تحقیقات سے خوفزدہ مودی

بھارت میں الیکشن کے قریب آتے ہی نریندر مودی کی حکومت سخت ترین بوکھلاہٹ کا شکار ہوتی نظر آرہی ہے، کیونکہ اس کے پے درپے غلط اقدامات نے بھارتی عوام کو پہلے ہی حکومت سے مایوس کررکھا ہے، لیکن گزشتہ دنوں حکومت کی جانب سے بھارت کے سب سے قابل احترام اور پروقار ادارے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن میں کی جانے والی بے جا مداخلت نے اس بھارتی ایجنسی کے وقار اور کریڈیبلٹی کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سی بی آئی کے ڈائریکٹر آلوک کمار نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے، کیونکہ حکومت نے انہیں سپریم کورٹ کی جانب سے بحال کئے جانے کے واضح احکامات کے باوجود بطور سی بی آئی ڈائریکٹر کے کام نہیں کرنے دیا اور انہیں عہدے سے ہٹاتے ہوئے محکمہ فائر سروس سول ڈیفنس اور ہوم گارڈ کا ڈائریکٹر جنرل بنانے کے احکامات جاری کئے۔ لیکن آلوک نے اسے قبول کرنے کے بجائے اپنی نئی ذمے داریاں سنبھالنے سے انکار کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ دے دیا۔
قابل غور بات یہ ہے کہ بھارت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی حکومت نے ملک کی اس اہم ترین تفتیشی ایجنسی کے سربراہ کو بدعنوانیوں اور اپنے عہدے اور ذمے داریوں میں غفلت برتنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے عہدے سے ہٹایا ہو، لیکن کیا حکومت کے ان پر یہ الزامات درست ہیں اور ان کے پیچھے کوئی حقیقت ہے؟ یقینا ایسا کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ آلوک کمار کا شمار ایماندار اور قابل افسران میں کیا جاتا ہے اور سب ہی جانتے ہیں کہ ان پر اس قسم کے الزامات بدنیتی کی بنیاد پر عائد کئے گئے ہیں۔ اصل معاملہ کچھ اور ہے، دراصل آلوک کمار کی جانب سے رافیل جنگی طیاروں کی فرانس سے خریداری کے سلسلے میں کی جانے والی مبینہ بدعنوانیوں کے بارے میں نریندر مودی کے دفتر کے خلاف تحقیقات شروع کی جانے والی تھی۔ جس پر نریندر مودی نے بدحواس ہوکر انہیں عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور نریندر مودی نے یہ فیصلہ کرتے ہوئے یہ بھی فراموش کر دیا کہ آلوک کمار اپنی سرکاری ملازمت کی مدت پوری کرکے کچھ ہی روز بعد ریٹائر ہونے والے تھے۔
واضح رہے کہ آلوک کمار نے نریندر مودی کے منظور نظر گجرات سے تعلق رکھنے والے سی بی آئی افسر راکیش استھان کے خلاف رشوت وصولی سے متعلق درج ایک معاملے پر تحقیقات کا فیصلہ کیا تھا، جبکہ اس راشی افسر کے خلاف پولیس میں ایف آئی آر بھی درج کرائی تھی۔ نریندر مودی کی ہدایت پر راکیش استھان نے آلوک کمار کے خلاف جوابی اقدام کے طور پر ان پر بدعنوانیوں کے الزامات عائد کرتے ہوئے سینٹرل ویجی لینس کمیشن کو ایک خط تحریر کیا تھا، لیکن جب سپریم کورٹ نے اس معاملے کو دیکھا تو آلوک سے متعلق راکیش استھان کے الزامات کو رد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اس معاملے کی 77 دنوں تک سماعت کی اور آخرکار 9 جنوری 2019ء کو اپنا فیصلہ دیتے ہوئے آلوک کمار کو ان کے عہدے پر بحال کرتے ہوئے حکومت کو حکم دیا کہ وہ سات دنوں کے اندر آلوک کمار کے مستقبل کا فیصلہ کرے۔
آلوک کمار نے اپنا چارج سنبھالتے ہوئے ابھی اپنا کام درست طریقے سے شروع بھی نہیں کیا تھا کہ ایک تین رکنی کمیٹی نے جسے نریندر مودی نے قائم کیا تھا، انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ واضح رہے کہ تین رکنی اس کمیٹی کے دو ارکان نے آلوک کمار کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی حمایت کی تھی، جبکہ تیسرے رکن نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اس تین رکنی کمیٹی میں وزیر اعظم خود، چیف جسٹس سپریم کورٹ اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر ملک ارجن کھڑگے شامل تھے۔ ملک ارجن نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ آلوک کو ان کے عہدے سے ہٹانے سے قبل اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا جائے، لیکن ان کی بات کو مسترد کر دیا گیا۔
کانگریس نے آلوک کمار کو ان کی اچھی شہرت کے باوجود عہدے سے ہٹانے پر حکومت پر سخت تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ نریندر مودی نے آلوک کمار کو ان کے عہدے سے ہٹانے میں اس لئے عجلت سے کام لیا ہے کہ آلوک رافیل طیاروں کی خریداری میں کی جانے والی مبینہ بدعنوانیوں کی تحقیقات شروع کرنے والے تھے اور حکومت اس سے سخت خوفزدہ تھی۔ چنانچہ سپریم کورٹ کی بحالی کے احکامات کے باوجود آلوک کمار کو ان کے عہدے پر بیس دن بھی کام نہ کرنے دیا گیا۔ کانگریس کے ایک اور رکن پارلیمان اور معروف وکیل کپل سہل نے اپنے ایک بیان میں حکومت کے اس فیصلے پر کڑی تنقید کی ہے اور اس فیصلے کو حکومت کے سخت خوف سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ حکومت نے آلوک کمار ورما کو ان کے عہدے کی مدت کے اختتام سے قبل جس انداز میں سرعت سے فارغ کیا ہے، اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حکومت رافیل طیاروں کی خریداری میں ممکنہ طور پر کی جانے والی بدعنوانیوں کی تحقیقات سے سخت خوفزدہ تھی اور اب بھی ہے۔ انہوں نے نریندر مودی کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آلوک کمار ورما کو ان کے عہدے سے انتہائی عجلت میں اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے اس لیے ہٹایا ہے کہ پنجرے میں موجود طوطا کہیں اڑ نہ جائے، کیونکہ نریندر مودی کو یہ ڈر تھا کہ اگر پنجرے کا طوطا آزاد ہوگیا تو پھر وہ اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی تمام سرگرمیوں کا راز فاش کر دے گا۔ چنانچہ طوطے کو پنجرے میں ہی قید رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ فرانس سے رافیل طیاروں کی خریداری میں کی جانے والی مبینہ بدعنوانیوں پر نریندر مودی حکومت سخت خوفزدہ ہے، کیونکہ مودی حکومت نے جن شرائط اور مہنگی ترین قیمت پر رافیل طیاروں کی خریداری کا سودا کیا ہے، وہ انتہائی حیران کن ہے۔ جبکہ حکومت اپوزیشن جماعت کانگریس کی جانب سے اس سنگین ترین کرپشن پر اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دینے پر بھی تیار نہیں۔ گزشتہ دنوں لوک سبھا میں وزیر دفاع متھامن نرملا سے جب رافیل طیاروں کی انتہائی زیادہ قیمت پر خریداری کے معاملے کی وضاحت کرنے کا کہا گیا تو انہوں نے اس پر وضاحت دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ ایک قومی راز ہے، جس پر سے پردہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ جبکہ اصل وجہ یہ ہے کہ نریندرمودی کی حکومت نے فرانسیسی رافیل طیاروں کی تین گنا زیادہ قیمت پر خریداری میں کک بیک وصول کیا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ حکومت اس معاملے پر بات کرنے یا اس کے بارے میں کسی قسم کی معلومات فراہم کرنے پر رضا مند نہیں ہے۔
بھارت میں ہتھیاروں کی خریداری میں کمیشن اور کک بیک کی وصولی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ بھارت کی تاریخ میں آج تک کوئی دفاعی سودا ایسا نہیں ہوا، جس میں رشوت، کمیشن اور کک بیک وصول نہ کی گئی ہو۔ عالمی ہتھیار ساز اداروں کو اس بات کا ادراک ہے کہ اگر بھارت کو کوئی ہتھیار فروخت کرنا ہو تو اس میں کمیشن اور رشوت کی فراہمی ایک لازمی امر ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر حکومت اور ڈیفنس بیورو کریسی ہتھیاروں کی خریداری کو حتمی شکل یا پھر منظوری دیتی ہی نہیں۔ ماضی میں اسرائیل سمیت کئی بین الاقوامی ہتھیار ساز اداروں کو بھارت میں ہتھیاروں کی خریداریوں میں رشوت اور کمیشن کی پیشکش کے بعد بلیک لسٹ کیا جا چکا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ فرانس کی جانب سے بھارت میں تیار کی جانے والی اسکارپئن کلاس آبدوزوں میں اب تک Black Shark نامی تارپیڈوز نصب نہیں کئے جاسکے ہیں، جس کی وجہ کمپنی کی طرف سے ان تارپیڈوز کی خریداری میں کی جانے والی کمیشن، رشوت اور کک بیک کی پیشکش کو بتایا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment