ماضی میں گلف اور سعودی عرب کے امیر عرب اس جانب، یعنی مشرق کے ملکوں میں نہیں آتے تھے۔ وہ تعطیلات منانے، شاپنگ کرنے اور عیاشی کی غرض سے مصر کا رخ کرتے تھے یا ترکی جاتے تھے۔ وہاں سعودی عرب کے امیروں کے قائم شدہ ’’سمر ہاؤس‘‘ بھی موجود ہیں۔ وہ زیادہ ہمت کرتے تھے تو انگلینڈ چلے جاتے تھے۔ لیکن اب، نائن الیون کے بعد میں دیکھتا ہوں کہ وہ ملائیشیا آنے لگے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی بڑی تعداد ممبئی میں بھی نظر آرہی ہے۔ ایک فرق ضرور ہے، ملائیشیا میں زیادہ تر عرب فیملی کے ساتھ جاتے ہیں، لیکن ممبئی میں تنہا مرد نظر آتے ہیں۔
سات جون سے ستمبر کی آخری تاریخوں تک بحیرئہ عرب میں چلنے والی چوماسی (مون سون) کی ہواؤں کا موسم رہتا ہے۔ اس دوران میں ممبئی تیز بارشوں اور سخت گرمی کی لپیٹ میں رہتا ہے۔ ایسے میں یورپ کے ٹورسٹ کا یہاں آنا بند ہو جاتا ہے، ویسے بھی یورپین سیاح اپنے ملک کی انتہائی سخت سردی سے فرار حاصل کر کے راحت کی غرض سے سردیوں کے موسم میں ایشیائی ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ لہٰذا بارش کے تین چار مہینے تک ممبئی یورپین سیاحوں سے خالی رہتا ہے۔
ان ایام میں جو چند ٹورسٹ ممبئی آتے ہیں، ان کی شاپنگ بہت سستی ہوتی ہے۔ بہر حال یورپی سیاحوں کی کمی کو پورا کرنے کے لئے اب یہاں عربوں کے ’’شوق‘‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے خاص انتظامات کیے گئے ہیں۔ یہ بات دیگر ہے کہ عرب اپنی ممبئی آمد کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ وہ یہاں بارش کا لطف لینے آتے ہیں۔ بالکل اسی طرح بنکاک اور پتایا میں پاکستانیوں سے میں اکثر پوچھتا تھا کہ انہوں نے سیر و سیاحت کے لئے تھائی لینڈ ہی کو کیوں ترجیح دی؟
’’سمندری ساحلوں کا لطف لینے کیلئے۔‘‘ وہ جواب دیتے تھے۔ گویا کراچی میں کلفٹن، ہاکس بے، سینڈس پٹ ہے ہی نہیں؟
بہرحال ساون کے موسم میں آپ کا ممبئی آنا ہو تو ملائیشیا کی طرح یہاں بھی ایک چھتری اپنے ساتھ ضرور لائیے، تاکہ خود کو بارش میں بھیگنے سے بچا سکیں۔ ممبئی کے چرچ گیٹ ریلوے اسٹیشن پر میری دو امریکن خواتین سے ملاقات ہوئی تھی، میں نے ان سے بھی یہی بات کہی۔
’’ممبئی آتے ہوئے اپنے ساتھ دو چیزیں ضرور لانی چاہئیں۔‘‘ ان میں سے ایک نے قدرے تیز لہجے میں کہا۔
’’کونسی دو چیزیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ایک تو مچھروں اور کھٹملوں کیلئے اسپرے اور دوسرا ٹوائلٹ پیپر کا رول، جس سے باربار ٹکڑا پھاڑ کر پسینہ پونچھا جاسکے۔ ممبئی میں سال بھر نمی اور گرمی کے سبب پسینہ ٹپکتا رہتا ہے اور اگر آپ حساب کرنے میں ماہر نہیں ہیں تو اپنے ساتھ ایک عدد کیلکولیٹر بھی ساتھ لے کر چلئے تاکہ آپ خریداری کے وقت اپنے ملک کی رقم کو انڈین کرنسی میں تبدیل کر کے چیزوں کے سستے یا مہنگے ہونے کا اندازہ کر سکیں۔‘‘
’’اچھا یہ بتایئے کہ ممبئی میں کن مقامات پر جانا چاہئے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اگر آپ کے پاس وقت اور پیسہ ہے تو میں یہی مشورہ دوں گی کہ ممبئی سے نکل کر جے پور چلے جائیں۔ مجھ سے کئی لوگوں نے کہا تھا کہ جے پور میں رکھا ہی کیا ہے؟ لیکن میں نے انڈیا کے شہر دہلی، گوا، آگرہ، ممبئی وغیرہ دیکھے ہیں، لیکن ان تمام شہروں میں مجھے جے پور پسند آیا ہے۔’’امید بھون‘‘ وہاں کا بہترین ہوٹل ہے۔ ہم دو افراد تھے اور ہم نے 25 ڈالر یومیہ کرایہ ادا کیا تھا۔ ہوٹل کی سروس بہترین، کھانا معیاری، سوئمنگ پول اور ہوٹل صاف ستھرا تھا۔ ہوٹل کی انتظامیہ نے ہمارا اس طرح خیال رکھا جیسے ہم وی آئی پی شخصیات ہوں۔ اگر آپ کا اس ہوٹل میں جانا ہو تو منظور نامی ڈرائیور سے ضرور ملئے گا۔ وہ بہترین گائیڈ ہے اور گفتگو بھی اچھی کرتا ہے، حس مزاح رکھتا ہے اور کرایہ بھی نہایت مناسب لیتا ہے۔ وہ شاپنگ کیلئے ہمیں صحیح جگہ لے جاتا تھا، میں نے کچھ جیولری خریدی تھی، جو اتنی کم قیمت میں مجھے کہیں دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی تھی۔ پانچ انگوٹھیوں اور ایک اعلیٰ قسم کے پتھر کا بنا ہوا ہار مجھے صرف 150 ڈالر میں مل گیا تھا۔ اس کے
علاوہ میں نے 28 ڈالرز میں 8 جوڑی سینڈل خریدے تھے، یہ اس شہر کا خاص تحفہ ہے۔‘‘
جے پور میں واقعی کوئی خاص بات ہے۔ میں نے دیکھا تھا کہ راجستھان کے اس صوبائی دارالحکومت شہر کو غیر ملکی سیاح بہت پسند کرتے ہیں۔ حالانکہ خوبصورتی، انٹرٹیٹمنٹ اور تاریخی نوعیت کے حوالے سے انڈیا میں دہلی، کلکتہ، امرتسر، گوا، ممبئی، بڑودا اور دیگر کئی شہر ہیں، لیکن جے پور کی اپنی ایک کشش ہے۔ اس شہر کی گلابی رنگ کی عمارتوں اور ہوا محل نامی خوبصورت محلات کی تصویریں دنیا کے لوگ بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔ راجستھان اور گجرات کے شہر ہم سندھ کے باشندوں میں اس لئے بھی دلچسپی کا باعث ہیں کہ ہمارے پڑوسی شہر ہیں۔ یہاں کا کلچر اور یہاں بولی جانے والی زبانیں گجراتی، کچھی اور راجستھانی وغیرہ سندھ کے سرحدی شہروں میں بھی بولی جاتی ہیں۔ خیر پور اور گھوٹکی سے جتنے فاصلے پر لاہور ہے، اس سے قریب جے پور شہر ہے۔ اجمیر، پشکار، بارمار اور جودھ پور، مزید قریب ہیں۔ انڈیا کا شہر جیسلمید سندھ کی سرحدسے اتنا قریب ہے جیسے لاہور اور امرتسر۔
جس زمانے میں ہوائی جہاز اور لاریاں نہیں تھیں اور لوگ پیدل یا اونٹوں کے ذریعے سفر کرتے تھے تو سندھ کے باسی گجرات اور راجستھان کے شہروں میں زیادہ آمد و رفت رکھتے تھے۔ شاہ لطیف بھی ان علاقوں میں زیادہ آتے جاتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے اشعار میں بیکارنید، کچھ، بھوج اور گجرات، راجستھان کے دیگر شہروں کا ذکر کیا ہے۔
بہرحال ہم جے پور کا ذکر کر رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’مہاراجا سوائی جے سنگھ‘‘ نے 1727ء میں اس شہر کو تعمیر کرایا تھا اور اسے اپنا دارالحکومت شہر کا درجہ دیا تھا۔ اس سے قبل قریبی شہر امبر کو یہ مقام حاصل تھا۔ امبر اور جے پور کے درمیان صرف چھ میل کا فاصلہ ہے۔ مہاراجا جے سنگھ نے 1699ء سے 1744ء تک حکومت کی۔ آبادی میں اضافے اور امبر شہر میں پانی کی قلت کے سبب مہاراجا جے سنگھ نے اپنے نام سے ’’جے پور‘‘ شہر تعمیر کرایا۔ شہر کو 9 حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ دو حصوں میں محلات اور سرکاری عمارتیں تعمیر کی گئیں اور باقی سات حصے عوام کے حوالے کردیئے گئے۔ حفاظت کے خیال سے شہر کے گرد مضبوط دیواروں کی فصیل تعمیر کی گئی، جس میں سات دروازے لگائے گئے۔ ان میں سے تین دروازوں کا رخ مہاراجا کے بزرگوں کی سلطنت کی جانب تھا۔ یہ دروازے سورج، چاند اور زور آور سنگھ کے نام سے آج بھی مشہور ہیں۔ اس شہر کی گلیوں کی ترتیب آج بھی واشنگٹن D.C کی طرح مشرق، مغرب اور شمال جنوب کی سمتوں میں ہے۔
غروب آفتاب کے وقت شہر کے دروازے بند کردیئے جاتے تھے اور صبح کو طلوع آفتاب کے وقت کھولے جاتے تھے۔ جے پور کیلئے کہا جاتا ہے کہ یہ انڈیا کا پہلا شہر ہے، جس کی تعمیر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی گئی۔
مہاراجا جے سنگھ میتھس اور سائنس کے بھی ماہر تھے
۔ انہوں نے وقت کے ماہر انجینئر بنگالی برہمن اسکالر ’’ودھیادھر چاریہ‘‘ کی مشاورت سے شہر کی عمارتیں تعمیر کرائی تھیں۔ حالانکہ اس زمانے، یعنی 1727ء میں موٹر کاریں ایجاد نہیں ہوئی تھیں، لیکن ہر سڑک کشادہ بنائی گئی تھی۔ 1853ء میں انڈیا پر برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کا راج تھا۔ ان ایام میں انگلینڈ کے شہزادہ ویلس (Prince of Wales) جے پور آئے تھے۔ ان کی آمد کے موقع پر شہر کی تمام عمارتوں پر گلابی رنگ کیا گیا تھا۔ آج بھی جے پور کی کئی عمارتیں، سرکاری بلڈنگز اور محل پر گلابی رنگ کیا جاتا ہے۔ ان ایام میں شہر کی کشادہ سڑکوں پر حکومت کی جانب سے شمع دان روشن کیے جاتے تھے۔ عوام کے علاج معالجے کیلئے کئی اسپتال قائم تھے۔ روزگار کے لئے لوہے اور ماربل کے کارخانے تھے۔ یہ آج سے ڈیڑھ سو برس پہلے کی بات ہے۔ 1868ء میں آرٹ کے اسکول کھولے گئے، اس کے علاوہ پہلے ہی سے وہاں تین کالج قائم تھے۔ ان میں سے سنسکرت کا کالج 1865ء میں کھولا گیا تھا۔ ایک کالج لڑکیوں کے لئے تھا اور اس کا قیام 1867ء میں ہوا تھا۔ یہاں سرمایہ کاری کے لئے کئی امیر لوگ موجود تھے، خاص طور جین اور مارواڑی تاجر۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ جے پور آج بھی امن وامان اور تعلیم کے لحاظ سے ایک اعلیٰ شہر ہے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ سکھر جتنے شہر جے پور میں آج پچیس انجینئرنگ کالج قائم ہیں۔ 27ء عدد بزنس مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ، 15 فارمیسی کالج، 4 ہوٹل مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ، 3 میڈیکل کالج اور 6 ڈینٹل کالج ہیں۔ ان کے علاوہ 8 یونیورسٹیاں ہیں اور انڈیا کی مشہور ’’راجستھان یورنیورسٹی‘‘ بھی اسی شہر میں قائم ہے۔ یہاں کی NIMS یونیورسٹی جے پور انڈیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔
آپ ضرور یہ سوچ رہے ہوں گے کہ سکھر اور حیدر آباد جیسے شہر کی آبادی اتنی کیسے ہو سکتی ہے کہ اتنی تعداد میں قائم کالج اور یونیورسٹیاں طالبان علم سے بھری رہتی ہوں… دراصل اس شہر میں امن و امان کی صورت حال خاصی بہتر ہے۔ اس لئے انڈیا کے کئی شہروں سے والدین اپنے بچوں کو حصول علم کے لئے جے پور بھیجتے ہیں۔ ہر کالج کے ہاسٹل، طلبا سے بھرے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ انڈیا کے دیگر شہروں کی نسبت جے پور میں غیر ملکی طلبا زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔
اگر آپ کا جے پور آنے کا اتفاق ہو تو راجا جے سنگھ کے پرکھوں کے تخت والا پرانا شہر ’’امبر‘‘ ضرور دیکھئے گا۔ مہاراجہ جے سنگھ کے بارے میں پہلے بھی بیان کیا جاچکا ہے کہ وہ علم فلکیات کے ماہر تھے۔ ان کی تعمیر شدہ روگاہ جنتر منتر، ہوا محل، البرٹ میوزم، برلامندر، رام باغ محل داب (یہ لگژری ہوٹل ہے) اور سیسودایا گارڈن ضرور دیکھئے۔
٭٭٭٭٭