بھارت کے اوچھے ہتھکنڈے

کشمیریوں کی جرأت و بہادری اور بھارتی تسلط سے آزادی کے حصول کی جدوجہد سے اظہار یکجہتی کے طور پر پاکستانی قوم گزشتہ کئی دہائیوں سے ہرسال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتی آئی ہے۔ ریاست جموں و کشمیر بنیادی طور پر 7 بڑی ریجنوں پر مشتمل ہے، یہ جنت نظیر وادی 84 ہزار 471 مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے، جبکہ آبادی کے حساب سے اقوام متحدہ کے 140 اور رقبے کے حساب سے 112 رکن ممالک سے بڑی ہے۔ مذکورہ بالا تمام ریجنوں کی اپنی اپنی ایک تاریخ ہے، جو ہزاروں برس پر محیط ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق یہ خطہ سمندر میں ڈوبا ہوا تھا، پھر آہستہ آہستہ یہ حسین سرزمین وجود میں آئی۔ مقبوضہ وادی کے باشندے بھارتی تسلط سے آزادی چاہتے ہیں، جس کیلئے وہ اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں۔ یہی سبب ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کو بزور طاقت دبانے کیلئے بھارت نے ایک بار پھر کشمیریوں کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ امریکہ اور بھارت کی دوستی رنگ لارہی ہے، اس کا ثبوت امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا تازہ ترین انٹرویو ہے، جس میں ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور نئی دہلی کو مسئلہ کشمیر کا حل خود تلاش کرنا ہوگا۔ تاہم اس موقع پر انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ننگی جارحیت و بربریت کا تذکرہ نہیں کیا۔ مقبوضہ وادی میں حزب المجاہدین کے 21 سالہ کمانڈر برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد سے اب تک شہیدوں کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، جبکہ سیکڑوں افراد زخمی ہیں۔ زخمیوں میں وہ نوجوان اور بچے بھی شامل ہیں، جنہیں بھارتی فوجیوں نے پیلٹ گنوں سے نشانہ بنا کر نابینا کر دیا ہے۔ بھارتی مظالم سے اقوام متحدہ کی چشم پوشی کے بعد اس عالمی ادارے کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار باور کرائے۔ کشمیریوں کی جنگ، بھارت کے کالے قوانین کے خلاف نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی مرضی کا مستقبل چاہتے ہیں۔ وہ آزادی سے رہنے کے خواہشمند ہیں، جس کیلئے انہوں نے غلامی کی زنجیریں توڑنے کا عزم کر رکھا ہے۔ جمہوریت کے سب سے بڑے دعویدار بھارت نے ان کا سکھ چین چھین رکھا ہے۔ کشمیری قوم کو غلام بنا رکھا ہے۔ بندوق کی نوک پر عوام کو قید کیا گیا ہے، لیکن اس تمام جبر و استبداد کے باوجود کشمیری نسل در نسل آزادی کی جنگ میں مصروف ہیں۔ کشمیریوں نے سب سے زیادہ قیمتی عزت و جان کی قربانی دی ہے، اس سے بڑھ کر ان کے پاس دینے کو کچھ ہے بھی نہیں۔ امریکہ کے تمام اخبارات بالخصوص واشنگٹن پوسٹ کشمیر کی صورتحال پر شہ سرخیوں سے رپورٹنگ کررہے ہیں۔ امریکی میڈیا ہی کے مطابق بھارتی فوج کی جانب سے مہلک چھروں کا استعمال کیا جارہا ہے، جس سے سینکڑوں بچے آنکھوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک میں بہت سے موڑ آئے، اپنوں کی بے اعتنائیوں اور اغیار کی سازشوں کی وجہ سے بعض اوقات یہ تحریک کمزور بھی پڑی، مگر شہدا کا لہو اس تحریک کیلئے ایندھن کا کام کرتا رہا۔ جبکہ کبھی تحریک کمزور ہوئی تو شہیدوں نے اپنے لہو کا خراج دے کر اس تحریک کو بام عروج پر پہنچایا۔ برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد اس وقت تحریک آزادی ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہے۔ اس تحریک کو دبانے کیلئے بھارتی افواج کشمیر میں ظلم و تشدد کو بڑھا دیا ہے، جس کے جواب میں کالج اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے کشمیری طلبا مجاہدین کی صفوں میں شامل ہونے لگے ہیں۔ یہ مقبوضہ وادی کی وہ تیسری نوجوان نسل ہے، جس نے اپنی آنکھیں مظالم دیکھتے اور تشدد سہتے ہوئے کھولیں۔ ان میں سے متعدد نے ٹارچر سیلوں کے اندر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا۔ ان ٹارچر سیلوں میں ان پر کئے جانے والے تشدد اور ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے پیاروں کی تڑپتی لاشوں نے ان کے دلوں میں بھارت کیخلاف نفرت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے۔ تحریک آزادی کشمیر کی قیادت اب انہی نوجوانوں کے پاس ہے، انہی نوجوانوں میں سے ابوالقاسم شہید ہوئے اور برہان وانی کی شہادت پر ان کے جنازوں میں لاکھوں کشمیری جمع ہوئے۔ مظاہرین میں اکثریت کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلبا کی ہے، یہ نوجوانوں کا جذبہ ہے کہ وہ پاکستان کے پرچم لہرا کر پاکستان سے اپنی محبت کا ثبوت بھی دے رہے ہیں۔ تحریک آزادی میں تیزی جو اب آئی ہے، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوج کے کور کمانڈرز اور جنرلز یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ’’ہم کشمیر میں جنگ ہار چکے ہیں‘‘ اس وقت تحریک اپنے نقطہ عروج پر ہے۔ بھارت کے اندر سے اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں کے بیانات آرہے ہیں۔ مغربی ممالک کی توجہ بھی اس طرف ہونا شروع ہوگئی ہے، یہی سبب ہے کہ بھارت نے کشمیری حریت پسندوں کے مظاہروں کی میڈیا کوریج پر پابندی عائد کردی ہے۔ موبائل فون اور انٹر نیٹ سروس معطل بھی کردی ہے، ان اقدامات سے صاف ظاہر ہے کہ بھارت ہر اوچھی حرکت کرنے کو تیار ہے، لیکن اس کے باوجود بھارت کشمیری نوجوانوں کے سامنے بے بس نظر آرہا ہے۔ ان گھمبیر حالات میں اقوام متحدہ اور ترقی یافتہ ممالک کو کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ کشمیریوں پر بھارت کے برسوں سے ہوتے مظالم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ان مظالم پر اقوام متحدہ او آئی سی اور دیگر ممالک نے چپ سادھے رکھی تو بھارتی جرم میں وہ بھی برابر کے شریک سمجھے جائیں گے، کیونکہ ظلم پر خاموشی بھی جرم ہے۔ بھارت انتہائی مکر اور فریب کے ساتھ کنٹرول لائن پر دانستہ طور کشیدگی پیدا کرکے کشمیر کے ایشو کو پس پردہ ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اوڑی محلے کے بعد پہلے تو انڈیا میں پاکستان پر فوجی کارروائی کی باتیں ہوئیں اور بعد میں اسلام آباد کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے مشن کا آغاز ہوا۔ مسلح تصادم کی دھمکیوں یا سفارتی مورچہ بندی اپنی جگہ، لیکن اب انڈیا میں پاکستان کے خلاف پانی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ واضح رہے 1960ء میں ورلڈ بینک اور کئی مغربی ممالک نے انڈین وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستانی صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کے درمیان اس معاہدے کی ثالثی کی اور یہ معاہدہ سندھ طاس معاہدہ یا انڈس واٹر ٹریٹی کے نام سے مشہور ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے دریائے سندھ، ستلج، بیاس، راوی، چناب اور جہلم بہتے ہیں۔ معاہدے میں ستلج، بیاس اور راوی پر انڈیا کے قدرتی حق کو تسلیم کیا گیا، جبکہ پاکستان کو چناب، سندھ اور جہلم پر حقوق دیئے گئے۔ ماہرین کے مطابق اگر پانی کو جنگی ہتھیار بنا کر انڈیا نے پاکستان کی طرف جانے والے دریائوں کا پانی روکا تو کشمیر میں، میں ہر لمحہ سیلاب آئے گا اور پھر اگر چین نے یہی حربہ استعمال کرکے تبت سے آنے والے برہم پترا دریا کا رخ موڑا تو بھارت کی شمال مشرقی ریاستیں برباد ہو جائیں گی۔ اس معاہدے کو توڑا گیا تو انڈیا کو چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا۔ چین کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے کہ وہ ہفتوں کے اندر برہم پترا کا رخ موڑ سکتا ہے پھر تو پنجاب، ہریانہ، دلی اور دیگر کئی ریاستوں میں اندھیرا چھا جائے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان دشمن اندرونی و بیرونی محاذوں پر تواتر کے سازشیں کررہے ہیں اور پاکستان کو کمزور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اس کے باوجود پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں ہر آنے والے دن میں بہتری آرہی ہے۔ دفاعی شعبے میں ترقی ہی اس ملک اور قوم کی زندگی ہے۔ پاکستان کو دفاعی میدان میں اسی طرح بڑھتے رہنا چاہئے، کیونکہ ازلی دشمن پاکستان کو نیچا دکھانے، خطے میں چوہدراہٹ قائم کرنے کیلئے ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔ بھارت ایک طرف جدید ہتھیاروں کے انبار لگا رہا ہے، جبکہ دوسری طرف افغانستان اور بلوچستان کے راستے ’’را‘‘ کی مدد سے پاکستان میں دہشت گردی کرانے میں مصروف ہے۔ درجنوں بھارتی خفیہ ایجنٹ گرفتار ہو چکے ہیں۔ پاک فوج نے 2015ء سے 2018ء کے دوران دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب میں مثال کامیابیاں حاصل کیں۔ آپریشن میں دشمن کو کاری ضرب لگی اور 90 فیصد علاقہ دہشت گردوں سے کلیئر کرالیا گیا۔ دہشت گردوں کے 837 ٹھکانوں سمیت ان کا انفرا اسٹرکچر تباہ کردیا گیا، جبکہ 3400 دہشت گرد مارے گئے۔ انٹیلی جنس کی بنیاد پر ملک بھر میں 10 ہزار سے کارروائیوں میں 150 سے زائد خطرناک دہشت گرد مارے گئے اور 18 ہزار سے زائد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ آپریشن ضرب عضب میں سیکورٹی فورسز کے 400 افسران اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ 1914 جوان زخمی ہوئے۔ اب پاک افغان سرحد کے قریب دہشت گردوں کے آخری ٹھکانے تباہ کئے جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ پاک فوج کی بہترین کارکردگی کے نتیجے میں امریکہ، پاکستان کو 8 ایف 16 فروخت کرنے کیلئے تیار ہوا۔ المیہ یہ ہے کہ بھارت خود فرانس، روس اور دیگر ممالک سے جدید ہتھیار خرید رہا ہے، جبکہ پاکستان خاموش ہے۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان جب بھی ہتھیار خریدتا ہے تو بھارتی لابی امریکہ میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے متحرک ہو جاتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کو پاکستان کی غلیل بھی میزائل نظر آتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی فوج دنیا کی بہترین قرار دی جاتی ہے اور یہ جنگ جذبے کے ساتھ لڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت 7 گنا فوجی طاقت ہونے کے باوجود پاکستان سے خوفزدہ ہے۔٭

Comments (0)
Add Comment