخت ناپسند آئیں، کیونکہ میری جن غلط کاریوں اور حرام راستوں سے کمائی دولت کے گناہِ کبیرہ حق تعالیٰ چھپا رہے تھے۔ میں ان پر اپنی کامیابی کے جھنڈے لہرا لہرا کر لوگوں کو شیطانی راستے پر آنے کی دعوت دے رہا تھا اور عوام و خواص کو اپنی سیاہ کاریوں پر خود ہی گواہ بنا رہا تھا۔ اس کے علاوہ میری ایک فاش غلطی یہ بھی تھی کہ میں نے ابلیسی کامیابی حاصل کرنے کے لئے ہر بد کردار، حرام خور اور برائی کے دلدادہ شخص کے ساتھ یارانہ اور کاروباری روابط رکھے ہوئے تھے۔ اب مجھ پر برا وقت آیا ہے تو سب نے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ خدایا! مجھے ناجائز ذرائع سے دولت کمانے اور گندے اور خبیث لوگوں کی صحبت سے بچالے۔‘‘
آخری الفاظ ادا کرتے ہوئے میرے دوست کی جو کیفیت تھی، میں اسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ پھر اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’ماسٹر! میری یہ سوچ غلط تھی کہ ہم دنیا میں ہر شخص کو خرید سکتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اس دنیا میں ہمارے اپنے معاشرے میں بے شمار افراد ایسے ہیں، جو انمول ہیں، نہ ہی وہ جھکتے ہیں اور نہ ہی بکتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں کو سلام کرتا ہوں۔ آج وہی لوگ میرے کام آرہے ہیں۔ کسی معاوضے اور مفاد کے بغیر میری مدد کر رہے ہیں۔ یہ خدا کے ایسے نیک بندے ہیں، جو سچ بولتے ہیں اور حلال و جائز ذرائع سے روزی روٹی کماتے ہیں… ماسٹر! میں نے نیکی کے کاموں میں ڈھنڈورا پیٹنا بند کر دیا ہے۔ صدقہ، خیرات اور مساکین کی امداد کا دکھاوا اور اس کا مبالغہ کے ساتھ پروپیگنڈہ کرنا بھی خدا پاک کو پسند نہیں، کیونکہ تصنع، بناوٹ اور ریاکاری شیطانی اوصاف ہیں۔ میں اپنی توفیق کے مطابق جو کچھ خدا پاک کی راہ میں خرچ کرتا ہوں، اسے پوشید رکھتا ہوں اور اس کی جزا اور اجر صرف اور صرف خدا پاک سے ہی مانگتا ہوں…‘‘
میں نے اپنے دوست سے آخری سوال کیا: ’’کیا تو اب بھی اس نظریئے پر قائم ہے کہ پاکستان میں ہر بڑا آدمی ’’لینڈ گریبر‘‘ ہے اور کیا تو بھی اسی راستے سے معاشرے میں بڑا مقام حاصل کرنا چاہتا ہے؟‘‘
میرے دوست کے چہرے پر ندامت آمیز مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے کہا کہ ’’میری سوچ غلط تھی، وہ لوگ انتہائی گھٹیا، نیچ اور پست خیالات کے حامل ہیں، جن کا نظریۂ حیات صرف زن، زر اور زمین کی ہوس اور لالچ کے نجس چکر میں پھنسا ہوا ہے۔ زمینوں پر ناجائز قبضہ، دولت اور مال جمع کرنے کی حرص ہرگز بڑے انسانوں کا شیوہ نہیں ہے۔ یہ ایک بدبودار دلدل ہے، جس میں لالچی انسان ایک نہ ایک دن ضرور دھنستا ہے۔ میری توبہ ہے کہ میں اس کیچڑ کی طرف کبھی دوبارہ رخ کروں۔ اس کام میں سوائے تباہی و بربادی اور دنیا و آخرت کی ذلت اور رسوائی کے کچھ نہیں ہے۔‘‘
میں اور میرا بچپن کا دوست کافی دیر تک ماضی، حال اور مستقبل کے تذکرے کرتے رہے۔ ہم نے خوب توبہ کی اور خوف وفکر آخرت کی دعائیں کرکے ایک دوسرے کو حوصلہ دیا۔ میں بہت خوش ہوں کہ میرا دوست حالات کے جبر کے بھنور سے باہر نکل رہا ہے۔
قارئین! میری اس تحریر کا اخلاقی سبق یہ ہے کہ ہمیں اپنی بہو بیٹیوں کی دل سے قدر کرنی چاہئے۔ یہ خدا پاک کی رحمت ہیں، جن گھرانوں میں ان کو باعزت مقام دیا جاتا ہے، ان پر خدا کی رحمت اور کرم کی بارش برستی ہے۔ ایسے کنبوں میں رزق کی کثرت اور برکت ہوتی ہے۔ دوسرا درس یہ ہے کہ کامیابی اور ترقی کے لئے ہمیشہ جائز اور حلال ذریعہ اختیار کرنا چاہئے۔ نیز ایسے لوگوں کی صحبت میں نشست وبرخاست کریں، جو سچے، درد مند، دلسوز اور خدا اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ حق تعالیٰ جل شانہٗ میرے دوست کی توبہ ضرور قبول فرمائیں گے اور اصل یہ ہے کہ میں اپنے دوست کی جگہ ہر لمحہ خود اپنے آپ کو رکھتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ’’یارب! میری توبہ!‘‘
اے رحمتِ تمام میری خطاء معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے پی گیا
٭٭٭٭٭