امریکی سینیٹ نے شام اور افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے ایک ترمیم منظور کی ہے۔ جس کے مطابق سینیٹ یہ محسوس کرتی ہے کہ امریکا کو اس وقت شام اور افغانستان میں دہشت گرد گروپوں سے خطرہ ہے۔ لہٰذا امریکی فوجیوں کا وہاں سے انخلا اب تک کی پیش رفت اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے فیصلے پر تنقید کے حوالے سے ترمیم کو سینیٹ نے چھبیسں کے مقابلے میں ستر ووٹوں سے منظور کر لیا ہے۔ ترمیم کے مطابق دونوں ملکوں سے امریکی دستوں کا انتہائی عجلت میں انخلا سخت مشکل سے حاصل ہونے والی کامیابیوں اور امریکی سلامتی کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ امریکی سینیٹ کی جانب سے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے منصوبے میں ترمیم کی منظوری سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ امریکا کے بہت سے عناصر اپنی اسلام دشمنی اور مسلم کشی کے رویے پر اب تک قائم ہیں اور وہ کسی مسلمان ملک کو امن و سکون کے ساتھ زندہ نہیں رہنے دیں گے۔ شام میں امریکی، روسی اور ایرانی فوجیوں کی موجودگی ایک علیحدہ معاملہ ہے، لیکن افغانستان میں اُنیس سال تک جھک مارنے اور بے مقصد جنگ لڑنے سے خود امریکا کو شدید جانی و مالی نقصانات اور بدترین شکست کی ذلت و رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ اسی بنا پر ڈونالڈ ٹرمپ جیسے شدت پسند امریکی صدر کو یہ کہنا پڑا کہ وہ مزید نقصان برداشت کرنے کے قائل نہیں اور اپنے فوجیوں کو افغانستان سے واپس بلانا چاہتے ہیں۔ افغانستان کے حوالے سے عالمی رائے عامہ ملک میں عوام کی اپنی حکومت کے قیام کی حامی ہے، جبکہ طالبان بھی اُنیس سال کی طویل جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ چنانچہ وہ امریکہ اور افغان قبائلی فریقوں سے مذاکرات پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ قطر اور مختلف مقامات کے بعد اب ان کے روس میں سابق افغان صدر حامد کرزئی کی قیادت میں چالیس رکنی وفد سے مذاکرات ہو رہے ہیں، جس کے بعد مذاکرات کے مخالف اور موجودہ صدر اشرف غنی ایک بار پھر تنہا رہ گئے ہیں۔ وہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے جلد انخلا کا فیصلہ واپس لیں۔ ماسکو مذاکرات کی خوش آئند بات یہ ہے کہ طالبان اور دوسرے افغان سیاسی رہنمائوں نے مل کر نماز بھی ادا کی اور سابق افغان صدر حامد کرزئی پہلی بار طالبان نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات میں شریک ہوئے۔ طالبان کے وفد میں ان کی حکومت کے سابق وزیر خارجہ ملا وکیل احمد متوکل اور پاکستان میں سابق طالبان سفیر ملا عبد السلام ضعیف کے علاوہ ہرات کے سابق گورنر اور وزیر جنرل اسماعیل خان، کابل سے استاد سیاف، جمعیت اسلامی کے عطا محمد نور، حزب وحدت کے استاد محقق اور افغانستان کے مختلف قبائلی عمائدین شریک ہوئے۔ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ ماسکو مذاکرات میں انہوں نے اپنی پارٹی کا بھی نمائندہ بھیجا ہے، جبکہ شمالی اتحاد کی نمائندگی یونس قانونی کر رہے ہیں۔ وسیع البنیاد ماسکو مذاکرات کی ایک خاص بات یہ ہے کہ طالبان وفد نے ملک کے آئین کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسے بیرونی طاقتوں کی جانب سے افغان عوام پر مسلط کیا گیا ہے اور یہ امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ طالبان اقتدار میں آکر دستور کو اسلامی سانچے میں ڈھالیں گے اور اسے علما وضع کریں گے۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ طالبان افغانستان سے پوست کی کاشت ختم کریں گے۔ یاد رہے کہ طالبان کے سابقہ دور حکوت میں افغان پر اسلامی و شرعی قوانین نافذ تھے اور ان کے دور میں ملک سے پوست (افیون) کی کاشت بالکل ختم کردی گئی تھی، جس سے ہیروئن اور دیگر خطرناک منشیات تیار ہوکر دنیا بھر میں پھیلائی جاتی تھیں۔ امریکا نے افغانستان پر حملے اور قبضے کے بعد پوست کی کاشت دوبارہ شروع کرکے منشیات کی تیاری اور فروغ و فروخت سے بہت مال کمایا، جو اس کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے سمیت کئی فوجی اخراجات کیلئے استعمال کیا جاتا رہا۔ افغان طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ فوج سے خواتین کو نکال باہر کرنے اور جنگ میں جھونکنے کے بجائے انہیں تربیت دے کر طبی خدمات حاصل کریں گے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں امریکا کی سنجیدگی اور اخلاص پر شکوک و شبہات کے باوجود یہ امر طے شدہ ہے کہ اب افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا زیادہ دور کی بات نہیں اور وہاں جلد ہی طالبان کی قیادت میں ایک وسیع البنیاد حکومت قائم ہونے والی ہے۔
ہائے یہ ہوس حکمرانی!
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ میرا نواز شریف سے رابطہ ہے نہ زرداری سے، جبکہ حکومت سے رابطے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لئے مجھے نہیں معلوم کہ کس کی کس سے ڈیل ہورہی ہے یا کس کو ڈھیل دی جارہی ہے۔ تاہم حالات اس امر کی غمازی کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے رخصت ہونے میں سال دو سال نہیں کچھ مہینے باقی ہیں۔ بڑی دینی سیاسی قوت ہونے کی وجہ سے ہم بھی حکمرانی کا حق رکھتے ہیں۔ آخر ہمیں اتنا غیر اہم کیوں سمجھا جاتا ہے کہ اگر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میدان میں نہ ہوں تو ہم حکومت نہیں سنبھال سکتے۔ مولانا فضل الرحمن کا کمال یہ ہے کہ وہ مدتوں نواز شریف اور آصف زرداری سے یکساں تعلقات قائم رکھ کر بہرصورت حکومت میں رہے ہیں۔ اب اگر ان کا دونوں سے رابطہ نہیں تو اس کی دو وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ دونوں کی حکومتیں ختم ہوجانے کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن اب ان سے رابطے کی کوئی افادیت محسوس نہیں کرتے۔ دوسری وجہ یہ ممکن ہے کہ دونوں سیاسی رہنما، مولانا فضل الرحمان کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اور اب وہ انہیں منہ لگانے کو تیار نہیں ہیں۔ موصوف نے صرف آج اپنی حکمرانی کا حق نہیں جتایا ہے، بلکہ وہ ماضی میں امریکا سے بھی فرمائش کرچکے ہیں کہ انہیں پاکستان میں حکومت بنانے کا موقع دیا جائے تو وہ افغان و پاکستانی طالبان سے نمٹنے سمیت امریکی مفادات کی نگرانی کرسکیں گے۔ ایک عالم دین ہونے کی حیثیت سے مولانا فضل الرحمن سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اسلام عہدہ طلب کرنے والے کو ابتدا ہی میں نااہل قرار دے دیتا ہے تو وہ خود کس اسلامی اصول کے تحت اپنے اقتدار کی خاطر ہر وقت ہاتھ پیر مارتے رہتے ہیں؟ ٭
٭٭٭٭٭