سترہ سال تک افغانستان میں شدید جانی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد امریکا بالآخر وہاں سے اپنے باقی ماندہ فوجی واپس بلانے پر طالبان سے مذاکرات کررہا ہے اور جس پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی یہ کہہ کر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ افغان امن مذاکرات بہتر طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں، تاہم انخلا کی مدت کو اگلے اٹھارہ ماہ تک پھیلانے کی وجہ سے کسی وقت اور کہیں بھی رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں۔ پاکستان نے امریکا، کٹھ پتلی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان رابطوں اور مذاکرات کی راہ ہموار کرنے میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے، جس کا اعتراف عالمی برادری کے علاوہ امریکی حکام بھی کرتے ہیں، لیکن جن لوگوں کی روزی انسانوں کے قتل عام اور اسلحہ و دہشت گردی سے وابستہ ہو، وہ کبھی امن و سکون نہیں چاہتے۔ اس کی ایک مثال بھارت کی فوج ہے، جس کی تنخواہوں اور دیگر مراعات کے علاوہ اسلحہ کی خرید و فروخت میں اس کے اپنے مفادات بھی وابستہ ہیں۔ اسی لئے مسئلہ کشمیر کے حل میں بھارتی سیاستدانوں اور حکومتی رہنماؤں سے زیادہ وہاں کی فوج رکاوٹ بنتی ہے۔ ایک بار مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل نکل آئے تو پاکستان اور بھارت دونوں کے بھاری دفاعی بجٹ کم کر کے فوجی وسائل کو ملک کی فلاح و بہبود اور عوام کی زبوں حالی دور کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع اور اس سے وابستہ بعض اداروں میں بھی ایسے لوگ بیٹھے ہیں جو بین الاقوامی اسلحہ ساز فیکٹریوں سے روابط رکھتے ہیں اور دنیا کے مختلف ملکوں میں جنگ وجدل اور دہشت گردی کا ماحول قائم رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ ان کے تیار کردہ اسلحے کی خرید و فروخت جاری رہے تو وہ بھی اپنا حصہ بقہ جثہ وصول کرتے رہیں۔ افغانستان، خطے اور عالمی امن کے لئے پاکستان کی خدمات پر ساری دنیا اس کی معترف ہے، لیکن امریکا کے ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس ڈینیل کوٹس نے اس کے بالکل برعکس ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا تنگ نقطۂ نظر طالبان کے خلاف ہماری کوششوں پر پانی پھیر دے گا۔ موصوف نے کسی دلیل یا معروضی حقائق کے بغیر محض یہ کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ 2019ء میں افغانستان اور بھارت میں ہونے والے انتخابات اور وسیع پیمانے پر طالبان کے حملوں سے جنوبی ایشیا کو درپیش چیلنجوں میں اضافے کا امکان ہے۔ ڈینیل کوٹس نے سینیٹ کمیٹی میں امریکا کو درپیش اہم عالمی خطرات کی نشاندہی پر مبنی رپورٹ پیش کی ہے۔ ان کے خیال میں نئے سال کے دوران پاکستان میں موجود مسلح گروہ اپنی محفوظ پناہ گاہوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پڑوسی ممالک پر حملے جاری رکھیں گے۔ رپورٹ میں پاکستان کو دہشت گردی کی حمایت کرنے اور انہیں پناہ گاہیں فراہم کرنے کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔ ڈینیل کوٹس نے یہ بھی کہا کہ ہمیں پاکستان کے نئے ایٹمی ہھتیاروں پر تشویش ہے، جن کی تیاری پاکستان نے مسلسل جاری رکھی ہوئی ہے۔ رپورٹ میں بھارت کے جوہری پروگرام سے متعلق کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا گیا۔ پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی اور انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام اس قدر گھسا، پٹا، بیہودہ اور بے بنیاد ہے کہ دنیا اس پر توجہ دینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتی۔ جو ملک دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر ہوا، جس کے ستر ہزار کے قریب شہریوں اور فوجیوں نے دہشت گردی کے خاتمے کی جدوجہد میں اپنی جانیں قربان کیں اور جس کی پہلے سے کمزور معیشت کو شدید نقصانات سے دوچار ہونا پڑا، اس پر دہشت گردی کے فروغ کا الزام اس قدر گھٹیا ہے کہ دنیا کا کوئی معقول شخص اسے زیر غور لانا بھی پسند نہیں کرتا۔ امریکی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ڈینیل کوٹس اگر ایسا کوئی الزام لگائیں تو اسے امریکی خارجہ پالیسی کا ایک حصہ تصور کیا جا سکتا ہے۔ طالبان کے خلاف امریکی کوششوں پر پانی پھیر دینے کا تعلق پاکستان کے تنگ نقطۂ نظر سے جوڑنا امریکی انٹیلی جنس کے کسی اہلکار کے دماغ کی اختراع ہو سکتی ہے، جبکہ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ یہ نقطۂ نظر ہے کیا اور اس میں ڈینیل کوٹس کو کہاں اور کیسی تنگی محسوس ہو رہی ہے؟ کوئی شخص عقل سے بالکل ہی پیدل ہو اور جس کا دماغ خود اپنے مخصوص نظریات و مفادات کے باعث تنگ ہو چکا ہو تو وہ ساری دنیا کے برخلاف ایسی ہی بہکی بہکی باتیں کر سکتا ہے۔ اس وقت تو امریکی حکومت افغانستان کی دلدل سے نکلنے کیلئے طالبان سے مذاکرات کر رہی ہے تو ان کے خلاف مبینہ امریکی کوششوں پر پانی پھیر دینے کا خیال احمقانہ ہی قرار پائے گا۔ طالبان مذاکرات میں شرکت کے علاوہ یہ اعلان بھی کر چکے ہیں کہ وہ مستقبل میں افغانستان پر تنہا حکومت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، بلکہ افغان اداروں اور دوسرے گروپوں کے ساتھ مل کر بھائیوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں۔ اس وقت سوئی صرف اس بات پر اٹکی ہوئی ہے کہ امریکی حکام کے مطابق جنگ بندی کے اعلان سے قبل افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا ممکن نہیں۔ اُدھر طالبان کا مؤقف ہے کہ امریکی انخلا کی حتمی ضمانت ملنے سے قبل جنگ بندی نہیں ہو سکتی۔ امریکا یہ بھی چاہتا ہے کہ اس پر القاعدہ اور داعش کے حملے روکنے کی حکمت علمی پر غور کیا جائے۔ طالبان اس امر کی یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ امن مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد وہ خود القاعدہ اور داعش کے دہشت گردوں سے نمٹ لیں گے۔ ویسے بھی جب امریکا کو یہاں سے بے دخل ہی ہونا ہے تو افغان باشندے جانیں، ان کی آئندہ حکومت خود اپنی حکمت عملی وضع کرلے گی۔ افغانستان سے القاعدہ اور داعش کے امریکا پر حملوں کا خوف یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ امریکی حکومت اپنی سیاسی و معاشی ساکھ کے علاوہ عسکری و اخلاقی صلاحیت سے بھی محروم ہوتی جا رہی ہے۔ اس صورت میں امریکا کی جانب سے واحد عالمی سپرپاور ہونے کا زعم شیخ چلی کے خواب سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ٭