دروازے پر بیل ہوتی، مگر ماسی صوفے پر بیٹھی میگزین کی تصویریں دیکھتی رہتی۔ اس کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ دروازہ میں جا کر کھول دوں۔ اس لئے کان بند کئے بے نیازی سے تصویریں دیکھتی رہتی یا ٹی وی کھول کر آوز اتنی تیز کر دیتی کہ دروازے پر بجنے والی بیل اسے نہ سنائی دے، کئی بار ایسا میں نے محسوس کیا۔ جب آنے والوں کو مجھ سے اس بات کا شکایت کی کہ ہم تو آپ کے ہاں گھنٹی بجا بجا کر چلے گئے، تب میں نے اپنے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا کہ کیا میں ساری زندگی اس جیسی بلیک میلر کے ہاتھوں کھلونا بنی رہوں گی۔ کھانا پکانے اور صفائی ستھرائی میں وہ سارا دن نکال دیتی۔ دو آدمیوں کا کھانا پکنے میں کتنی دیر لگتی ہے، جبکہ میں صرف دلیہ کھاتی تھی۔ وہ اپنے قیمہ، چکن، کوفتے پکاتی اور جب کوئی مہمان آجاتا تو میں اسے کہتی ’’عافی بی تم نے جو کل کوفتے بنائے تھے وہ بھی گرم کرلینا‘‘ وہ گھبرا جاتی۔ ’’باجی جی وہ تو کل ہی ختم ہوگئے تھے‘‘ آدھ کلو قیمے کے کوفتے اس کیلئے ناکافی ہوتے۔ میری بہنیں آتیں تو اس کو انتہائی ناگوار لگتا، اس کی کوشش ہوتی کہ وہ جلد سے جلد بغیر کچھ کھائے پئے رخصت ہوجائیں۔ میں نے چھ مہینے بڑی مشکل سے اس کے ساتھ گزارے، آخر میں نے اس کو رخصت کرہی دیا۔ کالج میں طویل چھٹی کے بعد جب میں نے جوائن کیا تو ہر دوست نے ہمدردی کا اظہار کیا۔
وہ آہستہ سے مسکرائی ’’میں اس گھر میں کام کرتی ہوں، آپ کی ماسی سے میری سلام دعا ہوتی رہتی تھی، اسی نے آپ کے بارے میں مجھے بتایا تھا‘‘ میں مایوس ہوگئی، یہ بھی عافی بی کی طرح ہے، بیکار ہے مزید بات چیت کرنا۔ اس نے مجھے خاموش دیکھا تو بولی ’’آپ کو کام والی چاہئے؟‘‘ میں نے آہستہ سے سر ہلا دیا۔ اس نے مزید کہا ’’اگر کوئی قابل اعتبار چاہئے تو وہ پیسے زیادہ لے گی‘‘ اس نے مجھے مزید حیران کردیا۔ وہ کسی ماہر نفسیات کی طرح میری سوچ پڑھ رہی تھی۔ ’’آپ کیا کام کرانا چاہتی ہیں اور کتنے پیسے دے سکتی ہیں؟‘‘ ’’تم بتاؤ تم خود کروگی میرا کام‘‘ نہ جانے کیوں مجھے یوں محسوس ہوا جیسے یہی وہ عورت ہے جو میرا ساتھ دے سکتی ہے، میں اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ سانولا سلونا۔ آنکھیں چمکدار وہ بولی ’’باجی میں بہت دور سے آتی ہوں، مجھے دیر سویر ہو جاتی ہے، بوڑھی ماں کے پاس بچوں کو چھوڑتی ہوں، شوہر گنے کا رس بیچتا ہے، اسے دوپہر کو تازہ روٹی پکا کر دینا ہوتی ہے، وہ غصہ کا بہت تیز ہے۔ اگر کام سے دیر ہوجائے تو بہت غصہ کرتا ہے، میرے پاس ٹائم نہیں ہے۔‘‘ اس نے عذر پیش کیا میں نے اچانک کہا ’’میں پانچ سو روپے فی کام دوں گی، تین بجے سے چار بجے تک، اگر تم کر سکو تو آجانا‘‘ یہ کہہ کر میں فوراً اپنے گھر کی طرف مڑ گئی۔ مجھے محسوس ہوا جیسے ’’پانچ سو روپے فی کام‘‘ سن کر وہ کچھ سوچنے پر مجبور ہوگئی، کیونکہ اس وقت ماسیوں کے ریٹ تین سو روپے فی کام تھے۔ مجھے تو صرف برتن جھاڑو اور کپڑے ہی دھلوانے تھے۔ اپنی پچیس ہزار کی تنخواہ میں ڈیڑھ ہزار اگر اپنی ذات پر خرچ ہوجائیں تو کیا حرج ہے، میں بغیر مڑے خاموشی سے تالا کھول کر اپنے گھر میں داخل ہوگئی۔
ابھی میں نے کپڑے تبدیل ہی کئے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی، میں نے جھانکا وہی ماسی کھڑی تھی۔ میں نے دروازہ کھول دیا، وہ اندر آئی اور بغیر کہے سنے جھاڑو اٹھا کر صفائی شروع کردی۔ بیڈ روم میں مسہری کی چادر جھاڑی، تکیے صحیح کر کے رکھے۔ میری سائڈ ٹیبل پر کتابیں بکھری ہوئی تھیں، انہیں سمیٹ کر سلیقہ سے رکھا، میں خاموشی سے اس کے کام کا جائزہ لیتی رہی۔ اس نے جھاڑو کے بعد گھر کا پونچا لگایا، باورچی خانے کی صفائی کی، برتن دھو کر بڑے سلیقے سے اسٹینڈ میں لگائے، واشنگ مشین میں پڑے ہوئے کپڑے دھوئے، تینوں کام کرکے بغیر ایک لفظ بولے خاموشی سے برقعہ پہن کر چلی گئی۔ بس اس دن سے میرا اس کا ساتھ بندھ سا گیا۔ میں خود بھی چونکہ رکشہ ٹیکسی میں سفر کرتی تھی، اس لئے پیٹرول کی قیمت کے اضافے کے ساتھ ہی میں ماسی کے پچاس روپے بڑھا دیتی۔ اس لئے اسے کبھی مجھ سے شکایت ہوئی نہ اس نے مجھے شکایت کا موقع دیا۔ ہم دونوں گاڑی کے دو پہیوں کی طرح ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ 2018ء کے الیکشن میں، میں نے اسے حب الوطنی کا احساس دلا دلا کر ووٹ ڈالنے کیلئے بھیجا، مگر چھ مہینے میں نئی حکومت کی بے حسی، مہنگائی، لوگوں کو غربت میں ہوشر اضافہ ہوا تو ہر غریب کی طرح وہ بھی بلبلا اٹھی، تین دن میں وہ تیسری بار بڑبڑائی۔ ’’لعنت ہے مجھ پر کہ میں نے ایسے لوگوں کو ووٹ ڈالا، جو مجھ سے ہی نوالا چھین رہے ہیں۔ کل میرے پڑوس میں ایک آدمی نے خودکشی کرلی، چھ بچوں کا باپ تھا، اب ماں کیا کرے گی۔ کہاں سے کھلائے گی۔‘‘ مگر اس شخص نے خود کشی کیوں کرلی؟ میں نے پوچھا: پولیس والے تجاوزات کے نام پر اس کی پرچون کی چھوٹی سی دکان سامان سمیت لے گئے، جو وہ ٹھیلے پر لگاتا اور اس کی دن بھر کی کمائی بچوں کو کھلاتا تھا۔
اس کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔ ’’باجی میں کام چھوڑ رہی ہوں‘‘ ’’کیوں، تمہیں کیا ہوگیا؟‘‘ میں گھبرا گئی۔ مجھے اس کی عادت سی ہوگئی تھی، وہ اتنے سکون اور صفائی سے کام کرتی تھی کہ مجھے کبھی اسے ٹوکنے کی ضرورت ہی نہ ہوئی۔ میرے کالج سے آنے کے بعد وہ تقریباً آدھ گھنٹے بعد آتی۔ اس وقت تک میں کھانا کھا چکی ہوتی، نماز سے فارغ ہوکر میلے کپڑے مشین میں ڈال دیتی، وہ آکر مجھے چائے بنا کر پلاتی، صفائی کرتی، کپڑے دھوتی، پونچھا لگاتی اور جاتے وقت مجھ سے پوچھتی باجی! کوئی اور کام تو نہیں۔ میں اسے جاتے وقت رات کا بچا ہوا سارا کھانا دیدیتی، کیونکہ میں تو روزانہ صرف شام کو ہی کھانا پکاتی تھی جو دو وقت آرام سے چل جاتا۔ اب میں اس کی عادی ہوگئی تو وہ مجھے چھوڑ کر جارہی ہے، شاید اسے تنخواہ بڑھوانی ہوگی، اسی لئے مجھے دھمکی دے رہی ہے۔ میں نے دل میں سوچا ’’باجی میری پڑوسن کے چھ بچے ہیں، وہ انہیں کیسے کھلائے گی۔ اب میں اس کے بچوں کی دیکھ بھال کروں گی اور اپنے سب گھر اس کو لگوا دوں گی تاکہ اس کو اتنی آمدنی ہو جائے کہ اس کے بچے فاقے سے بچ جائیں۔‘‘ میرے ہاتھ سے اخبار چھٹ گیا، اتنا ایثار، ایسی قربانی، اس مہنگائی اور نفسانفسی کے دور میں جب ہر ایک دوسرے کا نوالہ حلق سے چھین رہا ہے، یہ اپنے لگی لگائی نوکری دوسروں کو دینے کے لئے تیار ہے۔ ’’پھر تم کیا کروگی؟‘‘ ’’میں اس کے بچوں کو اپنے گھر میں رکھوں گی اور گھر میں ہی کوئی کام کرلوں گی۔‘‘ ’’یہ کام تو وہ بھی کر سکتی ہے؟‘‘ اس نے آہستہ سے کہا ’’مگر اس کو تو کچھ نہیں آتا، کوئی ہنر اس کے ہاتھ میں نہیں، میں تو کڑھائی سلائی کرنا جانتی ہوں، اس سے گھر بیٹھے کما سکتی ہوں، پھر اس کے بچوں کی دیکھ بھال کیلئے بھی تو کوئی عورت ہونی چاہئے۔ اس کے چھ بچے بہت چھوٹے ہیں۔‘‘ میں شرم اور غیرت سے زمین میں گڑی جا رہی تھی۔ ’’میں نے آہستہ سے کہا تم کام نہ چھوڑو، میں تمہاری پڑوسن کیلئے کچھ کروں گی۔‘‘ میرا یہ کئی سال سے اصول تھا کہ میں نے جب سے نوکری شروع کی تھی، ہر ماہ ’’زکوٰۃ فنڈ‘‘ میں تین ہزار روپے ڈالتی رہتی تھی۔ رمضان سے پہلے میں اسے کسی نہ کسی غریب کے حوالے کر دیتی تھی، اب اس کے صحیح استعمال کا وقت آگیا تھا۔ میں شاید تھوڑی سی خود غرض بھی تھی۔ ماسی کی طرح پرخلوص، صاف دل نہیں۔ میں اپنے آرام کی خاطر اسے چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔ میں نے اس سے کہا ’’تم مہینہ میں کتنا کما لیتی ہو؟‘‘ ’’تقریباً تین ہزار‘‘ وہ آہستہ سے بولی ’’ٹھیک ہے، میں تم کو تین ہزار تمہاری پڑوسن کیلئے دوں گی، تم اسے دے دینا تاکہ وہ اپنے بچوں کی خاطر گھر میں بیٹھ کر ان کی حفاظت اور دیکھ بھال کر سکے۔‘‘ وہ مجھے حیرت سے دیکھنے لگی، شاید اسے میری دماغی کیفیت میں کوئی شبہ ہو رہا تھا۔ میں اس کے قریب گئی، اس کے دونوں ہاتھ تھام کر آہستہ سے کہا ’’نیکی کرنے کا حق صرف تمہارا ہی تو نہیں، مجھے بھی اس نیکی میں اپنے ساتھ شریک کرلو۔‘‘ اس نے آنکھیں اٹھائیں، جو آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ میں نے اپنے دوپٹے سے اس کے آنسو پونچھے اور اسے گلے لگایا۔ ’’تم بہت عظیم ہو، واقعی بہت عظیم، خدا تعالیٰ تمہاری نیت کا ثواب تمہیں بہت زیادہ دے گا‘‘ اس نے میرے دونوں ہاتھ تھام کر اپنی آنکھوں سے لگائے، جن سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔ ٭
٭٭٭٭٭