مفتوح شہر

ہم تو جنرل رضوان اختر کو بہت سمجھدار اور جہاں دیدہ آدمی سمجھتے تھے۔ مگر وہ تو عام آدمی سے بھی زیادہ کوتاہ بین اور سرسری نتائج اخذ کرنے والے نکلے۔ کراچی سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے انہوں نے جو تجاویز دیں۔ انہیں پڑھ کر تو انداز ہوتا ہے کہ وہ کراچی کے بارے میں کچھ جانتے ہیں نہ دہشت گردی کے خاتمے کے بارے میں۔ موصوف کا کہنا تھا کہ دہشت گردی ختم کرنی ہے تو گنجان آبادیوں کو ہلکا کرنا ہوگا۔ ان آبادیوں میں داخل ہونے کے راستے کشادہ کرنے ہوں گے۔ بلند عمارتوں کو گرانا ہوگا۔ تبھی دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم ہوں گی۔ یہ باتیں کوئی ناخواندہ پولیس کانسٹیبل کرتا تو شاید اتنا افسو س نہ ہوتا۔ لیکن جنرل کی سطح تک پہنچنے والا ایک افسر جب اتنے سطحی حل پیش کرے تو لگتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے اس افسر کی بہت تربیت کی ضرورت ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ اگر آپ دہشت گردی کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کے بعد انہیں فوری اور کڑی سزا کیوں نہیں دیتے؟ بغیر سزا کے آپ انصاف کے تقاضے پورے کر سکتے ہیں، نہ دہشت گردی ختم کر سکتے ہیں اور نہ مستقل امن قائم کر سکتے ہیں۔ کیا رضوان اختر اور ان کے بعد آنے والے جرنیل بتا سکتے ہیں کہ اربن ٹیررازم کے خاتمے کے لئے انہوں نے اب تک کتنے دہشت گردوں کو پھانسی دلوائی؟ ایک کو بھی نہیں۔ جی ہاں چھ برس سے جاری آپریشن میں آٹھ دس ہزار بندے گرفتار ہوئے۔ سینکڑوں نے ہزاروں قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ مگر سزا ایک کو بھی نہیں ملی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں مجرم ضمانت پر چھوٹ کر باہر آگئے یا ان کے مقدمات ختم ہو گئے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ ٹاپ دہشت گردوں اور ان کے کمانڈروں کو آپ نے دھو دھا کے پی ایس پی میں شامل کرا دیا۔ جہاں وہ سکھ کی نیند سونے لگے اور چین کی کمائی کھانے لگے۔ سوال یہ ہے کہ آپ شہری دہشت گردی کے خاتمے پر نکلے ہیں اور اربوں کا بجٹ اور بے انتہا اختیارات استعمال کرنے کے باوجود۔ کئی ہزار آپریشنز کرنے کے باوجود۔ کسی ایک دہشت گرد کو سزا کیوں نہ دلوا سکے؟ اس لئے کہ آپ کی نیت ہی نہیں تھی۔ ہوتی تو پی ایس پی نہ بناتے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ لیکن آپ نے کراچی حیدر آباد کے کسی ایک دہشت گرد کا مقدمہ ان میں نہیں بھیجا۔ یہ نہ کہئے گا کہ یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی۔ سب کو پتہ ہے کہ ایسے مقدمات کا انتخاب اپیکس کمیٹی کرتی ہے۔ اور اپیکس کمیٹی کس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ صوبائی حکومت تو صرف اسٹیمپ لگاتی ہے۔ اس سے زیادہ اس کا چارٹر ہی نہیں۔ لیکن حیرت یہ ہے کہ شہری دہشت گردوں سے اتنی رعایت اور شفقت کے بعد آپ نے لیاری گینگ وار اور فاٹا میں زیرو ٹالرینس برقرار رکھی۔ جو ملا اسے مار دیا۔ یا رائو انوار کے حوالے کر دیا۔ وجہ یہ تھی کہ ان علاقوں سے آپ دہشت گردی کا خاتمہ دل سے چاہتے تھے۔ لیکن یہی پالیسی شہری دہشت گردوں کے خلاف جاری رکھنے سے آپ نے گریز کیا۔ تبھی وہ فتنہ پھوٹا۔ جس نے اپنے اور پرائے دہشت گرد کی اصطلاح کو پروان چڑھایا۔ کراچی کے دہشت گرد متحدہ کا حصہ تھے۔ اور متحدہ آپ کی لاڈلی تھی۔ اس سے کام لینے تھے۔ اس لئے اسے مائنس الطاف تو کر دیا گیا۔ لیکن اس کے ناخن۔ دانت۔ جبڑے اور غراہٹ برقرار رکھی۔ بلکہ انہیں علیحدہ علیحدہ خانوں میں رکھ دیا۔ تاکہ ضرورت پڑنے پر سارے پرزے جوڑ دیئے جائیں اور اس مشینی بھیڑیئے کو عوام پر چھوڑ دیا جائے۔ اس حرکت کے بعد دہشت گردی کا خاتمہ ایک سراب ہے۔ دھوکا ہے اور عوام کو بے وقوف بنانے کا طریقہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ چھ سات برس کے آپریشن میں آپ متحدہ کے ذخیرہ شدہ ہتھیاروں کا دس فیصد بھی برآمد نہ کر سکے۔ آپ کرنا نہیں چاہتے تھے یا کر نہ سکے یہ تو بعد کی بات ہے۔ اصل بات تو یہ کہ اتنے ہتھیاروں کا محفوظ رہنا بجائے خود خطرے کی گھنٹی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہتھیار برآمد کیسے ہوتے؟ انہیں گاڑنے والوں کی ٹوپی پر تو آپ نے کبوتر کا پر لگا دیا۔ انہیں حاجی نمازی بنا دیا۔ ادھر ادھر سے چند کلاشنکوفیں یا ڈبل بیرل برآمد کرنے سے ہتھیاروں کے اس بڑے ذخیرے کا کچھ نہیں بگڑا۔ جو متحدہ کے پاس آج بھی محفوظ ہے اور کبھی بھی اوپر آسکتا ہے۔ اب آئیے تیسری بات کی طرف۔ دہشت گردی کے لئے ہتھیاروں کی ترسیل روکنے کا جامع اور فول پروف نظام آپ آج تک نہیں دے سکے۔ کراچی کے داخلی اور خارجی راستوں پر الیکٹرانک چیکنگ کا ایسا کوئی مبسوط اور جدید انتظام نہیں۔ جو ہتھیاروں کی ترسیل روک سکے۔ جس طرح چوری کی گاڑیاں کراچی سے نکل جاتی ہیں۔ اسی طرح ہتھیاروں سے لدی گاڑیاں کراچی آجاتی ہیں۔ معروف شاہراہوں کی جگہ کچے اور دشوار گزار راستوں کو آپ سے زیادہ دہشت گرد اور قانون شکن جانتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں۔ آپ نہ تو کوئی چیز یا انسان جانے سے روک سکتے ہیں نہ آنے سے۔ پھر دہشت گردی کیسے رکے گی؟ چوتھی بات یہ کہ ایک ہی طرح کے شہری دہشت گردوں سے دو طرح کے سلوک نے بجائے خود دہشت گرد پیدا کرنے کا سلسلہ تیز کر دیا۔ لیاری گینگ وار پھر سر اٹھا رہا ہے۔ وہ دبئی اور جیل سے بھتہ وصول کرتا ہے اور وارداتیں کراتا ہے۔ گینگ وار سے دشمنی اور متحدہ سے باپ جیسے سلوک نے لیاری اور بلوچستان کے دہشت گردوں کو مظلوم بننے کا نیا موقع دیا ہے۔ وہ پھر سے آرگنائز ہوئے تو اس میں سراسر آپ کی غلط حکمت عملی کا قصور ہوگا۔ پانچویں بات یہ کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں جرائم کے اڈوں سے ملنے والی آمدنی کا بڑا رول ہے۔ چھ برس کے آپریشن میں ایک اڈہ بھی بند نہیں ہوا۔ وقتی طور پر کچھ بند ہوئے تھے۔ وہ نام مقام بدل کر دوبارہ کھل گئے ہیں۔ منشیات کی فروخت زوروں پر چلی گئی ہے۔ شراب۔ جوئے اور سٹے کے اڈے اسی آب و تاب سے چل رہے ہیں۔ آپ کو نظر نہ آئیں تو اور بات ہے۔ ان سے پولیس بھی بھتہ لیتی ہے اور دہشت گرد جرائم پیشہ بھی۔ چھٹی بات یہ کہ دہشت گردی کے فروغ میں چائنا کٹنگ کا بڑا ہاتھ ہے۔ آپ نے ایک چائنا کٹر کو بھی سزا نہیں دی۔ چند بڑوں کو گرفتار کیا۔ پھر دو یا تین ماہ بعد چھوڑ دیا کہ آپ کے مخبر بن کر معلومات دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ بھیس اور جگہ بدل کر یہ چائنا کٹنگ آج بھی جاری ہے۔ یہ درست ہے کہ اس کا والیوم کم ہوا ہے۔ لیکن قبضے آج بھی ہو رہے ہیں اور پلاٹ آج بھی بیچے جا رہے ہیں۔ ایک شخص دس ایکڑ زمین الاٹ کراتا ہے۔ بیس ایکڑ کے پلاٹ بیچ کر نکل جاتا ہے اور الاٹیز سر پکڑ کر روتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے چائنا کٹنگ والوں کو پھانسی کیوں نہ دی؟ ان کی سرپرستی کیوں کی؟ درگزر سے کام کیوں لیا؟ یہی حال مقامی اداروں میں بھرتی ہونے والے گھوسٹ ملازمین کا ہے۔ متحدہ نے کوئی پچاس ہزار سے زائد بھرتیاں کرائی تھیں۔ آپ نے دو یا تین ہزار کو فارغ کرنے کے بعد یہ بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا۔ کہاں گئیں وہ فہرستیں۔ جو بڑے طمطراق سے آپ نے بنوائی تھیں؟ بڑے دعوے کئے تھے کہ ان کے خلاف یہ کر دیں گے۔ وہ کر دیں گے۔ بیخ و بنیاد سے اکھاڑ دیں گے۔ گردن اڑا دیں گے۔ لیکن سب باتیں ہوائی نکلیں۔ اور تو اور سانحہ بلدیہ کے ذمہ داروں کو سزا دینے کا اعلان آپ نے ایک سے زائد بار کیا۔ لیکن آپ کسی کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ بلکہ سانحے کا سب سے بڑا مجرم آپ لوگوں کی تحویل میں بیٹھا روغنی روٹی توڑ رہا ہے۔ کیا ایسے ختم ہوگی دہشت گردی؟ ایسے آئے گا مستقل امن؟ اب چونکہ کمہار پر آپ کا بس نہیں چلتا تو آپ نے گدھے کے کان اینٹھنے شروع کر دیئے ہیں۔ عمارتیں گرادو۔ گنجان آبادی کو گنجا کر دو۔ دکانیں توڑ پھوڑ دو۔ لاکھوں لوگوں سے روزگار اور چھت چھین لو۔ کولمبیا سے ممبئی تک دہشت گردوں۔ قاتلوں۔ اسمگلروں اور کوکین مافیاز سے لڑنے والی فورسز نے کبھی یہ حرکت نہیں کی۔ انہوں نے سیدھے سبھائو دہشت گرد اور جرائم پیشہ مارے۔ عام شہری تو بے چارہ خود یرغمال تھا۔ اس کی دکان اور پراپرٹی گراکر کیا کرتے؟ نئے دہشت گرد پیدا کرتے؟ مگر آپ نے یہ نیا فارمولہ نکالا کہ دہشت گردوں کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ شہر کو قبرستان بنادو۔ جگہ جگہ ہل چلادو۔ صدر سے ملیر تک مسمار شدہ ملبے سے ڈھکا ہوا میدان بن جائے گا تو کسی دہشت گرد کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ یہ کام تو فرانس پر قبضے کے دوران نازی فوجوں نے کیا تھا۔ لیکن فرانس کی تحریک مزاحمت پھر بھی زندہ رہی اور جرمنوں کو ناکوں چنے چبواتی رہی۔ لیکن فرانس اور جرمنی تو دشمن ملک تھے۔ اپنے ہی ملک میں اپنے ہی شہر کے اپنے ہی شہریوں سے چھت اور زرق چھین کر دہشت گردی ختم کرنے کا کام کسی فورس نے نہیں کیا۔ آئرلینڈ کی تحریک آزادی یا برطانیہ کے بقول دہشت گردی ستّر سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہی۔ برطانیہ نے تو کبھی آئرلینڈ کے گنجان علاقوں کو مٹی کا ڈھیر نہیں بنایا۔ اس تجویز کی سنگینی اتنی واضح ہے کہ اس پر بات کرنے کو بھی دل نہیں چاہتا۔ آپ ہزاروں لوگوں کو تباہ کرکے ان کے دل میں انتقام اور بدلے کی آگ روشن کر رہے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ امن آجائے؟ پیٹرول چھڑک کر آگ بجھانے کا کام کون کرتا ہے؟ شہر میں اگر تاریکی ہو تو اسے دور کرنے کے لئے شہر کو آگ لگانا کہاں کی حکمت ہے؟ جن عمارتوں نے اس ملک کے قانون کے مطابق سر اٹھایا ہے۔ ان کا سر کچل کر آپ کس قانون کی پاسداری کریں گے؟ لاقانویت تو پھر آپ کے فیصلے سے پھیلے گی۔ دہشت گردی تو زندہ آپ کے عمل سے ہوگی۔ اپنی غلطیاں ماننے۔ تسلیم کرنے اور انہیں درست کرنے کے بجائے کراچی کو دشمن ملک کا مفتوح شہر بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ اس سے کس کا کام آسان کریں گے؟ اپنا یا دشمن کا؟ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment