رعایتی نہیں، سستا حج چاہیے

حکومت نے حج اخراجات میں اضافے پر حزب اختلاف کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست مدینہ کا مطلب غریبوں کے پیسوں سے مفت حج کرانا نہیں ہے۔ زر تلافی حج جیسی عبادت کے بنیادی فلسفے سے متصادم ہے۔ جس کے پاس رقم ہو، وہ حج کرے گا۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق، وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری اور وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے کیا، جبکہ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے سفارش کی کہ وزیر خزانہ حج پر سبسڈی دے دیں تو اچھا ہے۔ حکومت کو حج کیلئے ریاست مدینہ یاد دلانا اب قطعاً غیر ضروری ہوگیا ہے۔ برسر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کی جانب معمولی پیش رفت دکھانا تو در کنار، عام دنیاوی فلاحی ریاست بنانے کی بھی کوشش نہیں کی، تو ان سے حج پر کوئی رعایت طلب کرنا اپنے وقت اور الفاظ کا ضیاع ہے۔ بعض لوگ حکومت کا دفاع کرتے ہوئے حج پر زر تلافی کا جو مطالبہ کر رہے ہیں، وہ بھی دراصل معاملے کو گڈمڈ کرنے کے مترادف ہے۔ اصل مطالبہ سبسڈی یا زر تلافی کا نہیں ہونا چاہیے۔ حج بلاشبہ اچھی صحت اور مالی استطاعت سے مشروط دینی فریضہ ہے۔ پاکستان میں لٹیروں کی حکومتوں نے عام شہری کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ نوجوانی یا ادھیڑ عمری کے زمانے میں حج جیسی عظیم سعادت سے بہرہ مند ہو سکے۔ جو لوگ تھوڑا تھوڑا پیسا بچا کر حج کے لئے جمع کرتے ہیں، ان کی مایوسی میں ہر سال اس وقت اضافہ ہو جاتا ہے، جب روزمرہ بنیاد پر ہونے والی مہنگائی کے باعث وہ رقم پھر کم پڑ جاتی ہے۔ زر تلافی اور سبسڈی پر بقراطیت جھاڑنے والے وزیروں سے عازمین حج کو کوئی رعایت مطلوب نہیں، بلکہ وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے اپنے ابتدائی چھ ماہ میں مہنگائی کا جو طوفان کھڑا کر دیا ہے، اس کی وجہ سے مکہ اور مدینہ جانے اور حج کی سعادت حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والے غریب، بوڑھے اور کمزور لوگوں کی آرزو پوری ہوئی نظر نہیں آتی۔ بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے ممالک اپنے عازمین حج کیلئے ہوائی جہاز کے ٹکٹ میں رعایت اور رہائشی سہولتوں کا اعلان کرتے ہیں۔ ہمارے سفارت خانے حاجیوں کے لئے سعودی عرب سے کوئی رعایت طلب کرنے کے بجائے محض اپنے مفادات کی دوڑ میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے سینیٹ کے اجلاس میں حج اخراجات کے بے پناہ اضافے پر توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف نے پاکستان کو مدینے جیسی ریاست بنانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اس نے تو حج اخراجات میں بھی ساٹھ فیصد سے زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔ اب دولاکھ اسّی ہزار روپے کے بجائے ہر عازم حج کو چار لاکھ چھپن ہزار روپے خرچ کرنے ہوں گے۔ میں حکومت کے اس فیصلے کو حج پر ڈرون حملہ سمجھتا ہوں۔ سینما گھروں کی بحالی پر اربوں روپے خرچ کرنے والی حکومت عازمین حج پر زر تلافی کا کوئی احسان نہ کرے، لیکن چھ ماہ کے دوران اس نے روپے کی جو بے قدری کی ہے اور ہر شے کی قیمت میں جو اضافہ کیا ہے، وہ واپس لے تاکہ غریبوں اور متوسط طبقے کے لوگوں کی سعادتِ حج کی آرزو پوری ہو جائے۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کا یہ بیان اہل وطن، بالخصوص عازمین حج سے کسی طور ہضم نہیں ہو رہا ہے کہ ہم ریاست مدینہ کے مؤقف پر اب بھی قائم ہیں۔ سابق حکومت نے عام انتخابات کی وجہ سے حج اخراجات میں اضافہ نہیں کیا تھا، ہمیں بھی سعودی مملکت کی جانب سے اخراجات بڑھانے کے باعث حج کر مہنگا کرنا پڑا۔ اس سلسلے میں زیادہ کچھ کہنے کے بجائے صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت آئندہ بھی اپنی اٹھان اور فطری افتاد کے تحت نیکی کے راستے بند اور بدی کی راہیں کھولتی رہے گی۔ عوام نے ابتداء ہی میں اسے روکنے ٹوکنے میں غفلت برتی تو یہاں مغربی تہذیب کا وہ تباہ کن سیلاب آئے گا کہ اسے روکنا مشکل ہوگا۔
امریکی بھینسے کو سرخ کپڑا دکھانا
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ امریکا سے امن معاہدہ اصولی فریم ورک تک پہنچ گیا ہے۔ اگر امریکی اس معاہدے پر کار بند رہیں تو امید ہے کہ امریکا افغانستان پر اپنا قبضہ ختم کر دے گا۔ ہمیں بظاہر یہی محسوس ہو رہا ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ افغانستان سے اپنے فوجی نکالنے میں سنجیدہ ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ غیر ملکی فوجیوں کا انخلا ہمارا پہلا مقصد ہے، اس کے بعد ہم ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم یہ نظام ملک کے مختلف سیاسی و مذہبی فریقوں سے مذاکرات کے ذریعے قائم کریں گے۔ موجودہ حکومت کی جگہ شوریٰ کا نظام عمل میں لایا جائے گا، جس میں علمائ، عوامی نمائندے اور دانشور شامل ہوں گے۔ خواتین کو شریعت کے مطابق تعلیم اور ملازمت کی اجازت ہوگی اور انہیں محفوظ ماحول فراہم کیا جائے گا۔ طالبان کی جانب سے اسلامی نظام کے قیام کا پیشگی اعلان امریکی بھینسے کو سرخ کپڑا دکھانے کے مترادف ہے۔ افغانستان میں طالبان کا ساڑھے پانچ سالہ دور، شدت پسندی کے بعض تاثرات سے قطع نظر عام طور پر بہت امن و سکون کا زمانہ تھا، جس کی تعریف بیرونی خواتین سیاحوں نے بھی کی تھی کہ اس معاشرے میں عورت کو جو تحفظ حاصل ہے، وہ دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آتا۔ افغانستان میں سوویت شکست کے بعد پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق افغانستان کے ساتھ مل کر ایک وسیع تر کنفیڈریشن بنانا چاہتے تھے، لیکن امریکا نے انہیں طیارے کے ایک حادثے میں شہید کرا دیا۔ اس طرح افغانستان سے طالبان کی حکومت ختم کرنے کیلئے نائن الیون برپا کیا گیا۔ افغانستان پر سوویت اور امریکی حملوں کے بعد طالبان نے بھی یقیناً بہت کچھ سیکھا ہوگا۔ اس بنا پر توقع کی جاتی ہے کہ آئندہ وہ نہایت محتاط انداز میں امور مملکت چلائیں گے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment