آج وہ پھر بری طرح بھنائی ہوئی تھی۔ دروازہ کھلتے ہی شروع ہوگئی: ’’کمبخت چاہتے ہیں کہ ہم گھر میں پڑے فاقے کرتے رہیں۔ بھلا بتاؤ تو سہی تین ہزار روپے مہینہ کمائیں، دو ہزار کرائے میں خرچ کر دیں۔ ہمارا دماغ خراب ہوا ہے کہ ایک ہزار روپے کیلئے دس گھنٹے غارت کریں، گھر میں پڑے فاقے نہ کریں۔‘‘
میں سمجھ گئی کہ اس کا غصہ بسوں پر اور ان کے بڑھے ہوئے کرایوں پر ہے۔ میں نے اس کو ٹھنڈا کرنا چاہا ’’چھوڑو ماسی! کیوں اپنی جان جلاتی ہو، یہ تو روز کا جھگڑا ہے۔‘‘ ’’ارے واہ یہ خوب کہا تم نے باجی۔ ہم اپنی جان نہ جلائیں تو کیا تم گھر میں عیش کرنے والی جلاؤ گی، جن کو پتہ ہی نہیں کہ بسوں کے دھکے کیا ہوتے ہیں۔‘‘ اس نے تنک کر کہا۔
میں اس کے لہجے پر حیران رہ گئی، وہ تو بڑی نرم لہجے میں بات کرنے والی منکسر المزاج تھی۔ اس کے مزاج کی نرمی کی وجہ سے میری اس کے نبھ رہی تھی، ورنہ میں تو گھر میں ماسی رکھنے کے خلاف ہوں۔ گھر میں کام ہی کتنا ہوتا ہے، اگر شیڈول بنا کر وقت پر کیا جائے تو بآسانی کام ہو جاتا ہے۔ میں نے بھی زندگی میں کبھی کسی ماسی کا سہارا نہیں لیا، مگر گزشتہ سال میرے ہاتھ کے فریکچر اور پاؤں کی چوٹ نے ایسا ناکارہ کیا کہ برتن مانجنے اور صفائی کرنے سے معذور ہوگئی۔ اس وقت میری ساتھی ٹیچرز نے مجھے مشورہ دیا کہ اب بہت ہو چکا، اپنے آرام کا بھی کچھ خیال کرلو۔ ہمیشہ دوسروں کی خاطر ہی محنت کرتی رہی ہو۔ میں نے ان کے مشورے پر غور کیا تو واقعی احساس ہوا کہ میں تو ہمیشہ دوسروں کی خاطر زندگی کو سختی اور نرمی کے جھیلتی رہی ہوں۔ ابا جان کے انتقال کے وقت بہن بھائی چھوٹے تھے۔ اس لئے ان کو پڑھانے، لکھانے اور زندگی کو آسان بنانے کیلئے اپنی ادھوری تعلیم کے ساتھ ابا جان کے دفتر میں کلرکی کی۔ تنخواہ معمولی سہی، مگر گھر کی دال روٹی چلتی رہی۔ چھوٹی بہنوں کی شادیاں کر کے بھائیوں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے باہر بھیج کر جب اپنے اوپر نظر ڈالی تو سر میں چاندی اتر چکی تھی۔ آدھا سر سفید ہو گیا تھا، امی جان کے انتقال نے تو اور بھی تنہا کر دیا۔ ابا جان کے دفتر میں کام کرتے کرتے تعلیم مکمل کرکے ایک کالج میں نوکری مل چکی تھی۔ ٹیچرز میں سے زیادہ تر ایسی تھیں، جو میرے جیسے حالات کا سامنا کرتے کرتے تھک چکی تھیں۔
میں چھٹی کے دن صفائی کا تفصیلی کام کرتی تھی۔ ایک اتوار کو ایسے ہی کام نے ہاتھ کے تین ٹکڑے کردیئے۔ کمپاونڈ فریکچر کی وجہ سے تین ماہ پلستر باندھے پھرتی رہی۔ دو چھوٹی بہنیں اپنا اپنا گھر چھوڑ کر آئیں۔ میرے لئے کھانا تیار کر کے فریج میں رکھ جاتیں، دونوں بھائی جب باہر سے آئے تو میری بے بسی اور تکلیف پر تڑپ اٹھے۔ انہوں نے میرے لئے کل وقتی ملازمہ کا انتظام کردیا۔ اسی دوران میں ایک روز کالج جاتے ہوئے سیڑھی سے پھسل کر نیچے آگری اور کولھے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ملازمہ تو گھر میں موجود تھی، مگر وہ صرف تماشا دیکھتی تھی۔ اس کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ وہ کم سے کم محنت کرے اور اس کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں مل جائیں۔ اکثر و بیشتر اپنے گھریلو حالات کو اتنے درد ناک اور نمناک لہجے میں سناتی کہ میں نمناک ہوجاتی۔ دو پٹے کے آنچل کو مروڑ مروڑ کر آنکھیں رگڑتی رہتی، جبکہ میں اس کے ہاتھ میں پر سو دو سو روپے نہ رکھ دیتی، اس کی داستان غم جاری رہتی۔
چھ ماہ میں جب میں مکمل طور پر چلنے پھرنے اور کام کاج کرنے لگی تو میں نے اسے پہلی فرصت میں فارغ کردیا۔ کیونکہ میں جانتی تھی کہ یہ مجھے اسی طرح دردناک حالات سے بلیک میل کرتی رہے گی، اس کو اندازہ ہو گیا تھا کہ میں شاید کچھ زیادہ ہی رقیق القلب واقع ہوتی ہوں۔
اپنے آپ کو کسی بڑے نقصان سے بچانے کیلئے میں نے اس کو تنخواہ کے ساتھ کئی نئے جوڑے، نئی سینڈل، گھریلو سامان کے ساتھ رخصت کردیا۔ وہ مجھے کسی طرح چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھی اور بار بار میرے ہاتھ اور پاؤں کی تکلیف کے بڑھ جانے کا احساس دلارہی تھی، مگر میں اب مزید اس کو برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ اس کی وجہ میری حد سے زیادہ مروت اور رحم دلی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ مجھے چلنے میں تکلیف ہوتی ہے، میں پلستر کھلنے کے بعد بھی کولھے میں بال ڈالے جانے کی وجہ سے تیزی سے نہیں اٹھ سکتی تھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭