امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بالآخر تسلیم کر لیا ہے کہ افغان جنگ میں ان کے ملک نے کھربوں ڈالر خرچ کرنے اور فوجیوں کی جانیں گنوانے کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا۔ اب اُنیس سال بعد امریکی فوجیں افغانستان سے نکلیں گی تو تمام متعلقہ فریقوں کو اندازہ ہو جائے گا کہ اس جنگ سے کسی کو کچھ بھی نہیں ملا۔ افغان طالبان کے لئے بہرحال یہ امر اطمینان کا سبب ہے کہ افغانستان سے ان کی حکومت ختم کر کے ان کے ملک پر جو جنگ مسلط کی گئی، اس میں ان کی مرضی کا کوئی دخل نہیں تھا اور اب امریکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلا کے بعد ملک میں عوام کے حقیقی نمائندوں کی حکومت قائم ہو جائے گی۔ ملک میں اگرچہ آج بھی افغان طالبان سب سے زیادہ اثر و نفوذ رکھتے ہیں، اس کے باوجود انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ نئی حکومت میں تمام قبائل اور فریقوں کو شامل کرکے شوریٰ کی بنیاد پر ملک کا نظام چلائیں گے۔ اس عرصے میں طالبان نے بھی بہت کچھ سیکھا ہے اور وہ عالمی برادری، بالخصوص بڑی طاقتوں سے خوامخواہ محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت کی پالیسی اختیار کریں گے۔ افغان طالبان شدت اور انتہا پسندی سے بچتے ہوئے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کریں گے، جس کا اشارہ انہوں نے یہ کہہ دیا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کا بھی پورا پورا خیال رکھیں گے۔ طالبان کے پچھلے دور حکومت میں تمام عالمی ذرائع ابلاغ، خاص طور پر خاتون صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنی خبروں اور رپورٹوں میں اس حقیقت کا برملا اظہار کیا تھا کہ افغان خواتین کو طالبان کے دور حکومت میں جو تحفظ حاصل ہے، اس کی نظیر دنیا کے کسی خطے میں نہیں ملتی۔ اپنے وطن میں ان کی جان و املاک، عزت و آبرو اور بچے، سب پوری طرح محفوظ و مامون ہیں اور وہ مکمل آزادی کے ساتھ ملک بھر میں گھوم پھر سکتے ہیں۔ صرف شمالی اتحاد کے زیر اثر رشید دوستم کے بعض خطرناک علاقے ان کیلئے غیر محفوظ ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے فوجیوں کی نگرانی میں کابل تک محدود رہنے والی کٹھ پتلی افغان حکومتوں نے اب تک جو کھا کمالیا، لیکن بدلتی ہوئی صورتحال میں انہیں یقین ہوگیا ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان کامیاب مذاکرات کی صورت میں انہیں مزید کچھ نہیں ملے گا، اقتدار و اختیارات نہ مال و دولت۔ اسی بنا پر موجودہ افغان صدر اشرف غنی ہاتھ پائوں مار رہے ہیں کہ امریکی فوجیوں کو مزید افغانستان میں رہنے پر مجبور کریں۔ انہوں نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے نام اپنے خط میں زور دیا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی جلدی نہ کریں۔ البتہ فوجیوں کی تعداد اور ان کے اخراجات میں مل جل کر کمی کی جاسکتی ہے۔ اشرف غنی نے اپنے سرکاری فوجیوں کو شیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ مخالفین اپنی غلط فہمی دور کرلیں۔ افغان فوج بتدریج مضبوط ہوکر جلد اس قابل ہو جائے گی کہ بیرونی (امریکی) مدد کے بغیر ملک کا دفاع کرسکے۔
ایک ٹی وی انٹرویو میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سال افغان جنگ میں اکاون ارب ڈالر خرچ کئے۔ ہم اُنیس سال سے وہاں لڑ رہے ہیں، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ امریکی و اتحادی فوجی جدید ترین اور نہایت حساس مہنگے جنگی سازوسامان کے ساتھ کئی سال تک موجود رہے تو امریکا کو کتنا جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہوگا۔ اب صرف دس بارہ ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں تو گزشتہ سال امریکا کے جنگی اخراجات اکاون ارب ڈالر تھے۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ افغان جنگ میں طالبان سمیت سب تھک چکے ہیں، اسی لئے تو وہ بھی امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ ورنہ اس سے قبل وہ امریکی اور اتحادی فوجیوں کو غاصب قرار دے کر ان کے ساتھ بات چیت کیلئے بھی تیار نہ تھے۔ ان کا مؤقف تھا کہ غیر ملکی فوجی غیر مشروط طور پر ان کے وطن سے نکل جائیں۔ اس کے بعد افغانستان کے مختلف قبائل اور فریق خود ہی اپنے معاملات کو درست کرلیں گے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ اُنیس سال کی طویل جنگ کے بعد میں اپنے فوجیوں کو واپس ملک میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس بے نتیجہ جنگ کو کبھی نہ کبھی تو ختم ہونا ہے۔ تاہم صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دودھ میں مینگنیوں کی طرح افغانستان سے انخلا کے بعد بھی وہاں امریکی انٹیلی جنس کی موجودگی کا اعلان کیا ہے۔ اس کا جواز پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر دہشت گرد وہاں اپنے ٹھکانے بنانے کی کوشش کریں تو ہمیں بروقت پتا چل جائے گا۔ حالانکہ امریکا کے پاس سیٹلائٹ نظام کے ذریعے ایسے حساس ترین آلات موجود ہیں، جن سے اپنے ملک میں بیٹھ کر دنیا بھر میں کہیں بھی ہونے والی نقل و حرکت کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔ بغیر پائلٹ کے ڈرون طیاروں کے ذریعے امریکا نے پاکستان کے شمالی علاقوں میں جو تباہی مچائی تھی اور اس میں ہزاروں بے گناہ لوگ شہید ہوئے تھے، اسے قبائلی باشندے زندگی بھر نہیں بھول سکتے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اس موقع پر یہ کہنا ضروری سمجھا کہ ہمیں بہرصورت اسرائیل کا تحفظ کرنا ہے۔ اسرائیل کے بجائے ایران کو شرپسند ملک قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس نے بہت لوگوں کو مارا ہے۔ امریکی انٹیلی جنس کی اس رپورٹ سے ڈونالڈ ٹرمپ نے سو فیصد اختلاف کیا کہ ’’ایران اب اچھا بچہ بن گیا ہے‘‘۔ ایران اچھا بچہ بنے نہ بنے۔ ویتنام سے عراق اور افغانستان تک بدترین رسوائی کے تناظر میں امریکا کو خود اچھا بچہ بن جانا چاہئے تاکہ عالمی برادری کچھ عرصہ تو امن و سکون کے ساتھ گزار سکے۔ لیکن ڈونالڈ ٹرمپ عراق میں بھی امریکی فوجیں رکھ کر ایران اور مشرق وسطیٰ کی نگرانی کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭