ڈاکٹر فرمان فتحپوری
قمر زمانی نے بیس مئی کے خط کے ساتھ ہی اپنی نسبت، وہ مضمون بھی لکھ بھیجا، جس کی فرمائش شاہ دلگیر نے نقاد کے ان قارئین کو مطمئن کرنے کے لئے کی تھی، جو قمر زمانی کے عورت ہونے میں شبہ کر رہے تھے۔ قمر زمانی کا یہ مضمون نقاد کے جون 1917ء کے ابتدائی صفحوں میں شائع ہوا ہے۔ اس پر بھی نگاہ ڈالتے چلئے:
کچھ اپنی نسبت
مجھے کوئی خلش تو نہ تھی، لیکن ہاں کچھ ضرور تھا کہ میں نقاد میں مضمون تو لکھتی ہوں۔ مگر دیکھئے لوگ کیا کہتے ہیں۔ ہر چند مجھے تفصیل تو نہیں معلوم کہ کس نے کیا کہا اور اس کی تو خبر ہی نہیں ہو سکتی کہ کس نے کیا خیال کیا۔ تاہم جو کچھ مجھے معلوم ہو سکا ہے، وہ عین توقع کے موافق ہے اور مجھے ذرا بھی حیرت نہیں۔
سب سے پہلا خیال جو پبلک علی الخصوص مردوں کو ہوسکتا تھا، وہ یہی ہے کہ میں عورت نہیں ہوں۔ کیونکہ کسی عورت کا ایسے مضامین لکھنا بالکل نئی بات ہے اور کس طرح ذہن میں نہیں آتی۔ اس میں کلام نہیں کہ یہ خیال مردوں کو قائم کرنا چاہئے اور قدرتاً ان کو فوراً یقین کرلینے سے گریز ہونا چاہئے۔ لیکن کیا میں یہ سوال کرنے کی جرأت کر سکتی ہوں کہ عورت اگر ایسے مضامین نہیں لکھ سکتی تو کیا مرد عام طور سے لکھ سکتے ہیں۔ پھر جب مردوں میں صرف دو چار ایسے نکل سکتے ہیں تو اگر عورتوں میں اس وقت تک صرف ایک فرد ایسا نظر آئے تو کیا گناہ ہے۔ پھر محض قیاس پر اعتبار کر کے حیقیت سے انکار کر دینا، یہ کیسا فلسفہ ہے۔ موجود فلسفہ استقرا محض ہے اور کچھ نہیں تو کیا کوئی مرد اس کا دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کو سارے جہاں کی عورتوں اور ان کے مبلغ کا حال معلوم ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ان کا یہ یقین کرلینا کہ میں عورت نہیں ہوں، صرف اس دلیل کی بنیاد پر کہ آج تک کوئی عورت ایسا لکھنے والی ان کو نظر نہیں آئی، کیسا غلط استدلال ہے۔
میں پہلے ہی جانتی تھی اور میں نے ظاہر بھی کر دیا تھا کہ ’’مردوں کو اپنی ان ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہے، جن کا احساس ہی تفریق زن و مرد کے احترام کو قائم رکھ سکتا ہے‘‘۔ اور آخر وہی ہوا، جس کا مجھے اندیشہ تھا۔ بہرحال مجھے ان حضرات سے کوئی شکوہ نہیں، جنہوں نے مجھے اپنی جنس میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ میںکیا کرتی، اگر وہ یہ کہہ دیتے کہ قمر زمانی نہ مرد ہے نہ عورت، بلکہ کسی تیسری جنس میں سے ہے۔ اور نہ مجھے ان رسائل سے کوئی ملال، جنہوں نے اپنے پندار میں میری سخت توہین کی ہے۔ کیونکہ وہ اس سے زائد اور کیا کر سکتے تھے اور اپنی کمزوریوں کی پردہ پوشی کا طریقہ اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا تھا۔ لیکن اگر مجھے خیال ہے تو صرف ان چند حضرات کا، جن کی نسبت بخدا مجھے کبھی خیال بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ ایسا سمجھیں گے، اور اگر سمجھیں گے تو اس کا اظہار کریں گے۔ سو اس میں سارا قصور میرا ہے کہ میں نے کیوں کسی کی نسبت کوئی غلط خیال قائم کر لیا تھا اور غالباً میرے لئے یہی سزا کافی ہے۔
میرے پاس لکھنؤ سے ایک خاتون کا خط آیا تھا، جس میں انہوں نے نہایت شوخ انداز سے میرے حالات دریافت کئے تھے۔ اگر مجھے یہ یقین ہوتا کہ واقعی وہ تحریر انہیں خاتون کی ہے، جن کا نام ظاہر کیا گیا ہے تو میں ایسا خشک جواب نہ دیتی۔ لیکن چونکہ مجھے علم تھا کہ خاتون کے پردے میں خود ان کے میاں ہیں۔ (خاتون نذر سجاد تھیں اور میاں سجاد حیدر یلدرم) اس لئے میں نے خود اعتنا نہیں کیا اور غالباً ان حضرات کے لئے یہ کافی تنبیہہ ہوگی۔ مدعا یہ ہے کہ جو حضرت مجھے عورت نہیں سمجھتے، وہ جدا توہین کرتے ہیں۔ اور جو جانتے ہیں، وہ ایسی نازیبا حرکتیں کرتے ہیں۔ لیکن آپ لوگ یہ یقین کرلیں کہ ایک دن وہ آنے والا ہے، جب میں زبردستی بچہ بچہ تسلیم کرالوں کہ ادب لطیف کا بہترین نمونہ اگر کوئی پیش کر سکتا ہے تو وہ صرف عورت کا دماغ ہے۔ اور اگر اخلاق کے لحاظ سے اب بھی کوئی فرد دکھایا جا سکتا ہے تو وہ آپ کو جنس ضعیف ہی میں ملے گا۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ لوگوں میں یہ خلش کیوں پیدا ہوئی۔ اگر آپ نے مجھے مرد ہی سمجھا تو بھی کیا۔ آپ نفس مضامین کو دیکھئے۔ اس سے کیا بحث کہ ان کا لکھنے والا کون ہے۔ اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ مجھے عورت یقین کرلینے کے بعد آپ میرا امتحان لیں تو آپ کو ابھی سے باور کرلینا چاہئے، کہ میں حریف آزمائش نہیں ہوں۔ اگر میں زندہ رہی جس کی امید کم ہے تو آپ کو خود اس کا یقین ہو جائے گا۔ اور اگر آپ نے اس وقت کسر نفس کو دخل دیا اور خود اپنے تئیں اس قابل نہ سمجھا کہ ایک ناتواں ہستی کے مقابلے میں آئیں تو میں قصور وار نہ ہوں گی۔ نقاد چونکہ صرف ادبی رسالہ ہے، اس لئے میں مجبور ہوں کہ غیر متین و سنجیدہ لٹریچر سے بحث نہیں کرسکتی۔ ورنہ میں بتاتی کہ مذہب و سیاست کو ایک نسوائی دماغ بھی اس قدر سمجھ سکتا ہے، جتنا ایک مرد کا مغرور دماغ۔
اس امر کے متعلق یہ میری آخری تحریر ہے، اور اب میں مطلق اعتنا نہیں کروں گی کہ کوئی کیا سمجھتا ہے۔ اب آپ کو اختیار ہے۔ خواہ اپنا وقت مجھ کورا کہنے میں ضائع کیجئے یا کسی ایسی چیز کے حاصل کرنے میں، جس سے آپ بے بہرہ ہیں۔ اور جس کے نہ ہونے سے آپ کو بیکدار آتش حسد مشتعل کرنی پڑتی ہے۔ کیا اچھا ہو، اگر آپ میرے مضامین کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس بحث کو چھوڑ دیں کہ میں کون ہوں۔ جو کچھ میں ہوں، میں وہی رہوں گی۔ آپ کی حجت سے میں بدلنے سے رہی۔ پھر کیوں آپ اپنا اور میرا وقت ضائع کرتے ہیں۔ آپ اس قابل نہ سہی، لیکن آپ کے طبقہ میں دو چار تو اہل نکلیں گے۔ ان کی عزت تو نہ برباد کیجئے۔
’’قمر‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭