پروفیسر حافظ محمد سعید
امیرجماعۃ الدعوۃ پاکستان
رسول اقدسؐ نے مسلمانوں کوایک جسم سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا: اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔ ایسے ہی اگر دنی اکے کسی خطے کے مسلمانوں پر کوئی تکلیف آئے، غیر مسلم مسلمانوں پر ظلم کریں تو دوسرے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے مظلوم بھائیوں کی مددکیلئے کمربستہ ہو جائیں۔ مظلوم بھائی کی مددکرنا، ظالم کا ہاتھ روکنا اور مظلوم کو ظالموں کے پنجے سے نکالنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ یہی عمل اظہار یکجہتی کہلاتا ہے۔
آج ہم بھی ملک بھر میں مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کررہے ہیں۔ اظہار یکجہتی کشمیر کا یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ اگرچہ اس عمل کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن سچی بات ہے کہ ہمارا اظہار یکجہتی کشمیر کا یہ عمل محض اظہار ہی ہے۔ جب ہم کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے مظالم دیکھتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ بحیثیت قوم اور خاص کر ہمارے حکمران مسلمان ہونے کا فرض ادا نہیں کر رہے۔ آج دنیا جدید ترین ٹیکنالوجی اور مواصلاتی رابطوں کے ذریعے گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ دنیا کے ایک کونے کی خبریں پل بھر میں دوسرے کونے تک جاپہنچتی ہیں۔ ایسی صورت میں ممکن نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں جوکچھ ہورہا ہے، اس سے ہم یا ہمارے حکمران بے خبر ہوں۔ مقبوضہ کشمیر قطب شمالی میں نہیں اور نہ ہی یہ کسی دوسرے سیارے کا نام ہے، بلکہ یہ مقبوضہ وادی ہمارے پڑوس میں ہے۔ وہاں یتیم ہونے والے چیختے، چلاتے، بھوک سے بلکتے اور تڑپتے بچے مدد کیلئے ہمیں پکار رہے ہیں۔ بیوہ ہونے والی خواتین کی آہیں رب عظیم کے عرش کو ہلارہی اور بوڑھوں کی سسکیاں تھمنے کا نام نہیں لے رہی رہیں۔ کیا معصوم ومظلوم کشمیری بچوں کی فلک شگاف چیخیں ہمیں سنائی نہیں دیتیں اور کیا وہاں سے بلند ہوتے شعلے ہمیں دکھائی نہیں دیتے؟
اس وقت مقبوضہ وادی میں موسم سرما شباب پرہے۔ سرد ہوائیں، بارشیں اور برفباری جاری ہے۔ جس سے جھیلیں منجمد، کئی دریائوں کی روانی رک جاتی ہے، یہاں تک کہ جھیلوں، پائپوں اور نلوں میں پانی جم جاتا ہے۔ اسلام آباد، لاہور، کراچی کے پرشکوہ محلات میں نرم وگرم بستروں پر آرام وراحت کی نیند سونے والوں نے کبھی سوچا ہے کہ مقبوضہ وادی میں رہنے والے ہمارے مظلوم بہن، بھائیوں، بچوں، بوڑھوں اور عفت مآب مائوں بہنوں پر موسم سرما میںکیا گزرتی ہے؟ ان کے صبح و شام اور موسم سرما کی طویل راتیں کس کرب و اذیت میں گزرتی ہیں۔ جب موسم سرما کی برفباری اور رگوں میں خون جما دینے والی یخ بستہ ہوائیں جنگل کے خونخوار درندوں کو بھی اپنی کھچاروں میں پناہ لینے پر مجبورکردیتی ہیں تو پھر جنگلی درندوں کی عدم موجودگی میں بھارتی فوجی درندوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ وہ ایک طرف آتشیں اسلحہ سے آگ اور خون کا بازار گرم کرتے تو دوسری طرف موسم سرما کے مصائب وشدائد کی چکی میں پسے ستم رسیدہ کشمیر یوں کے گھروں کو نذر آتش کرتے ہیں۔
درندہ صفت بھارتی فوجی موسم سرما میں ظلم وستم کے نئے نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں۔ سردی، بارش اور برفباری میں کشمیریوں کو گھروں سے نکال کر کھلے میدانوں میں بٹھاتے یا راہ چلتے افراد کو تلاشی کے بہانے گھنٹوں کھڑا رکھتے ہیں۔ ایسے بھی ہوتا ہے کہ جب سردی شباب پر ہوتی ہے، لوگ گھروں میں اپنے نرم وگرم بستروں پر گہری اور پرسکون نیند سو رہے ہوتے ہیں تو بھارتی درندے کسی بستی میں داخل ہوکر سب بستی والوں کو باہر کھلی جگہ جمع ہونے کا حکم دیتے ہیں۔ لوگوں کو ساری رات محض تفریح طبع کی خاطر بٹھائے رکھتے ہیں۔ ایسا کرتے وقت بچوں، بوڑھوں، خواتین اور مریضوں میں کوئی تخصیص نہیں کی جاتی۔ بعض دفعہ شہریوں کو گھنٹوں یخ پانی میں کھڑا رکھا جاتا ہے۔ موسم سرما کی اذیت میں پیسنے کا ایک بدترین طریقہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کو ننگے بدن برف پر لٹایا جاتا ہے، جس سے کئی افراد سردی کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ دیتے ہیں۔ کبھی کسی کو باندھ کر اور برف میں گڑھا کھودکر اس میں گاڑدیا جاتا ہے۔ اب یہ شخص برفباری اور سرد ہوائوں کے رحم وکرم پرہوتا ہے اور اس کا زندہ بچنا محال ہوتا ہے۔ کبھی بھارتی فوجی اور ان کے ایجنٹ عین موسم سرما میں لوگوں کے گھر نذر آتش کردیتے ہیں۔ گھر نذرآتش ہونے کے بعد اس خاندان کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں، خواتین، بوڑھوں اور بیماروں پر جو گزرتی ہوگی؟ اس کا اندزاہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ بھارتی فوجی بستیوں کوگھیرے میں لے کر لوگوں کو گھروں سے باہر نکالتے، مسلسل کئی گھنٹے انہیں خون منجمد کر دینے والی سردی میں کھلے آسمان تلے برف پر کھڑا رکھتے، گھروں کی تلاشی لیتے، توڑ پھوڑ کرتے، پائوڈر چھڑک کر دکانوں مکانوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتے یا دھماکہ خیز مواد سے مکان اڑا دیتے ہیں۔ بھارتی فوج اور اس کے ایجنٹوں نے کشمیری عوام کی املاک کی آتش زنی کا سلسلہ اسی وقت شروع کردیا تھا، جب 1989ء میں تحریک آزادی کی ابتدا ہوئی تھی، لیکن اس میں تیزی اس وقت آئی جب بھارت نے تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے اسرائیل سے فنی، عملی، عسکری، جانی اور مالی معاونت طلب کی۔ یہودو ہنود ہم قافیہ ہی نہیں، ہم مزاج بھی ہیں۔ مسلم دشمنی کی شدت دونوں میں مشترکہ پائی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے بھارت کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ املاک کی آتش زنی کا آئیڈیا، جلانے والا پائوڈر اورآگ لگانے والے خاص قسم کے کیمیکل فراہم کئے گئے۔ تب سے اس مذموم منصوبہ پر کامیابی سے عمل جاری ہے۔1989ء سے لے کر اب تک مجموعی طور ڈیڑھ لاکھ سے زائد آتشزنی کی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ بعض ایسی وارداتیں بھی ہیں، جن میں پوری پوری بستیاں اور بازار نذرآتش کر دیئے گئے۔ اسی طرح بھارتی فوج نے2018ء میں بھی گولہ بارود اور آتشزنی کی وارداتیں کیں، جن میں سینکڑوں گھر، دکانیں، املاک تباہ اور خاکستر ہوگئیں۔ مسلمانوںکے مکانات، دکانیں، مارکیٹیں، کاروبار تباہ کرنے میں عام سویلین بھی بھارتی فوج کے شانہ بشانہ ہیں، جیسا کہ نومبر2018ء کے آخری ہفتے میں باندرہ کے علاقے میں ہندئووں نے مسلمانوں کی ایک بستی کو آگ لگادی، جس سے250 مکان خاکستر ہوگئے۔ جنوری2019ء میں پہلگام میں پورا شاپنگ کمپلیکس جلادیا گیا، جس سے درجنوں، دکانیں، ہوٹل،گودام خاکستر ہوگئے اور کروڑوں کا مالی نقصان ہوا۔ جنوری2019ء میں ہی سری نگر، بارہمولہ، اولڈ ٹائون، کولگام میں مزید دس گھر جلا دیئے گئے۔ املاک کی تباہی اور آتشزنی کی وارداتوں کے ساتھ ساتھ بھارتی فوجی اہل کشمیرکی جانوں سے کھیل رہے، نوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنا رہے، بچے ذبح کر رہے اور عفت مآب مائوں بہنوں کی عصمت دری کر رہے ہیں۔ 2018ء میں گزشتہ برسوں کی نسبت سب سے زیادہ کیمیائی ہتھیار، بھاری بم اور زہریلی گیسوں کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا، یہاں تک کہ وادی میں ہر طرف خون ہی خون بہہ نکلا اور اسپتال زخمیوں سے بھرگئے۔ سال ِ رفتہ کے365 دنوں میں 400 کشمیری شہید کردیئے گئے۔ یعنی فی دن شہادتوں کا تناسب ایک سے زائد کا رہا۔ عام فائرنگ سے سینکڑوں جبکہ پیلٹ شیلنگ سے 1800 نوجوان زخمی ہوئے، ان میں سے363 بینائی سے مکمل طور پر محروم ہوگئے۔ رمضان المبارک امن، محبت، سلامتی، رواداری، ایثار اور عبادات کا مہینہ ہے، اس مہینے میں بھارتی فوج نے تیس کشمیری شہید کردیئے۔ گویا رمضان المبارک کا پورا مہینہ شہادتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عید خوشی ومسرت کا موقع ہوتا ہے۔ عید کے دن ہم نئے نئے ملبوسات پہنے، خوشبو میں نہائے، خوشی ومسرت سے اٹھلاتے اپنے بچوں کے ہاتھ تھامے عیدگاہوں کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کی 2018ء کی عید الفطر اس حال میں گزری کہ گیارہ افرادکی آنکھوں میں پیلٹ گولیاں ماری گئیں، جس سے ان کے خوبصورت و ملیح چہروں کے نقش و نگار بگڑ گئے، آنکھیں زخمی ہوگئیں، بینائی چھن گئی اور ان کیلئے دنیا تاریک ہوگئی۔ اگست پاکستان کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل مہینہ ہے۔ اس مہینے میں پاکستان معرض وجودمیں آیا۔ پاکستان میں لوگ اس مہینے کی تقریبات آرام دہ ماحول، خوبصورت کمروں، ایئرکنڈیشنڈ ہالوں، لانوں میں مناتے اور جھنڈے لہراتے ہیں، جبکہ اہل کشمیر نے سنساتی گولیوں، برستی لاٹھیوں، پیلٹ گنوں کے چھروں اور آنسو گیس کے دھویں میں14 اگست 2018ء کی تقریبات منائیں، سبز ہلالی پرچم لہرائے، پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے، 34 کشمیری شہید483 زخمی اور 140 گھر تباہ کر دیئے گئے۔ ہم اپنے فوت شدگان کو سفید کفن پہناتے ہیں، جبکہ اہل کشمیر کی پاکستان کے ساتھ محبت کی انتہا یہ کہ وہ اپنے شہدا کو پاکستان کے سبز ہلالی پرچموں میں سپرد خاک کرتے ہیں۔ آج جموںکی سرزمین سے تعلق رکھنے والا وہ بزرگ کسے یاد ہے، جسے اسلام اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے کی پاداش میں ڈوگرا فوجیوں نے پابند سلاسل کردیا تھا۔ وہ جیل میں بھی اذان کہتا، اسلام اور پاکستان زندہ بادکے نعرے لگاتا رہا۔ تب اسے وارننگ دی گئی کہ وہ ایسا نہ کرے، ورنہ سخت ترین سزا بھگتنے کیلئے تیار رہے۔ اسلام اورپاکستان کی محبت میں سرشار کشمیری بزرگ پھر بھی اسلام اور پاکستان کا نام لیتا رہا، تب اسے سخت چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کر دیا گیا، وہ پھر بھی بازنہ آیا۔ اسے کہا گیا تمہیں گولی مار دی جائے گی، بوڑھے نے اپنا سینہ چاک کرتے ہوئے ڈوگرا فوجیوں سے کہا آئو مارو گولی، میرے لئے اس سے بڑھ کر سعادت کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ میں اسلام اور پاکستان کے نام پر شہید کر دیا جائوں۔ بھارتی حکمران شاید سمجھتے ہوں گے کہ 1947ء کے موقع پر مظالم کے پہاڑ توڑ کر انہوں نے کوئی معرکہ مارا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کے یہ مظالم ریاست جموں کشمیرکا 33958 مربع میل خطہ جو آج پاکستان کے زیر انتظام ہے کی آزادی کی بنیاد بنے تھے۔ سو آج بھی خدا کے فضل سے یہ بات علی وجہ البصیرت کہی جا سکتی ہے کہ بھارت اس وقت جو ظلم کر رہا ہے، وہ اب باقی ماندہ مقبوضہ جموں کشمیر کی آزادی کا سبب بنے گا۔ یہ میرے رب کا وعدہ ہے اور رب سے بڑھ کر ایفائے عہد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ سو آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے اسلامی اور عملی تقاضے پورے کریں۔ مظلوم مسلمانوں کی مدد کیلئے اسلام نے جو ذمہ داریاں عائد کی ہیں، ان کا ادراک اور احساس کریں۔ اس ضمن میں اسوئہ رسولؐ سے رہنمائی لیں۔ راہنمائی کا یہ روشن پہلو فتح مکہ کے واقعہ میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ مدینہ سے مکہ کا طویل سفر اور پھر فتح مکہ کا پس منظر مظلوم بنی خزاعہ کی مدد تھا، بنو خزاعہ اگرچہ مسلمان نہ تھے، لیکن مسلمانوں کے حلیف تھے اور مظلوم تھے۔ رسول اقدسؐ مظلوموں کی مددکیلئے سینکڑوں میل کا سفر کرکے مکہ پہنچے تھے۔ اس کے برعکس اہل کشمیر مظلوم بھی ہیں، ہمارے پڑوسی بھی ہیں اور مسلمان بھی ہیں۔ سو کشمیری مسلمان اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ ہم ان کی مدد کریں۔ یہ ہے اسلام میں اظہار یکجہتی کا عملی تصور۔ اگر ہمارا اظہار یکجہتی کشمیر کا یہ عمل اسلام کے تقاضوں کو پورا کر رہا ہے تو سمجھ لیں ہم عملی اور حقیقی مسلمان ہیں، اگر صورتحال اس کے برعکس ہے تو پھر اصلاح کی ضرورت ہے۔ حق تعالیٰ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭٭٭