سیلانی کے ساتھ بیٹھے بزرگ پہلے تو کچھ بڑبڑاتے رہے، پھر اس کے زانو پر انگلیوں سے دستک دے کر اسے اپنی جانب متوجہ کیا اور اس بات کی تسلی کر لینے کے بعد کہ سیلانی ان کی جانب مکمل طور پر متوجہ ہوگیا ہے، کہنے لگے: ’’یہ تو وہ بات ہوئی کہ جن کے لئے محفل سجائی جائے، جن کے نام پر مہمان بلائیں جائیں، ان ہی سے کہا جائے کہ وہاں کونے میں جا کر بیٹھ جائیں، ساتھ ہی ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموشی سے بیٹھے رہنے کی تلقین بھی کر دی جائے، یہ کوئی بات ہوئی بھلا، کشمیر کے مسئلے پر بات کرنے کے لئے مشاورتی کانفرنس ہو رہی ہے اور کشمیر ہی کے اصل وارثوں سے کہا جا رہا ہے کہ بس سلام کرکے مائیک چھوڑ دو۔‘‘
’’حضرت! ایسا تو نہیں کہا گیا۔‘‘ سیلانی نے ان سے اختلاف کیا، جس پر وہ تیوریاں چڑھا کر کہنے لگے ’’اچھا! پھر یہ کیا ہوتا ہے کہ اب دیکھیں گے کہ کون ریکارڈ وقت میں اپنی بات مکمل کرتا ہے، اس کا کوئی اور مطلب ہے؟؟‘‘
سیلانی نے خاموش رہنے میں عافیت سمجھی، ویسے اصولی طور پر ان کی بات درست تھی، لیکن یہ بھی ہے کہ قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے، مولانا امجد صاحب کے ذمے کانفرنس کی نظامت تھی، مسئلہ کشمیر پر جمعیت علمائے اسلام کی کل جماعتی مشاورت میں قریباً تمام جماعتیں ہی شامل تھیں، لگ بھگ تیس مقررین تھے، سب ہی کو موقع دینا تھا اور پھر مولانا کے اختتامی کلمات کے ساتھ کانفرنس کا اختتام بھی کرنا تھا۔ اب وہ یہ سب نہ کرتے تو مولانا کو کانفرنس کی صدارت کے ساتھ ساتھ نماز عشاء کی امامت بھی کرانی پڑ جاتی۔ یہ واقعتاً قومی سطح کی بڑی کانفرنس تھی۔ مولانا کے ساتھ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ تشریف فرما تھے۔ مسلم لیگ نون کے راجہ ظفر الحق، تحریک اسلامی کے علامہ ساجد نقوی بھی دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے ساتھ آزاد جموں کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر بھی تشریف فرما تھے۔ ان کے ساتھ جے یو پی کے جنرل سیکریٹری شاہ اویس نورانی، ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی، عامر خان، پیپلز پارٹی کے نیر بخاری اور تقریباً ساری قومی سیاسی جماعتوں کی قیادت موجود تھی۔ البتہ پھر بھی کچھ کمی تھی اور یہ کیا تھی سیلانی کو سمجھ نہیں آرہا تھا۔ رش بھی اتنا تھا اور اتنی تیز رفتار تقاریر ہو رہی تھیں کہ وہ یہ کمی نکال کر سامنے لارہی نہیں پا رہا تھا۔ ادھر تقاریر کا سلسلہ بھی جاری تھا، زیادہ تر تقاریر جذباتی نوعیت کی ہی تھیں۔ ان میں کوئی نیاپن اور کوئی مشورہ تجویز نہیں تھی۔ سیلانی کانفرنس کی خاص خاص باتیں نوٹ کرنے لگا۔ دو بجے کا وقت ہو چلا تھا، یہ کانفرنسوں سیمیناروں میں طعام اور مفتے کا وقت ہوتا ہے۔ کسی بھی سیمینار یا کانفرنس میں سب سے زیادہ حاضری ان ہی اوقات میں ہوتی ہے۔ اس وقت ڈرائیور بھی گاڑی چھوڑ آتے ہیں اور سیکورٹی گارڈز بھی منڈلاتے ہوئے آپہنچتے ہیں۔ کراچی میں تو ایسا ہی ہوتا تھا اور یہاں اسلام آباد بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی۔ کھانے کی میزوں کی جانب مہمانوں کا گشت بڑھ چکا تھا۔ ہوٹل کے بیروں نے ڈونگوں کے نیچے ٹمٹماتے ہوئے برنر جلائے تو اس گشت میں کچھ اور اضافہ ہوگیا۔ ساتھ ہی گشت کرنے والے کی بے چینی بھی بڑھ گئی۔ وہ یقینا اس قسم کی تقاریب اور لنگر لوٹنے میں ماہر تھے، اسی لئے وہ پہلے ہی مناسب جگہوں پر آموجود ہوئے تھے۔ ان کے چہروں پر وہی تاثرات تھے، جو لنگر کھلتے وقت سے وہاں موجود لوگوں کے ہوتے ہیں۔ سیلانی ایک اچٹتی ہوئی نظر میزوں کے ارد گرد کھڑے بے چین وجودوں پر ڈالی اور مسکراتے ہوئے کانفرنس کی جانب متوجہ ہو گیا۔
اس کی انگلی اپنے سیل فون کے کی پیڈ پر تیزی سے چل رہی تھیں، ایک کے بعد ایک مقرر آکر کشمیر سے اظہار یکجہتی کر رہا تھا، لیکن اب تک کسی نے کوئی خاص بات نہیں کی تھی، سب روایتی انداز میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کر رہے تھے۔ تقاریرکا سلسلہ آگے بڑھا، مشاورت کی نظامت کے فرائض انجام دینے والے مولانا امجد صاحب نے جسٹس عبد المجید ملک صاحب کا نام پکارا اور ساتھ ہی تقریر مختصر کرنے کی بھی استدعا کر دی۔ عبد المجید ملک صاحب کوئی شعلہ بیاں مقرر نہیں تھے، ان کی ساری عمر قانون کی کتابیں کھنگالتے، دلائل سنتے اور دلائل دیتے ہوئے گزری ہے۔ انہوں نے مائیک پر کہنا اور چونکانا شروع کردیا ’’ہم شملہ معاہدہ کو لے کر بیٹھے ہوئے ہیں، ہمیں سیکورٹی کونسل میں پڑی قراردادوں کو ڈسکس کرنا چاہئے، سیکورٹی کونسل کا اپنا ایک طریقہ ہے، اپنا قاعدہ ہے، ان قراردادوں کو سیکورٹی کونسل کے اجلاس کے ایجنڈے پر لانے کے لئے تگ و دو کرنی چاہئے، اس حوالے سے تیاری کرنی چاہئے، سفارت کاری کرنی چاہئے…‘‘ ملک صاحب نے نپی تلی بات کی، جس کے بعد میڈیا کی نمائندگی کرتے ہوئے حامد میر نے آتے ہی جماعۃ الدعوہ کے امیر حمزہ اور ایم کیو ایم کے ڈاکٹر خالد مقبول کے مسکراہٹوں کے تبادلے کو شرکاء کے سامنے رکھ دیا اور ہلکے پھلکے انداز میں مولانا کو ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کی مبارکباد بھی دے ڈالی۔ حامد میر کے نزدیک اتنی ساری سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر عمران خان نئے پاکستان میں اکھٹا نہیں کر سکے، البتہ مولانا فضل الرحمن یہ کام کر گئے۔ حامد میر اپنی بات آگے بڑھا رہے تھے کہ ساتھ بیٹھے بزرگ نے پھر سیلانی کو ہلایا اور کہنے لگے:
’’یہ غلط بیانی کر رہے ہیں۔‘‘
’’کیسی غلط بیانی؟‘‘
’’نئے پاکستان والی۔‘‘
’’اس میں کیا جھوٹ ہے؟‘‘
’’مجھے بتائیں، یہاں کوئی پی ٹی آئی کا بندہ نظر آرہا ہے؟‘‘
’’وہ کیوں نظر آئیں گے؟ یہ مولانا کا پروگرام ہے۔‘‘
’’اچھا، وہ احمد لدھیانوی والا کوئی ہے؟‘‘
’’اپنے پروگراموں میں مخالفین کو کون بلاتا ہے، آپ اپنے گھر اپنے دشمنوں کو بلائیں گے؟‘‘
وہ ناک میں انگلی ڈال کر کہنے لگے ’’مخالفت اور دشمنی میں فرق ہوتا ہے اور فرق رکھا جاتا ہے، مقصد بڑا ہو تو دل بھی بڑا رکھنا چاہئے۔‘‘
ان کی اس حرکت سے سیلانی کا جی متلا گیا۔ اس نے منہ بنا کر کہا ’’میں آپ کا یہ پیغام پروگرام کے بعد منتظمین تک پہنچا سکتا ہوں۔‘‘ سیلانی کی اس پیشکش پر انہوں نے بھی منہ بنا لیا اور ساتھ والے سے بات چیت میں لگ گئے۔ ان کا کہنا یہی تھا کہ جے یو آئی کو چاہئے تھا کہ سب کو بلاتے۔ کشمیر صرف کسی ایک جماعت کا مسئلہ نہیں ہے۔ انہیں چاہئے تھا کہ حکومت کو بھی دعوت دیتے اور اہل سنت والجماعت کو بھی۔ سیلانی انہیں نظر انداز کرکے پروگرام کی طرف متوجہ ہوگیا۔ حامد میر نے بڑی معنی خیز گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فخر زمان کے سیاسی کیریئر میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی کامیابی نہیں ملی۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ انہیں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین کیوں بنایا گیاہے؟ کیا اس لئے کہ ان کی اہلیہ کبھی اسرائیل کے لئے بیک پالیسی کا حصہ رہی ہیں؟؟ پروگرام میں حریت کانفرنس کی جانب سے سید یوسف تبسم نے لگی لپٹی بغیر کہا کہ جس طرح کشمیری پاکستان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں، ویسے ہی پاکستان کو بھی کشمیریوں پر اعتماد کرنا ہوگا۔ آزاد جموں کشمیر کی حکومت کو زیادہ بااختیار بنانا ہوگا۔ انہوں نے افسردہ لہجے میں کہا کہ پہلے ہم پریشان ہو جاتے تھے تو قاضی حسین احمد، مجید نظامی اور جنرل حمید گل کے پاس چلے جاتے تھے۔ آج ہمیں ایسی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی۔ انہوں نے مولانا پر بھی چبھتا ہوا سوال داغ دیا کہ جب آپ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے تو اس وقت اس قسم کی کوئی کانفرنس کیوں نہیں ہوئی؟ پروگرام کے آخر میں آصف زرداری بھی مشاورت میں شریک ہوگئے۔ انہوں نے خطاب میں انکشاف کیا کہ جب بی بی بے نظیر بھٹو نے راجیو گاندھی سے کشمیر کے حوالے سے بات چیت کی تو ان کا کہنا تھا کہ مجھ سے تو کبھی کسی نے رابطہ ہی نہیںکیا۔ زرداری نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر مسئلہ کشمیر پر کام کرنا چاہئے۔ ہم کشمیر کو کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ یہاں ایک بار پھر ساتھ بیٹھے بزرگ نے سیلانی کو ٹھوکا دیا ’’جب سیاسی جماعتیں مل کر بیٹھ نہیں سکتیں تو ساتھ کام کیسے کریں گی؟‘‘
’’سر! میں ذرا نوٹس لے لوں؟‘‘ سیلانی نے ایک بار پھر منہ بنا کرکہا۔
’’لے لو، لے لو۔‘‘
ذرداری صاحب کے بعد مولانا فضل الرحمن صاحب مشاورت سمیٹنے لگے۔ انہوں نے مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا، جس میں کشمیر میں غاصبانہ قبضے کی مذمت اور کشمیریوں کی جدوجہد کی مکمل حمایت کا اعلان تھا۔ انہوں نے بھارتی قیادت کو تنگ نظری چھوڑنے کا مشورہ دیا اور تین جنوری کی نریندرا مودی کی کشمیر آمد پر حریت کانفرنس کی مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال کی حمایت بھی کر ڈالی۔ اعلامئے کے بعد شرکاء کھانے کی طرف لپک پڑے۔ وہی دھینگا مشتی سی ہونے لگی، جو ہمارا خاصہ ہے۔ اس دھینگا مشتی میں سیلانی بابا جی کا پی ٹی آئی اور اہل سنت و الجماعت کو نہ بلانے کا شکوہ لئے ہال میں مچی ہڑبونگ دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔٭
٭٭٭٭٭