زبان خلق

میں آپ کے مؤقر جریدے کے توسط سے وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خدمت میں چند گزارشات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ… میرا تعلق صوبہ خیبرپختون کے ایک پسماندہ اور انتہائی دور افتادہ علاقے، چترال سے ہے۔ میں نے پاکستان بنتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس کے بعد حکمرانوں کی لن ترانیاں اور ان کے نتائج کو بھی بچشم خود دیکھا ہے۔ وطن کی محبت اور اس سے دلی وابستگی کی وجہ سے اس کی سلامتی، استحکام سے شادمان اور اس کی غیر یقینی صورتحال سے پریشان رہتا ہوں۔
حضور والا! یہ زمین خدا کی ہے، وہ اپنی زمین میں امن و آشتی، اصلاح و فلاح، عدل و انصاف اور صداقت و امانت والوں کو اپنی نیابت (اقتدار) کے لیے منتخب فرماتا ہے، جن لوگوں میں بناؤ کی صلاحیت دیکھتا ہے، بگاڑ والوں کو ہٹا کر انہیں اقتدار سے نوازتا ہے اور اسی وقت تک نوازتا رہتا ہے جب تک کہ ان میں بناؤ کی صلاحیت موجود رہتی ہے، تحریک انصاف میں شاید بناؤ کی صلاحیت ہے کہ خدا وند کریم نے دیگر جماعتوں کے مقابلے میں اسے منتخب فرمایا۔ عوام پرامید تھے کہ جناب وزیر اعظم صاحب اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وطن میں امن و سلامتی، عدل و انصاف، معاشی سہولیات، مہنگائی کا خاتمہ، ظالموں کی حوصلہ شکنی اور مظلوموں کی داد رسی، کرپشن کی بیخ کنی، لوٹی ہوئی پیسوں کی واپسی، غیر ملکی پریشر کے سامنے نہ جھکنے کا عزم، کشکول توڑنے، قرضوں سے اجتناب اور سب سے بڑھ کر مدینہ جیسی ریاست کے اپنے وعدوں کو نبھانے کے لیے عملی قدم اٹھائیں گے۔ مگر چھ ماہ کے انتظار کے بعد بھی ان وعدوں میں سے کرپشن، کرپشن، چور چور اور چوروں کو جیل کی دھمکی کے سوا اور کوئی اصلاحی اقدام بموجب وعدہ نظر نہیں آرہا ہے، بلکہ اس کے الٹے اثرات روز بروز دیکھنے میں آرہے ہیں، اشیاء خوردنی، تیل، گیس اور بجلی کے نرخوں میں کئی گنا اضافہ اور اضافے پر اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دینی حلقوں کا گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، ملک دشمن عناصر کی حوصلہ افزائی، قادیانیوں کی فعالیت، فحاشی، عریانی کا بول بالا، ناشائستہ فلموں کی کثرت، اسرائیل کے لیے نرم گوشہ سمیت ایسے اقدامات دیکھنے میں آرہے ہیں، جن کا مدینہ کی ریاست میں تصور بھی محال ہے۔ کشکول کو توڑنے کے بجائے جوڑا گیا۔ حکومت کی اپنی صفوں میں صداقت اور خلوص کا فقدان نظر آتا ہے۔ اول خویش بعد درویش کے مصداق پہلے اپنی صفوں میں استحکام اور صفائی کے ساتھ ساتھ کرپٹ لوگوں کا احتساب ہونا لازمی ہے تاکہ مخالفین یا اپوزیشن کے الزام کا جواز باقی نہ رہے۔ بہتر حکمت عملی کے فقدان کے سبب بار بار کے یوٹرن سے حکومت کی سبکی ہو رہی ہے۔ آخر میں وطن کی سیاسی حالت زار پر لکھا ہوا چند پرانے اشعار آپ کے گوش گزار کرکے سمع خراشی ختم کرنا چاہتا ہوں۔
آتا نہیں نظر کوئی ملاح ایک ایسا
لگا سکے جو آج بیڑے کو کنارے
بنا رکھے ہیں اقتدار کو یہ میراث پدری
پنجاب کے لاڈلے یہ سندھ کے دلارے
پھیلائے ہیں یہ آج ملت بیضاء میں غلاظت
ہے بھی کوئی آج جو اس غلاظت کو نکھارے
یہ دین سے بے نیازی وہ حکام کی کم آمیزی
کرتے ہیں پیش یہ دور جہالت کے نظارے
یہ شب بھی ہو گریزان باطل بھی ہو لرزاں
کون ہے جو آج جلوہ خورشید کو پکارے
دعا ہے کہ خدا وند کریم آپ کو پاکستان سے غلاظت ختم کرنے، دین کی بالا دستی کیلئے کام کرنے، جہالت و ظلمت مٹانے اور اندھیرے میں اجالا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ جناب والا! یہ تھے خوگر حمد کا تھوڑا سا گلہ، امید ہے کہ توجہ فرمائیں گے۔ والسلام!! (ناجی خان ناجی، شوتخار تورکھو ضلع چترال)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment