بتاتے ہیں…

نکاح خواں نے دولہا اور دلہن اور ان کے گھرانوں کے لئے دعائے خیر کرائی، مبارک سلامت کے شور میں دولہا والوں نے مہمانوں کی خدمت میں ’’بد‘‘ کی سوغات پر مشتمل تھیلیاں پیش کرنا شروع کیں۔ ہر پیکٹ میں چھوہارے، کشمش، پستہ، کاجو، بتاشے اور سونف سپاری نہایت نفاست سے پیک کی گئی تھی۔ ایک صاحب نے پیکٹ کھولا اور ہر آئٹم کو کام و دہن کی زینت بناتے گئے… ان کے برابر میں ایک اور مہمان بھی یہی عمل شروع کر رہے تھے۔ اول الذکر مہمان کے لئے سوغات کی تھیلی میں ہر شے جانی پہچانی تھی، البتہ بتاشے انہوں نے پہلی مرتبہ دیکھے تھے۔ انہوں نے اپنے برابر بیٹھے ہوئے صاحب سے پوچھا: ’’بھائی صاحب! یہ کیا ہے؟‘‘ شومئی قسمت، وہ صاحب توتلے تھے۔ بولے: ’’بتاتے ہیں…!!‘‘ مہمان خاموش ہوگئے۔ چند ساعتوں کے بعد انہوں نے پھر پوچھا: ’’بھائی صاحب! یہ کیا ہے؟‘‘ دوسرے مہمان نے حیرت سے ان کو دیکھا اور جواب دیا: ’’بتاتے ہیں!!‘‘ مہمان چپ ہوگئے۔ کچھ دیر بعد انہوں نے پھر پوچھا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ توتلے مہمان نے چڑ کر کہا: ’’بتاتے ہیں بھئی، بتاتے ہیں‘‘۔ وہ صاحب زچ ہو کر بولے: ’’اے بھئی بتاتے ہیں، بتاتے ہیں، کہے جا رہے ہیں آپ بتاتے کیوں نہیں ہیں؟‘‘ دونوں مہمانوں کی تکرار سن کر ایک تیسرے فریق نے اشارہ کیا کہ یہ صاحب توتلے ہیں، پھر بتایا کہ اس شے کو بتاشا کہا جاتا ہے۔
یہ واقعہ ہمیں اس لئے یاد آگیا کہ اس وقت ملک میں ’’بتاتے ہیں الیون‘‘ صبح و شام سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ٹی ٹوئنٹی، ون ڈے اور ٹیسٹ میچ کھیل رہی ہے۔ اینکر پرسن سے لے کر ہوم میڈوڈیو کے تمام چیمپئنز نے قوم کو ’’بتاتے ہیں، بتاتے ہیں‘‘ کے کھیل میں الجھا رکھا ہے۔ شیخ رشید، فواد چوہدری، فیاض الحسن چوہان، مراد سعید، شہریار آفریدی، ایڈووکیٹ علی محمد خان، رانا ثناء اللہ، فیصل واوڈا، نفیسہ شاہ، مرتضیٰ وہاب، وسیم اختر، علیم خان، خواجہ آصف، حلیم عادل، خرم شیر زمان اس گروپ کے سرخیل ہیں۔ دانیال عزیز اور طلال چوہدری اس وقت عابد شیر علی کے ساتھ نیٹ پریکٹس کر رہے ہیں۔ حنیف عباسی اور خواجہ سعد رفیق فنی وجوہات کی بنا پر پلیئنگ الیون سے باہر ہیں…
’’بتاتے ہیں الیون‘‘ کے ہر کھلاڑی کافرض ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ حقائق قوم کے سامنے پیش کرتا رہے۔ بتاشے بانٹا رہے اور لاف گزاف کا طبل بجاتا رہے۔ اس طرح وہ سیاسی اسٹیڈیم میں موجود رہے گا… پورے ملک میں بتاتے ہیں کی گردان جاری ہے۔ تمام شعبہ جات میں انسانوں کا عجائب خانہ ہے تو رضا دلچسپ مقام… جس کو دیکھو جس سے بولو سمجھے کم سمجھائے بہت کا طوفان اٹھا ہوا ہے۔ اس طوفان نے جو کیفیت اور صورتحال پیدا کی ہے، اسے دیکھ کرسید سجاد حیدر یلدرم مرحوم کی تحریر ’’سیل زمانہ‘‘ کو ذرا سی تبدیلی کے ساتھ یوں بھی پڑھا جا سکتا ہے کہ گرائے جا گرائے جا عمارتیں گرائے جا، ڈھائے جا ڈھائے بلڈنگیں ڈھائے جا… لگائے جا لگائے جا بجا بجری سیمنٹ کے ڈھیر لگائے جا… وعدوں اور لاروں کی ڈگڈگی بجائے جا… صبح و شام خیالی پلائو کی دیگیں چڑھائے جا… قوم کے ہجوم کو سبز باغ دکھائے جا… رات دن عوام کو سنہرے سپنے دکھائے جا…
’’بتاتے ہیں الیون‘‘ کے ہر کھلاڑی کی جبلت میںہے کہ وہ زبان کا راتب کھاتا رہے اور ہر وقت دوسروں کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہے۔ سن انیس سو اسّی کے عشرے میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں ایک وکٹ کیپر بیٹسمین ہوا کرتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اردو کمنٹری بھی کرتے رہے۔ اب وہ دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ انہیں ’’بتاتے ہیں‘‘ کے خواص کی عملی تصویر کہا جاتا تھا۔ ان کے دو یادگار واقعات پیش کرتا ہوں۔ اپنے پرفارمنس کے عروج کے زمانے میں وہ کالر کھڑے رکھتے تھے اور اپنی شرٹ کے اوپر کے دو بٹن بھی کھلے رکھتے۔ سونے کی چین گلے میں لٹکانے میں وہ عجیب لذت محسوس کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انہیں اس وقت کے چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ ایئر مارشل نورخان مرحومؒ نے اپنے کمرے میں بلوایا اور ہمارے قومی ہیرو اپنے مخصوص اسٹائل میں ان کے سامنے پیش ہوئے۔ مرحوم نورخان نے انہیں اشارہ کیا کہ گریبان کے بٹن بند کرلیں۔ انہوں نے صاف منع کردیا۔ اور کہا: ’’سر، یہ میرا اسٹائل ہے، میں اسے تبدیل نہیں کرسکتا۔‘‘ نورخان کے ماتھے پر بل پڑ گئے اور ان سے کوئی بات کیے بغیر ہی انگریزی میں کہا کہ ’’آپ باہر جا سکتے ہیں۔‘‘ یہ کھلاڑی نجی محفلوں میں اس واقعے کو سناتے اور خوب ہنستے۔ چند ماہ بعد وہ ٹیسٹ ٹیم سے باہر تھے اور لوگوں کو بتاتے تھے کہ بورڈ کے چیئرمین نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے۔
ٹیسٹ کرکٹ میں انٹری سے پہلے یہ کھلاڑی کورنگی فرینڈز کرکٹ کلب کراچی کے میدان میں ایک دوستانہ میچ کھیل رہے تھے۔ میچ انتہائی بورنگ تھا۔ نہ تو رنز بن رہے تھے اور نہ ہی کوئی کھلاڑی آئوٹ ہو رہا تھا۔ باہر سے باہر بیٹھے تماشائی بھی کھیل کی رفتار سے کوفت میں مبتلا تھے۔ اچانک وکٹ کیپر نے فرسٹ سلپ میں کھڑے ہوئے فیلڈر کو ایک زوردار لات رسید کردی۔ فیلڈر میدان پر گر گیا۔ وکٹ کیپر تیزی سے گرنے والے کھلاڑی پر لپکے۔ بالر، بلے باز، فیلڈرز، ایمپائر اور تماشائی جائے وقوعہ پر جمع ہوگئے۔ ہر طرف شوروغل مچ گیا۔ کیا ہوا بھئی کیا ہوا؟ وکٹ کیپر نے گرنے والے کھلاڑی کو سہارا دے کر اٹھایا اور اس کے کپڑے جھاڑے۔ سب نے پوچھا: ’’تم نے اسے لات کیوں ماری؟‘‘ اس نے جواب دیا کہ ’’یار میچ بہت سست اور تھکا ہوا تھا، میں نے سوچا کہ کوئی ہل جل کی جائے، سب لوگوں کو تفریح دی جائے، چلو چلو میچ دوبارہ شروع کرو۔‘‘ ہر شخص نے وکٹ کیپر پر حسب توفیق چار حرف بھیجے اور کھیل دوبارہ شروع ہوا۔
آپ اپنے اردگرد مشاہدے کی نظر دوڑایئے، آپ دیکھیں گے ’’بتاتے ہیں الیون‘‘ کے کھلاڑی ہر لمحہ ہیجان اور ٹینشن سے بھری لاتیں رسید کر رہے ہیں۔ کام کی کوئی بات نہیں ہو رہی۔ کوئی رزلٹ نہیں نکل رہا۔ فلم ’’انسان اور گدھا‘‘ کا سانگ ہر طرف بج رہا ہے کہ ’’میں تے ماراں گا دولتی سنسار نوں‘‘ بتاتے ہیں الیون میں شامل ہونا بہت آسان ہے۔ بے تکی باتیں، لمبی لمبی چھوڑیاں، اونچی آواز میں بڑھکیں اور خیالی منصوبے کے بلبلے بناتے جائیں، آپ کی ترقی ہوتی جائے گی۔ کرسی اونچی ہوگی اور بیٹنگ آرڈر میں آپ کا نمبر اوپر ہو جائے گا۔
میں بھی ایک پلان پیش کرکے ’’بتاتے ہیں الیون‘‘ میں شامل ہو رہا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ میرا پیارا شہر کراچی سن انیس سو ستر اور اسّی کی دہائی والا کھلا، کشادہ، وسیع، روشن، صاف ستھرا اور پرامن شہر بن جائے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس کے لئے انسانی آبادی بھی اتنی ہی کرنی پڑے گی جتنی تیس چالیس برس قبل تھی۔ اس کے لئے میں ’’بتاتے ہیں الیون‘‘ کے ہیڈ کوچ سے رجوع کروں گا، کیونکہ وہ اعلیٰ درجے کے لال بجھکڑ ہیں اور ان کے پاس ہر پرابلم کا نادر حل موجود ہوا کرتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment