نیاز فتحپوری نے نقاد میں ناہید کے فرضی نام سے بھی لکھا

ڈاکٹر فرمان فتحپوری
دلگیر کے تین مئی کو لکھے خط میں ناہید کے جس مضمون اور خط کا ذکر ہے، وہ بھی فرضی نام سے لکھے گئے ہیں۔ یعنی ناہید نام کی کسی ادبیہ کا وجود نہ تھا، بلکہ نیاز فتح پوری ہی نے ناہید کے فرضی نام سے ایک مضمون بہ عنوان ’’میرا افسانہ حیات‘‘ اور مدیر کے نام ایک خط نقاد میں اشاعت کیلئے بھیجا تھا۔ یہ دونوں چیزیں مئی 17 کے نقاد میں شائع ہوئی ہیں۔ ناہید کا خط دیکھتے چلئے۔
ایک خط
کہیں سے
18 اپریل 17ء
جناب ایڈیٹر صاحب، آداب عرض!
میں نقاد کو الزام دوں یا قمر زمانی کے مضمون کو کہ میں بے اختیار ہوگئی اور یہ اپنا فسانہ آپ کے پاس بھیج رہی ہوں۔ آپ یقین کریں کہ جو کچھ لکھ رہی ہوں، وہ میری سچی سرگزشت ہے اور نہیں کہہ سکتی کہ کس چیز نے مجھے اس کے اظہار پر مجبور کر دیا۔ میرا دعویٰ یہ نہیں کہ اس مضمون میں آپ کچھ ادبی حسن بھی پائیں گے اور نہ اس لحاظ سے اس کی اشاعت چاہتی ہوں۔ بلکہ خیال یہ ہے کہ شاید یہ میرا افسانۂ درد کسی ایک دل کو متاثر کر سکے۔ وارفتگی نے اس قابل نہیں چھوڑا کہ مضمون تمام کر سکتی۔ پہلا جزو پیش کرتی ہوں۔ دوسرا اس کی اشاعت کے بعد۔ فی الحال میں مناسب نہیں سمجھتی کہ یہ مضمون واقعی میرے نام سے شائع ہو۔ شاید پھر کسی وقت ممکن ہو۔ میرا فرضی نام ’’ناہید‘‘ ہوگا۔
قمر زمانی صاحبہ کون ہیں اور میں ان سے کسی وقت خط و کتابت کر سکوں گی۔ یہ اطمینان رکھئے کہ نقاد کو میں دیکھ لیتی ہوں۔ اس کا جواب میں آپ سے ضرور چاہتی ہوں۔ مگر نقاد ہی پیغامبر بنے تو خوب ہو اور وہی ہماری خط و کتابت کا ذریعہ سمجھا جائے۔ اگر آپ چاہیں تو اس خط کو بھی شائع کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی اپنا جواب بھی۔ مگر میرا اصلی نام نہ ہو۔
(ناہید)
اس خط کا جواب نقاد کی جائنٹ ایڈیٹر قمر زمانی نے اس طور پر دیا۔
آپ کے الزام کی نقاد کو قدر ہے کہ اس سے زیادہ بہتر طریقہ نقاد کی عزت افزائی کا اور کیا ہو سکتا ہے۔ یہ آپ کا انکسار ہے، جو آپ اپنے مضمون کو ادبی حسن سے معرا پاتی ہیں۔ آپ نے ماشاء اللہ خوب لکھا ہے اور مجھے حیرت ہے کہ آپ کیونکر لکھ سکیں۔ بہتر ہے آپ کا نام شائع نہ ہوگا۔ لیکن کم از کم آپ مجھے تو اپنے صحیح پتہ سے مطلع فرمائیے کہ میں خود آپ سے خط و کتابت کروں۔ میرا پتہ ذریعہ نقاد آگرہ ہے۔
’’قمر‘‘
اس پرچے یعنی مئی 17ء میں قمر زمانی کا انشائیہ ’’اے کلی‘‘ اور ان کی غزل جس کا مطلع ہے…
نزع میں بھی مری جانب سے خیال اچھا ہے
دم نکلتا ہے وہ کہتے ہیں کہ حال اچھا ہے
بھی شائع ہوئے ہیں۔
دلگیر کا خط مرقومہ 3 مئی لاجواب رہا۔ قمر زمانی نے دانستہ چپ سادھ رکھی تھی۔ دلگیر کے لئے یہ خاموشی جان لیوا تھی۔ اس لئے انہوں نے ایک ہفتہ کے انتظار کے بعد دوسرا خط اس طور پر لکھا:
11 مئی 17ء
مجھ سے خفا ہوجانے والی
کیا اب یہ خفگی دور نہ ہوگی:
بے دل ہو تو آؤ مجھ سے دل لو
روٹھی ہو گلے لگاؤں مل لو
متواتر خطوں کا جواب نہیں، نہ سہی۔ خیریت تو لکھی ہوتی، صبر آتا۔ 9 مئی کو گیتاں جلی بذریعہ رجسٹری روانہ کی ہے۔ جی چاہے تو رسید دیجئے۔ ’’شاعر کا انجام‘‘ ابھی الہ آباد سے نہیں آیا۔ جس وقت آئے گا، اسی وقت روانہ کردوں گا۔ دیوان حسرت بھی اس کے ساتھ ہوگا۔ علی گڑھ سے خاص نسخہ آپ کے لئے منگایا ہے۔
تیسرے نمبر کی کتابت ’’حسن‘‘ کی وجہ سے رکی ہوئی ہے۔ آپ بھیجیں تو شروع ہو۔ میں ’’حسن‘‘ کو اس نمبر کا عنوان اولین بنانا چاہتا ہوں۔ جس طرح ممکن ہو فوراً ارسال فرمائیے اور کوئی غزل بھی۔
اس طرف لکھئے:
کلی کی تقریب لکھی ہے۔ جب مجھے ہی پسند نہیں تو آپ کو کیا پسند آئے گی۔
میں کیسا ہوں۔ نہ پوچھئے۔ ہائے…
مٹنے والے ولولوں کی کارفرمائی نہ پوچھ
یاس اور امید کی ہنگامہ آرائی نہ پوچھ
ہجر میں کیا کیا ہوں وقف ناشکیبائی نہ پوچھ
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
اگر اس خط کا جواب اور ’’حسن‘‘ نہ آیا تو پھر تکلیف نہ دوں گا۔
اپنی جان سے خفا
’’دلگیر‘‘
دلگیر کا یہ خط ابھی راستے ہی میں تھا کہ ادھر سے قمر زمانی بیگم کا خط آ پہنچا۔ اس خط میں قمر زمانی نے دلگیر کے کئی خطوں کا جواب بڑی خوبصورتی سے چکا دیا۔ ان کا خط دیکھئے:
حافظ عزیز الدین نقشبندی
ذریعہ پوسٹ ماسٹر دہلی
پیارے دلگیر! خدا کی قسم اور آپ کے سر کی قسم کہ میں اس زمانے میں سخت پریشان رہی۔ اپنی بیماری کی خبر پہلے دے چکی ہوں اور اب یہ سنئے کہ میں بریلی سے ایک خاص ضرورت سے مجبور ہوکر بنارس گئی اور وہاں سے لکھنئو ہوتی ہوئی دہلی آئی ہوں۔ ہاں وہی دہلی، جہاں سب سے پہلے یہ آزار مجھے لگا۔ خدا آپ کو خوش رکھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کے کون کون سے خطوط مجھے ملے اور کون کون نہیں۔ بہرحال معافی چاہتی ہوں اور آئندہ کے لئے وعدہ کرتی ہوں کہ بہت جلد جواب دیتی رہوں گی۔ میرا پتہ نوٹ کرلیجئے۔ بڑی مشکل سے یہ تدبیر نکالی ہے۔ لفافہ کے اوپر میرا نام نہ ہو، صرف حافظ عزیز الدین کا ہونا چاہئے اور اس کے اندر جو دوسرا لفافہ ہو، اس پر صرف ’ق ز‘ ہونا چاہئے۔ اس کے بعد میں اور زیادہ محفوظ طریقہ بتاؤں گی۔ میں اس وقت عجلت میں ہوں۔ اس لئے پوری کیفیت عرض نہیں کرسکتی۔ ’’حسن‘‘ اب پورا کروں گی۔ نقاد میں کیوں دیر ہوئی۔ آپ خفا تو نہیں ہو گئے۔ دیکھئے، اس کا ضرور لحاظ رہے کہ بغیر میرے بلائے ہوئے آپ کبھی مجھ سے ملنے کی کوشش نہ فرمائیے گا۔ آپ کو کیا خبر کہ میں کس طرح آپ سے یہ خط و کتابت بھی کرلیتی ہوں۔ آپ مطمئن رہیں۔ جون آنے دیجئے پھر ایک جگہ بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ میری کوشش ہے اور اس میں بڑی حد تک کامیاب ہو چکی ہوں۔ چند دن کی دیر اور ہے۔
نذر سجاد کا جواب میں نے دے دیا۔
’’قمر زمانی‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment