’’ڈر‘‘

 

’’بابا بابا…!‘‘ منیب الرحمان کی آواز میں گھبراہٹ تھی ’’یہ دیکھیں، یہ دیکھیں۔‘‘
’’کیا دیکھوں بھئی؟‘‘ سیلانی نے لیپ ٹاپ پر سے نظریں ہٹائے بغیر پوچھا۔
’’یہ دیکھیں ناں، فوجی اسے جیپ سے باندھ کر کھینچ رہے ہیں… بابا! اس کا خون نکل بھی رہا ہے۔‘‘ منیب نے سیل فون سیلانی کے سامنے کر دیا۔ سیل فون پر کوئی ویڈیو کلپ چل رہا تھا، جس میں ایک بے حس و حرکت جسم کے پاؤں میں رسیاں باندھ کر جیپ سے کھینچا جا رہا تھا۔ جیپ آہستہ آہستہ چل رہی تھی، جس کے ساتھ بندوق بردار فوجی اس شان سے چل رہے تھے اور تصاویر بنوا رہے تھے، جیسے کبھی راجے مہاراجے اور فرنگی کلکٹر محفوظ مچانوں سے شیر مارنے کے بعد اس کی لاش کے ساتھ تصاویر بنواتے تھے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ ان گیدڑوں نے بھی کسی شیر کا شکار کیا تھا، اب اس کی لاش گھسیٹتے ہوئے اکڑ کر چل رہے تھے اور اپنی بہادری دکھا رہے تھے۔
’’بابا! یہ کون ہے؟‘‘
’’بیٹا! یہ مقبوضہ کشمیر کی ویڈیو ہے، یہ یقینا کوئی کشمیری مجاہد ہوگا۔‘‘
’’ بابا! یہ کشمیری ڈرتے نہیں ہیں؟‘‘ منیب الرحمان کا یہ سوال سیلانی کو بیس برس پیچھے لے گیا۔ یہی سوال اس نے بادامی آنکھوں والے اس نوجوان سے پوچھا تھا، جو خونیں لکیر پار کرکے پہنچا تھا۔ جواب میں اس کے ہونٹوں پر دل آویز مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔ وہ مسکرائے جا رہا تھا اور سیلانی دلچسپی اور حیرت سے اس کے سرخ و سپید چہرے کی جانب دیکھ رہا تھا۔ وہ بھی جیسے سیلانی کی کیفیت سے محظوظ ہو رہا تھا۔
’’شاید آپ بات کرنا نہیں چاہتے؟‘‘
’’نہیں بھائی، ایسی بات نہیں ہے، میں سوچ رہا ہوں کہ کیا بتاؤں۔‘‘
اور پھر وہ اس کم گو جیکی کی طرح ہنس پڑا، جسے ریس جیتنے کے بعد میڈیا نرغے میں لے لیتا ہے۔ لحظہ بھر چپ رہنے کے بعد اس نے عجیب بات کہی۔ کہنے لگا ’’ڈر لگتا ہے، کیوں نہیں لگتا، لیکن غلامی کی زندگی سے ڈر لگتا ہے‘‘۔
اس کشمیری مجاہد سے سیلانی کی ملاقات 1998ء میں اس وقت ہوئی، جب وہ جماعت اسلامی کے اجتماع کے بعد کراچی کے صحافیوں کے ساتھ آزاد کشمیر کے دورے پر پہنچا تھا۔ اس دورے میں کشمیر کی سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ بندوق اٹھانے والے نوجوانوں سے ملاقات بھی شامل تھی۔ تب تحریک آزادی کشمیر زوروں پر تھی۔ کشمیری نوجوانوں نے قلم کتابیں چھوڑ کر کلاشنکوفیں اٹھا لی تھیں۔ یہاں پاکستان میں بھی مجاہدین کی حمایت و مدد کا جذبہ دیدنی تھا۔ اس کام میں جماعت اسلامی سرفہرست تھی۔ اسلامی جمیعت طلباء کالجوں، یونی ورسٹیوں میں جہاد کشمیر نمائش لگایا کرتی تھی، جس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے پوسٹر، تصاویر آویزاں کی جاتیں۔ لاؤڈ اسپیکروں پر سیلم ناز بریلوی کے ترانے لگا دیئے جاتے، پھر بھلا کو ن ہوتا جو کھنچ کر نہ چلا آتا۔ ان دنوں یوں لگتا تھا کہ کشمیر کی آزادی چند روز کی بات ٹھہری ہے۔
اجتماع کے بعد صحافیوں کے قافلے نے پہلا پڑاؤ حزب المجاہدین کے کیمپ میں ڈالا۔ نصف شب کا وقت ہو گا جب شدید بارش میں اقبال کے شاہینوں نے مہمانوں کا استقبال کیا۔ وہیں کیمپ میں اس خوبصورت اور دراز قامت نوجوان سے ملاقات ہوئی تھی، جس کی صورت حیرت انگیز طور پر معروف آسٹریلوی کرکٹر کم ہیوز سے مشابہہ تھی۔ کشمیریوں کے بال عموماً گھنگھریالے
نہیں ہوتے، لیکن اس کے بال بھی لچھے دار اور قدرے سنہری تھے اور کشمیریوں کی رنگت تو ویسے ہی سرخ و سپید ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں پتہ چلا تھا کہ وہ دس روز پہلے ہی وادی سے آیا ہے۔ یہ بات جاننے کے بعد سیلانی اور دو تین دوستوں نے اسے گھیر لیا۔ وہ شرمیلا اور کم گو نوجوان تھا۔ اسے گفتگو کا ڈھب بھی نہیں آتا تھا۔ دوستوں نے پوچھا کہ کبھی بھارتی فوجیوں سے مڈبھیڑ ہوئی؟ تو اس نے فقط اثبات میں سر ہلانے پر اکتفا کیا۔ پھر اس سے کہا گیا کہ کچھ بتاؤ تو سہی، جس پر کہنے لگا جنگل میں آمنا سامنا ہوا۔ ہم نے دو طرف سے فائر کھول دیا۔ ان کے تین فوجی مارے گئے اور ہمارا ایک ساتھی زخمی ہوا۔ اتنے ’’مفصل‘‘ جواب پر سیلانی اور اس کے دوست بس مسکرا کر ہی رہ گئے۔ مزید حال احوال لیا اور بندوق اٹھانے کی وجہ پوچھی، ذرا کریدا، جس کے بعد اس نوجوان نے بتایا کہ کشمیر میں آپ جان بچا کر رہ سکتے ہیں، لیکن عزت بچا کر نہیں جی سکتے۔ میں اور میری فیملی عام سے غیر سیاسی، غیر جہادی لوگ تھے۔ والد صاحب پوسٹ آفس میں ملازم تھے اور کام سے کام رکھتے تھے۔ ہم دو ہی بھائی تھے۔ بڑا بھائی مجھ سے دو سال ہی بڑا تھا۔ اس کا بھی کسی جہادی تحریک سے کوئی عملی تعلق نہیں تھا۔ ایک دن اسے بھارتی فوجی ساتھ لے گئے کہ میجر صاحب نے بلایا ہے۔ میجر صاحب نے اسے سامنے بٹھایا اور چائے پلانے کے بعد مخبر کا کام کرنے کے لئے کہا۔ بھائی نے انکار کیا کہ سر یہ میرے بس کی بات نہیں۔ مجھ سے ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ لیکن وہ بضد ہو گیا۔ تیسرے دن پھر اسے فوجی لے گئے۔ اس بار ڈرایا دھمکایا بھی اور دو دن بعد سوچنے کے لئے دیئے۔ لیکن اس سے پہلے ہی بھائی لاپتہ ہو گیا اور اگلے روز اس کی لاش ایک پہاڑی نالے سے ملی۔ اسے گولی مار کر پھینک دیا گیا تھا۔ بھائی کی موت کے تین دن بعد والدہ کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ بھی چل بسیں۔ جس کے بعد ان کے جنازے کو کاندھا دینے کے بعد میں نے کاندھے سے بستہ اتار دیا اور کلاشن کوف لٹکا لی۔ میں مجاہدین سے آملا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمیں پتہ ہے ہم نے جلد ہی مر جانا ہے، اس لئے ہمیں مرنے سے ڈر نہیں لگتا۔ جو مرنا نہیں چاہتا اسے مرنے سے ڈر لگتا ہے اور ڈرتے ڈرتے مر وہ بھی جاتا ہے۔ کشمیریوں نے ڈر خوف کی چادر اتار پھینکی ہے۔ اب انہیں مرنے سے ڈر نہیں لگتا۔ اور ’’بے وقوف‘‘ انہیں موت سے ڈراتے ہیں۔
سیلانی اسی بے وقوف کے دورے کا حال احوال لے رہا تھا کہ اس کے صاحبزادے منیب نے موقع غنیمت جان کر یوٹیوب دیکھنے کے لئے اس کا فون لے لیا۔ وہ یوٹیوب پر یوم کشمیر کی ویڈیوز دیکھ رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ سیلانی کو بتاتا بھی جا رہا تھا۔ یہ اسی نے بتایا تھا کہ اس بار برطانوی پارلیمنٹ میں بھی کشمیر کانفرنس ہوئی ہے۔ سیلانی منیب کی دخل اندازی سے اپنے کام پر توجہ
نہیں دے پارہا تھا۔ اس نے اسے کمرے سے باہر بھیج دیا اور بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کی تین روز قبل کشمیر میں کی جانے والی گیدڑ بھبکیاں سننے لگا۔ گجرات کے قصاب نے تین روز پہلے ہی مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا تھا اور یہاں وہ کشمیریوں سے خطاب میں فخریہ بتا رہا تھا کہ منفی پانچ درجہ حرارت میں بھی کشمیری کھلے میں اس کے استقبال کے لئے کھڑے رہے تھے… سیلانی یہ سن کر مسکرا دیا۔ مودی کو اپنے استقبال کے لئے لائے گئے کشمیری نظر آگئے، لیکن اسے سبز پرچموں میں لپٹے وہ جنازے دکھائی نہیں دیئے، جنہیں کاندھوں پر اٹھائے ہزاروں لوگ آزادی آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے شہید کو الوداع کرتے ہیں… اسے موبائل فون کمپنیوں کے ٹاوروں پر پڑوسی ملک کے سبز پرچم لہراتے نہیں ملے، جن کے بارے میں Rising Kashmir میں سنتوش بھارتیہ نے لکھا تھا کہ مودی جی! کشمیر ہمارے ساتھ ہے، لیکن کشمیری ہمارے ساتھ نہیں ہیں… مودی نے سنتوش بھارتیہ کا یہ سچ بھی نہیں سنا، کیوںکہ وہ سچ سننا ہی نہیں چاہتا… سیلانی مودی کی تقریر سننے لگا۔ یہاں بھی مودی نے وہی زبان استعمال کی، جو گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر وہ کرتا رہا ہے۔ مودی نے کشمیریوں کو خبردار کیا کہ جس نے بھی تشدد کا راستہ اختیار کیا، اسے مار دیا جائے گا۔ یہ کھلی دھمکی تھی، بلکہ سچ میں گیدڑ بھبکی تھی اور گیدڑ بھبکی بھی ان کے لئے جن کے دل موت کے خوف کے لئے بنجر ہو چکے ہیں۔ مودی ان کشمیریوں کو موت سے ڈرانے کی کوشش کر رہا تھا، جو غلامی کی زندگی جیتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ موت کا خوف تو انہوں نے برسوں نہیں، دہائیوں پہلے اتار پھینکا تھا۔ کشمیر اب بھارت کو چرکے لگا رہا ہے۔ ہر اس شرط پر پورا اتر رہا ہے، جو گوریلا جنگ کے لئے لازمی ہوتی ہے۔ کشمیری مجاہد چھوٹے چھوٹے زخم دے کر نئی دہلی سے نیند چھین چکے ہیں۔ سکون غارت کر چکے ہیں۔ اس خطے میں بھارت نے چھ لاکھ سے زائد فوجی رکھے ہوئے ہیں۔ گھر میں چھ دن کے لئے چھ مہمان آجائیں تو سارے گھر کا بجٹ ادھر ادھر ہو جاتا ہے۔ یہاں چھ لاکھ فوجی تعینات ہیں۔ ان کے راشن سے لے کر آنیوں جانیوں تک، دکھ بیماری کی چھٹی سے زخموں کی مرہم پٹی اور ’’سورگباش‘‘ ہونے والوں کے اہل خانہ کے لئے سرکاری امداد تک… یہ اخراجات اربوں نہیں، کھربوں ڈالر میں چلے جاتے ہیں۔ کشمیری مجاہدین کی یہی بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے بھارت کی چھ لاکھ فوج مصروف کر رکھی ہے۔ بھارت چھ فوجی بھی کم کرنے کا رسک لینے کو تیار نہیں… سیلانی نے مودی کے دورے کا مزید حال احوال لینے کے لئے کشمیری اخبارات کا رخ کیا تو سامنے ہی روزنامہ چٹان کے صفحہ اول پر دو کالمی سرخی دہلی سرکار کا منہ چڑا رہی تھی۔ ’’چٹان‘‘ کے مطابق تمام کوششوں کے باوجود کشمیر میں عسکریت پسندی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ صرف 2018ء میں 198 نوجوانوں نے بستہ چھوڑ کر کلاشن کوف اٹھائی اور عسکریت پسندوں سے جا ملے۔ اس حوالے سے جنوبی کشمیر سب سے آگے رہا… بھارتی وزیر اعظم کی دھمکی کا جواب یقینا اسی خبر میں تھا۔ مودی جی جنہیں موت سے ڈرا رہے تھے، وہ ایسی غلامی میں رہنے سے یکسر انکاری تھے۔ انہوں نے خود ہی کلاشن کوف اٹھالی تھی۔ اب وہ ڈرنے والے نہیں، ڈرانے والے تھے… سیلانی یہ سوچتے ہوئے یوم یکجہتی کشمیر پر دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں کے ویڈیو کلپس دیکھنے لگا اور حریت پسند کشمیریوںکو نعرئہ مستانہ لگاتا ہوا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭

Comments (0)
Add Comment