اسلام آباد میں منعقد ہونے والی قومی کشمیر کانفرنس نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ پاکستانی رہنمائوں اور سیاستدانوں کے باہمی اختلافات کے باوجود کشمیر کے معاملے پر سب متفق اور متحد ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے بعد آنے والی کوئی بھی حکومت کان کھول کر سن لے کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی قومی قیادت ایک ہے۔ ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بھارت کو کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ چھوڑنا ہوگا۔ کشمیر کی آزادی کا وقت آن پہنچا ہے۔ عالمی برادری کو چاہئے کہ جنگ بھڑکنے سے پہلے کچھ کرلے۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ کشمیر ہمارے ڈی این اے میں شامل ہے۔ اسے کبھی چھوڑیں گے نہ بھولیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس امر میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کا بچہ بچہ، تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور فلاحی تنظیمیں مسئلہ کشمیر پر ایک ہی قومی مؤقف رکھتی ہیں۔ قومی کانفرنس کے میزبان مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کشمیر کی آزادی تک جدوجہد جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ میں طویل عرصے تک کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہا، مختلف حکومتوں اور اداروں کو قریب سے دیکھا، لیکن میری نظر میں موجودہ حکومت سے زیادہ مایوس کن دور پہلے کبھی نہیں آیا۔ قومی کشمیر کانفرنس میں راجہ ظفر الحق، نیر بخاری، سردار یعقوب، لیاقت بلوچ، چوہدری لطیف اکبر، فیصل ممتاز راٹھور، سینیٹر انوار کاکڑ، خالد مقبول صدیقی، مولانا غفور حیدری، عامر خان، علامہ عبد الرشید ترابی، علامہ ساجد علی نقوی، اویس احمد نورانی اور دیگر رہنمائوں نے خطاب کیا۔ اتنی بڑی تعداد میں اور مختلف سیاسی و مذہبی خیالات رکھنے والے قومی رہنمائوں کی کشمیر کانفرنس میں شرکت خوش آئند ضرور ہے، لیکن مسئلہ کشمیر اب مذاکرات اور تقریروں سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ اس کے دو پہلو بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ایک یہ کہ حکومت کی طرف سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھانے کی کوششوں میں نمایاں کمی محسوس ہونے لگی ہے۔ مولانا فضل الرحمن جیسی متنازعہ شخصیت کو سابقہ کئی حکومتوں نے کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رکھ کر بے شمار سہولتیں دیں، لیکن کثیر اخراجات کے باوجود ان کے دور میں اس مسئلے پر معمولی پیش رفت بھی نظر نہیں آئی۔ اب وہ کہتے ہیں کہ میری نظر میں موجودہ حکومت سے زیادہ مایوس کن دور کبھی نہیں آیا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ اب وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نہیں رہے۔ مسئلہ کشمیر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بھارت کے بدترین مظالم اور حکومت پاکستان سے مایوسی کے بعد اہل کشمیر نے اپنی ریاست کی بھارت سے آزادی کا اپنے بل بوتے پر عزم کر لیا ہے۔
بھارت کے اکثر رہنمائوں کی طرح وزیر اعظم نریندر مودی کے گزشتہ روز کے دورئہ کشمیر کے موقع پر بھی پوری مقبوضہ وادی میں مکمل ہڑتال رہی۔ کشمیری عوام نے سیاہ جھنڈیوں سے ان کا استقبال کیا۔ ادھر مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی آمد پر پوری وادی کو فوجی چھائونی میں تبدیل کر دیا۔ اسی طرح پانچ فروری کو سارے پاکستان اور مقبوضہ کشمیرمیں یوم یک جہتی کشمیر مکمل جوش و خروش، جذبے اور قومی وقار کے ساتھ منایا جائے گا۔ دریں اثنا حکومت اور اپوزیشن کے رہنما قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر سید فخر امام کو پارلیمنٹ کی خصوصی کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنانے پر متفق ہوگئے ہیں۔ ان کے سیاسی قد کاٹھ کی وجہ سے کشمیر کمیٹی کی سفارشات کو حکومتی اور عالمی سطح پر پذیرائی ملنے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ قومی کشمیر کانفرنس کے انعقاد، جماعت اسلامی کی جانب سے پورے ملک میں پانچ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منانے اور کشمیر کمیٹی کا چیئرمین سید فخر امام کو بنانے کی حالیہ سرگرمیوں سے امید کی جا سکتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو پھر سے عالمی سطح پر اٹھایا جائے گا اور اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی ازسرنو زیر غور آئیں گی۔ حکومت پاکستان اس مرحلے پر متحرک ہو جائے تو عالمی برادری کی نئی نسل کو یہ بتایا جا سکتا ہے کہ 1947ء میں انگریزوں سے آزادی کے وقت دو لاکھ سینتیس ہزار کشمیریوں کا قتل عام ہوا تھا، جبکہ گزشتہ ستر برسوں میں پانچ لاکھ بے گناہ کشمیری باشندے قتل کئے جا چکے ہیں اور خواتین کی بے حرمتی کے بے شمار واقعات کے علاوہ چھ ہزار سے زائد کشمیریوں کو بینائی سے محروم کردیا گیا ہے۔
اس تاریخی پس منظر اور کشمیریوں کی بے مثال جدوجہد کے تناظر میں اہل وطن یہ دیکھ کر شدید مایوسی اور صدمے سے دوچار ہیں کہ بقول لیاقت بلوچ لگتا ہے کشمیر موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ وہ بھارت کے ساتھ سرحدیں کھولنے، تجارت بڑھانے، ثقافت کے نام پر بھارت کی اخلاق سوز تہذیب و تمدن کو غالب کرنے کے لئے تو بے چین ہے، لیکن پاکستان کی شہ رگ یعنی کشمیر کی بھارت سے آزادی میں اسے کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی۔ تاہم ہفتے کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی قومی کشمیر کانفرنس نے اس مسئلے پر آزاد عالمی کمیشن بنانے کا جو مطالبہ کیا ہے، اس پر مسلسل کام کیا جائے تو آئندہ برسوں میں کسی پیش رفت کا امکان نظر آتا ہے۔ اس موقع پر جاری کئے جانے والے اعلامیہ میں مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کے لئے سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھنے کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اس امر پر بھرپور اور مسلسل توجہ رکھنے کی ضرورت ہے کہ بڑی طاقتوں اور عالمی برادری کے مختلف فورمز پر دنیا کو باور کرایا جائے کہ اگر مسئلہ کشمیر حل کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو خطے اور دنیا میں کوئی بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ کشمیری تو پہلے ہی بہت نقصان اٹھا چکے ہیں، لیکن ہولناک جنگ کی صورت میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک بھارت کو ناقابل تلافی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ٭
٭٭٭٭٭