ڈاکٹر فرمان فتحپوری
قمر زمانی کا مضمون ’’کچھ اپنی نسبت‘‘ ان کے خط مرقومہ 20 مئی کے ساتھ ساتھ گیا تھا۔ قمر زمانی نے اپنے خط میں دلگیر کے فیملی کے حالات پوچھے تھے اور مئی کے آخری ہفتے میں ملاقات کے وعدے کو شوال کے پہلے ہفتے یعنی ماہ جون پر ٹال دیا تھا۔ اس مکتوب نے شاہ دلگیر کو ایک طرح کی تشفی بخشی، لیکن مایوس بھی کیا۔ چنانچہ انہوں نے قمر زمانی کے خط کے جواب میں اب کے قدرے مختصر خط اس طرح کا لکھا۔
23 مئی
خدا کا شکر ہے کہ خط تو ملا۔ یہاں اس کی بھی امید نہ رہی تھی۔ آپ نامراد نہ رہیں۔ مگر میں تو یقیناً نامراد ہوں اور نامراد رہوں گا۔ ایسا ہی نظر آتا ہے۔ خیر اللہ کی مرضی۔
آخری مئی نوٹ کی تھی، اس کا کیا نتیجہ نکلا۔ شوال کا پہلا ہفتہ بھی اک خواب ہے، وہ بھی پریشان۔ میں اب بالکل مایوس ہوں اور کوئی امید نہیں رکھتا۔
مجھ گمنام خلائق اور رسوائے زمانہ کے حالات ہی کیا کہ آپ پوچھیں۔ آہ۔
میں رسوائے جہاں آرزو ہوں، یعنی حسرت ہوں
اور سوالات کا جواب زبانی دے سکتا ہوں، لیکن اس زندگی میں آپ سے ملنے کی کوئی توقع اب مجھے نہیں کہ عنقا را بلند است آشیانہ۔ ’’ایاز، قدر خود بشناس‘‘ کے مقولہ پر نظر ہوتی تو آج یہ صدمہ مجھے نہ ہوتا۔
اللہ رے آپ کی محبت کے طلسم جمیل کی سحر کاریاں
لیکن میں اس نامرادی میں خوش ہوں۔ خدا آپ کو خوش رکھے۔
’’دلگیر‘‘
قمر زمانی نے جب یہ دیکھا کہ شاہ دلگیر کی مایوسی حد سے بڑھی جا رہی ہے تو انہوں نے ان کو سنبھالنا چاہا اور ان کے خط کے جواب میں بلا تاخیر لکھا:
دہلی 30 مئی 17ء
دلگیر صاحب!
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں آپ کو کیا خیال کروں۔ کبھی تو آپ کی طرف سے میری توقعات اس قدر بلند قائم ہو جاتی ہیں کہ مجھے اپنی قسمت پر خود رشک آنے لگتا ہے۔ اور کبھی آپ ایسا رنگ بدلتے ہیں کہ اپنی جان سے بیزار ہو جاتے ہیں۔
خدا کے لئے تباہ نہ کیجئے اور مجھے دنیا میں کچھ کرنے دیجئے۔ اس سے زیادہ کیا کہوں۔ آپ کے 23 مئی کے خط نے تو مجھے بالکل بیکار کر دیا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں کر آپ کو سمجھاؤں۔ بہتر ہے آپ خط میں نہیں لکھتے نہ لکھئے۔ مگر زبانی کہئے گا یا یہ بھی نہیں۔
خدا کے لئے اس کے جواب میں مجھے اطمینان دلائیے کہ آپ مایوس نہیں ہیں۔
آپ کی
’’قمر‘‘
اس سے پہلے کے خطوں میں قمر زمانی نے شاہ دلگیر کو (جان قمر) ’’قمر نواز‘‘ اور پیارے دلگیر وغیرہ کے القاب سے مخاطب کیا تھا۔ اس دفعہ صرف ’’دلگیر صاحب‘‘ لکھا اور خود کو ان سے بھی زیادہ مضطرب و بے چین کیا۔ دلگیر کو قمر زمانی کے اس خط سے تازہ زندگی مل گئی۔ یاس، امید میں بدل گئی۔ چنانچہ انہوں نے اس خط کے جواب میں ایک طویل خط لکھا۔
4 جون 17ء
سمجھا دے تو ہی کچھ انہیں اے نگاہ یاس
اب کوسنے کا وقت نہیں ہے دعا کریں
میری جان!
ترسنے والی آنکھوں کا شکریہ تر قبول ہو کہ 30 مئی کا لکھا ہوا خط 2 جون کا ملا۔ پیارے دلگیر صاحب ہوا۔ کیوں نہ آپ کی خفگی کا احساس کروں۔ ہائے کیوں کر عرض کروں کہ اس خطاب سے مجھے کتنا صدمہ پہنچا۔
آپ تو مجھے بدنصیب دلگیر لکھا کیجئے۔ میری روح خوش ہوگی۔ دعائیں دوں گا۔ آپ مجھے پاگل سمجھئے۔ سچ کہتا ہوں 31 مئی کے بعد سے اپنے ہوش میں نہیں ہوں۔ خدا جانے مجھے کس نے کیا کر دیا ہے۔ اگر بہکی بہکی باتیں کرتا ہوں، لوگ دیوانہ سمجھتے ہیں اور حق بجانب ان کے ہے۔ اپنے ہی شعر کا مصداق ہو رہا ہوں۔
ہر بات پہ رونا ہے ہر بات پہ کڑھنا ہے
یہ دل بھی عجب جی ہے، یہ جی بھی عجب جی ہے
سنو، پیاری، قمر سنو۔ جوش دیوانگی میں وہ بات کہے دیتا ہوں جو شاید کسی اور حالت میں نہ کہہ سکتا۔ بات یہ ہے کہ آپ کو اس درجہ مہربان اور اس درجہ شفیق و غمگسار دلگیر دیکھ کر مجھے کسی طرح یقین نہیں آتا کہ یہ خواب نہیں واقعہ ہے۔
میں کم بخت ازلی نامراد ہوں اور اچھی طرح جانتا ہوں کہ ہمیشہ دلگیر رہنے کے لئے پیدا کیا گیا ہوں۔ اس لئے امید بھی میرا دل توڑ دیتی ہے۔ ہائے خود ہی کہا ہے اور بالکل سچ کہا ہے۔
ٹوٹ جاتا ہے یہ امید سے آہ
نامرادوں کا جی بھی کیا جی ہے
خدا نہ کرے کہ کسی سے امید قائم ہو اور پھر ٹوٹ جائے۔ آہ، آپ کی محبت کو دیکھ کر امید پیدا ہوئی اور اس کے پیدا ہونے سے ہی سمجھتا ہوں کہ نامراد رہوں گا۔ نامرادی قسمت میں نہ ہوتی تو یہ امید بھی پیدا نہ ہوتی۔ ہائے اپنے گزشتہ تجربے سے ڈرتا ہوں اور اپنی قسمت سے خائف ہوں۔ اور اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ اب یہ آرزو جان لینے کے لئے پیدا ہوئی ہے اور میں جان دوں گا۔
میں بھی جان دینے کو تیار ہوں دل کہتا ہے
جان لیتا ہے اگر عشق طر حداروں کا
ہائے آپ بھی کہتی ہوں گی کہ کس دیوانے سے پالا پڑا ہے۔ لیکن یاد رکھئے
ایسے دیوانے ریاض اور کہاں نازک طبع
وہ اگر پھول سے بھی ماریں تو فریاد کریں
سچ یہ ہے کہ آپ کی عدیم النظیر قابلیت و فقیدالمثال محبت اور میری مسلمہ بے کمالی و بدقسمتی ہی نے مجھے اس بات کا اب کامل یقین دلایا ہے کہ آپ کے قدموں تک (اف) رسائی پانا محال ہی نہیں جنون ہے۔ اور اس یقین کے بعد صرف ایک ارادہ میں نے کرلیا ہے جو وقت پر پورا ہوگا۔ کبھی سن لینا۔
ہائے اس وقت کے تصور سے میری روح کس قدر مسرور ہے۔ آپ بھی دعا کریں خدا وہ وقت جلد لائے اور میری مشکل آسان ہو۔ میں خود تباہ ہوں۔ کسی کو تباہ کیا کروں گا۔
جس کا دیوانہ ہوں جب تک وہ سمجھانے نہ آئے، میں کچھ نہیں سمجھ سکتا۔ آہ! زبانی کہانی سنانے کی عزت حاصل ہوتی ہے۔ اس حسرت میں جان نکلے گی
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
ہائے اللہ، کیوں کر اطمینان دلاؤں کہ میں مایوس نہیں ہوں۔ یہ اطمینان تو آپ ہی کے ہاتھ ہے، جس کی طرف سے خبر نہیں کیوں مجھے مایوسی ہے۔ اتنی تمنا تھی کہ قدموں میں گر کر جان نکلتی۔ لیکن آہ، یہ تمنا بھی دل ہی میں رہتی معلوم ہوتی ہے۔ اچھا نہ نکلے۔ جان تو نکلے گی یا یہ بھی نہیں۔
’’حسن‘‘ اب تک نہ آیا۔ تیسرا نمبر بغیر آپ کے ’’حسن‘‘ کے معر آرا رہے گا۔ خیر آپ کی مرضی۔ مرنے والا اب کس منہ سے شکایت کرے۔ خدا حافظ۔
جانباز
’’دلگیر‘‘۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭