افغان باقی کہسار باقی

ذرا یاد کریں اُس وقت کو، جب پوری دنیا افغان طالبان کا حقہ پانی بند کرنے کے لیے متحد ہو رہی تھی۔ 8 دسمبر 1998ء کو اقوام متحدہ نے طالبان حکومت کے خلاف ایک قرارداد منظور کی، جس کے تحت افغانستان پر سخت پابندیاں عائد کرتے ہوئے طالبان کے اثاثوں کو منجمد کرنے، انہیں کسی بھی قسم کی بیرونی امداد کی فراہمی اور ان کے ساتھ بین الاقوامی تجارت پر پابندی کا اعلان کیا گیا۔ اس موقع پر پاکستان وہ واحد ملک تھا، جس نے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو مبنی بر تعصب قرار دیتے ہوئے مذکورہ پابندیوں کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا۔ 15 اکتوبر 1999ء کو اقوام متحدہ نے طالبان حکومت کے خلاف ایک اور قرارداد منظور کی، جس کے تحت اُن کے ہوائی سفر اور اُن کی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کی تجارت کو ممنوع قرار دیتے ہوئے عالمی برادری کو افغانستان سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی ہدایت کی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ یہ اقدامات اُس افغان حکومت کے خلاف کر رہی تھی، جس نے اپنے قیام کے بعد بڑے مختصر وقت میں افغانستان کو اسلحے سے پاک کرتے ہوئے وہاں مثالی امن قائم کیا۔ علاوہ ازیں پوست کی کاشت پر پابندی عائد کی اور اپنے ملک کو کرائم فری اسٹیٹ بنانے کی طرف قدم بڑھائے اور یہی بات خرمنِ باطل پر برق بن کر گری، کیونکہ مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کے مابین تصادم جاری ہے اور مغربی تہذیب کی علمبردار استعماری قوتیں یہ بات کبھی بھی برداشت نہیں کر سکتی تھیں کہ اسلامی تہذیب کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے آئے۔ چنانچہ اس کے بعد نائن الیون کے نام پر جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکہ نے صرف یہ سوچ کر افغانستان پر یلغار کی کہ مٹھی بھر طالبان کو ملیامیٹ کرنے کے لیے بی باون طیارے سے گرائے جانے والے چند ڈیزی کٹر بم ہی کافی ہوں گے، جبکہ سادہ لوح افغان عوام کو وہ ڈالروں کی چمک، تعمیر ِ نو کے کھوکھلے وعدوں اور چند حامد کرزئیوں اور اشرف غنیوں کے ذریعے رام کرلیں گے، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد۔ امریکی سیانے یہ بھول گئے کہ جو معاشرہ ’’پختون ولی‘‘ جیسے شاندار ضابطہ وقار کو اپنے دل و جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہو۔ جہاں بندوق کو مرد کا زیور تصور کیا جائے۔ جہاں کے مشکلات سے بھرپور موسمی حالات افغان نوجوانوں میں نوعمری میں ہی دلیری، جفاکشی، مضبوط جسمانی ساخت، مصائب و تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے اور دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے جیسے اوصاف پیدا کردیتے ہیں، جو انہیں چلتا پھرتا گوریلا جنگو بنا دیتے ہیں۔ ایسے میں اگر مزاحمتی قوتوں کو عوام کی بھر پور حمایت بھی حاصل ہو جائے تو پھر قابض غیر ملکی افواج کے خلاف مزاحمت کا نشہ دو آتشہ نہیں، بلکہ سہ آتشہ ہو جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چند گندے انڈوں کو چھوڑ کر باقی افغان معاشرے نے اپنی تہذیبی و سماجی اقدار پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ افغانستان کے تاریخی شہر ہرات کے متعلق ہمارے روش خیال حلقے یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہرات شروع سے ہی ایک تاریخی روشن خیال شہر رہا ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سوویت یونین کے خلاف سب سے پہلے مزاحمت یہیں سے شروع ہوئی تھی۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر ریاض احمد شیخ اپنی کتاب ’’افغانستان: گریٹ گیم سے نیو ورلڈ آرڈر تک‘‘ میں لکھتے ہیں کہ سوویت یونین کی مدد سے قائم افغان کمیونسٹ حکومت کے خلاف پہلا مزاحمتی عمل ہرات میں دیکھنے کو ملا، کیونکہ افغان معاشرہ دیہی علاقوں میں متعارف کرائے گئے حکومتی اصلاحاتی پروگرام، خواتین کے ملازمتوں میں حصہ لینے، بچیوں کے لیے لازمی تعلیم، مخلوط نظام تعلیم، ریاست سے مذہب کو الگ کرنے اور افغان پرچم کا رنگ سبز سے سرخ میں تبدیل کرنے جیسے اقدامات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔
اگرچالیس برس پہلے ’’روشن خیال‘‘ ہرات کا یہ حال تھا تو ’’انتہا پسندی‘‘ کا گڑھ خیال کیے جانے والے قندھار، زابل، اروزگان، پکتیا، ننگرہار، ہلمند اور قندوز جیسے صوبوں کے عوام غیر ملکی قابض افواج، ان کے دیسی ٹائوٹوں اور نام نہاد اصلاحاتی پروگراموں سے کس قدر نفرت کرتے ہوں گے، اس کو سمجھنے کے لیے افلاطون کے دماغ کی ہر گز ضرورت نہیں۔ آج اگر افغانستان کے افق پر افغان طالبان فاتح بن کر ابھر رہے ہیں، تو بلاشبہ یہ لاکھوں افغانوں کی بے پناہ قربانیوں کا ثمر ہے، کیونکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کوئی بھی مزاحمتی تحریک عوامی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہوتی۔
سینئر صحافی برادرم مقدر اقبال نے اپنی کتاب ’’طالبان کی واپسی‘‘ میں افغانستان کی کیا خوب صورت تعریف کی ہے: ’’افغانستان سنگلاخ پہاڑوں، گنگناتے چشموں، سونا اگلتے کھیتوں، لہلہاتے درختوں اور قیمتی معدنیات کی کانوں سے مالامال ملک ہے۔ یہ نورِ ایمانی سے چمکتی آنکھوں، سجدوں کے لیے بے تاب پیشانیوں، قوت و طاقت سے بھرپور بازوئوں اور شہادتوں کے لیے بے قرار گردنوں کی قربان گاہ ہے۔ لاکھوں اپاہجوں، یتیموں، بیوائوں، غازیوں اور شہیدوں کے وارثوں کا نشیمن ہے۔ بھوک سے بلکتے بچوں، اعضاء بریدہ زخمیوں، مفلوک الحال انسانوں، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، تباہ حال عمارتوں، داغ داغ دیہات اور زخم زخم شہروں کا وطن ہے۔ یہود و ہنود کی سازشوں اور دشمنانِ دین کی خباثتوں کا اولین ہدف ہے۔ تاریخ کی بے مثال اور طویل ترین جنگیں یہیں لڑی گئیں‘‘۔
جنگوں کے تذکرے سے یاد آیا کہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آج امریکہ کو افغانستان میں جس تاریخی رسوائی کا سامنا ہے، اِس میں اُس کا سب سے بڑا اتحادی برطانیہ بھی برابر کا شریک ہے، جس نے امریکیوں کو افغانوں کے جنگجویانہ مزاج، مزاحمتی صلاحیتوں اور ان کے وطن پر قبضے کے خواب دیکھنے والی غیر ملکی استعماری قوتوں سے نفرت کی بابت بے خبر رکھا۔ برطانیہ کو افغانوں سے لڑنے کا پرانا تجربہ ہے۔ اس سلسلے میں پہلی برٹش افغان جنگ (1839ء تا 1842ئ) کا حوالہ دیا جا سکتا ہے ۔1838ء میں والیٔ افغانستان امیر دوست محمد نے جب روس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو برطانیہ عظمیٰ نے انہیں سبق سکھانے کے لیے ہندوستان میں پناہ گزین معزول افغان والی شاہ شجاع کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے فوجی کارروائی ضروری تھی۔
چنانچہ برطانوی فوجی دستے 10 دسمبر 1838ء کو افغانستان پر حملے کے لیے ہندوستان سے روانہ ہوئے اور 25 اپریل 1839ء کو قندھار پہنچ کر وہاں اپنا قبضہ قائم کر لیا۔ اسی برس ماہِ اگست میں برطانوی فوجیں جب کابل پہنچیں تو امیر دوست محمد نے ان کا مقابلہ کرنے کے بجائے اقتدار چھوڑ دیا اور ان کی جگہ شاہ شجاع تخت ِ کابل پر براجمان ہوگئے۔ لیکن برطانیہ کا یہ مہرہ افغان عوام کے دلوں میں اپنی جگہ نہ بنا سکا، کیونکہ ڈاکٹر ریاض احمد شیخ کے بقول: ’’افغان عوام اسے فرنگیوں کا ایجنٹ اور اسلام کا دشمن سمجھنے لگے۔ ان کے خیال میں شاہ شجاع نے اسلامی و پختون روایات سے انحراف کرتے ہوئے اسلام دشمن فرنگیوں کی مدد سے کابل پر قبضہ حاصل کیا تھا‘‘۔
برطانیہ کا منصوبہ یہ تھا کہ شاہ شجاع کو تخت ِ کابل پر بٹھانے اور افغانستان میں قیامِ امن کے بعد برطانوی فوجی دستے ہندوستان واپس چلے جائیں گے۔ لیکن جب برٹش فوجی قیادت نے دیکھا کہ اُن کی افغانستان میں موجودگی کے باوجود بھی اُن کے ’’حامد کرزئی‘‘ کی بادشاہت محض صدارتی محل تک ہی محدود ہے اور اُن کی واپسی کے فوراً بعد شاہ شجاع کے خلاف بغاوت ہو سکتی ہے تو برطانیہ نے فیصلہ کیا کہ افغانستان میں امن کی مکمل بحالی تک کابل میں فوجی چھائونی قائم کیا جائے، جہاں برطانوی فوجی دستے طویل مدت تک قیام پذیر رہیں۔ چنانچہ اسی منصوبے کے تحت برطانوی فوجیوں نے اپنی Families کو بھی کابل بلوا لیا۔ لیکن برطانوی فوج کو افغانستان میں امن کی بحالی کی یہ کوشش بہت مہنگی پڑی اور صرف آٹھ مہینوں بعد ہی شاہ شجاع اور برطانوی فوجوں کے افغانستان میں قیام کے خلاف ملک بھر میں نفرت کے جذبات دیکھے جانے لگے۔
ڈاکٹر ریاض احمد شیخ نے افغانستان پر قابض برطانوی فوج کے خلاف کھڑی ہونے والی مزاحمت کی چھ وجوہات بیان کی ہیں: ’’اولاً، افغان عوام برطانوی تسلط کو پشتون خود مختاری پر کاری ضرب خیال کرتے تھے۔ وہ برطانیہ کی غلامی کسی بھی صورت برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ ثانیاً، وہ شاہ شجاع کی حکومت کو کافروں کی حکومت تصور کرتے تھے، جو غیر شرعی اور اسلامی اصولوں کے خلاف تھی۔ ثالثاً، افغانستان پر قابض برطانوی فوجیوں اور ان کے اہلخانہ کے بے باکانہ طرز بود و باش نے بھی افغانوں کے غصے کو ہوا دی۔ رابعاً، شاہ شجاع نے اقتدار سنبھالتے ہی حکومتی اخراجات پورے کرنے کے لیے عوام پر کئی ٹیکس عائد کیے، جن کے باعث مہنگائی اس قدر بڑھی کہ اشیائے خورو نوش بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہونے لگیں۔ خامساً، انگریز عورتوں کی کھلے عام بے پردگی اور بعض مقامات پر انگریز فوجیوں کی طرف سے افغان خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نے بھی افغانوں کی غیرت کو مزید جوش دلانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سادساً، شاہ شجاع کا اقتدار مضبوط کرنے کے لیے مختلف قبائل کی قیادت کو جبراً تبدیل کر دیا گیا اور برطانیہ مخالف قبائلی سرداروں کو ہٹا کر نئے لوگ ان کی جگہ بٹھا دیئے گئے۔ قبائلی نظام میں برطانیہ کی اس مداخلت نے افغان قبائل میں بھی بے چینی پیدا کی‘‘ ۔
اس عوامی نفرت اور بے چینی کا فائدہ امیر دوست محمد کے بیٹے اکبر خان نے اٹھایا، جس کی تحریک پر افغان مزاحمتی قوتیں قابض برطانوی فوجوں کے خلاف درونِ خانہ صف آرائی کرنے لگیں اور پھر 2 مارچ 1841ء کو کابل میں افغان مزاحمت کاروں نے ایک افغان سردار عبداللہ اچکزئی کی قیادت میں پہلی گوریلا کارروائی کی، جس میں کابل میں تعینات برطانوی ریذیڈنٹ سر الیگزینڈر برنس کا بھائی چارلس برنس اور کچھ دیگر برطانوی فوجی افسر مارے گئے۔ اس کے ساتھ ہی انگریز فوجیوں پر کھلے عام حملے شروع ہوگئے اور نوبت با ایں جا رسید، کہ دن کے وقت بھی انگریز فوجیوں کے لیے چھائونی سے باہر نکلنا مشکل ہو گیا۔ اگلے نو دس ماہ کے دوران میں افغان مزاحمتی تحریک نے اِس قدر زور پکڑا کہ برطانوی فوجی قیادت اکبر خان کے ساتھ مذاکرات پر مجبور ہو گئی۔
11 دسمبر 1841ء کو کابل شہر میں موجود برطانوی فوجیوں کے پاس صرف دو روز کا راشن باقی تھا۔ چنانچہ مذاکرات میں طے پایا کہ برطانوی فوجی دستے فی الفور افغانستان سے نکل جائیں اور دوبارہ اِدھر کا رخ نہ کریں، بصورتِ دیگر ان کے قتل عام کی ضمانت نہیں دی جا سکے گی۔ اس معاہدے کے تحت 15 دسمبر 1841ء کو برطانوی فوجی دستوں کی واپسی شروع ہونی تھی۔ ڈاکٹر ریاض احمد شیخ کے مطابق اسی دوران میں ایک برطانوی اعلیٰ افسر Sir William Macnayahten نے امیر دوست محمد کے مخالفین کے ساتھ مل کر اکبر خان کے خلاف سازش شروع کردی تاکہ افغان مزاحمتی گروپوں کو تقسیم کیا جا سکے۔ مذکورہ سازش کا راز کھلنے پر افغان حریت پسندوں نے سازشی کو قتل کر ڈالا۔ دوسری طرف شدید سرد موسم بھی برطانوی فوجوں کی واپسی کی راہ میں حائل تھا، لیکن مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق بالآخر 6 جنوری 1842ء کو برطانوی فوجی قافلہ کابل سے ہندوستان کے لیے روانہ ہوا، جس میں 690 برطانوی فوجی، 3800 ہندوستانی فوجی، 36 برطانوی عورتیں اور بچے، 12000 خدمت گار، پیدل لڑاکا سپاہی اور ان کے خاندان شامل تھے۔ دوسری طرف کابل سے جلال آباد تک کے رستے میں آنے والے تمام پہاڑی درّوں پر مزاحمت کار پوزیشنیں سنبھال چکے تھے، جو اس سات روزہ سفر کے دوران جابجا قافلے پر حملے کرتے رہے۔
کابل سے روانہ ہونے والے اس قافلے کے شرکاء کی تعداد سولہ ہزار تھی، لیکن 13 جنوری کو جلال آباد پہنچنے تک پورا قافلہ گوریلا کارروائیوں میں مارا گیا۔ افغانوں کی نفرت اور انتقام کی یہ بھیانک داستان سنانے کے لیے صرف ایک شخص ڈاکٹر ولیم بریڈون زندہ جلال آباد پہنچ سکا تھا۔ اس پوری کہانی میں اگرچہ امریکہ بہادر کے لیے کئی سبق پنہاں ہیں، لیکن افغان طالبان کے لیے سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ مغربی استعماری قوتیں آخری لمحات میں بھی سازش کرنے سے گریز نہیں کرتیں، لہٰذا افغان طالبان کے سفارتی نمائندوں کو امریکیوں سے مذاکرات کرتے ہوئے بے حد چوکنا رہنا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ امریکی آخر وقت میں کوئی ایسا دائو کھیل جائیں، جس کے نتیجے میں طالبان کی متوقع فتح کا بھی وہی حشر ہو، جو سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کی فتح کا ہوا تھا۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment