کشمیر : تاریخ کا ایک ورق

کشمیر کے سلسلے میں ہمارے ہاں عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ پاکستانی فوج کے انگریز سربراہ جنرل ڈگلس گریسی نے قائد اعظمؒ کے حکم کے باوجود کشمیر میں فوج بھیجنے سے انکار کر دیا اور انگریز کمانڈر انچیف کی اس حکم عدولی کے باعث کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ لیکن ڈیڑھ دو سال پہلے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر اور ’’جنٹل مین بسم اللہ‘‘ اور ’’جنٹل مین الحمد للہ‘‘ جیسی خوبصورت شگفتہ نثر کے خالق کرنل (ر) اشفاق حسین نے ایک آن لائن جریدے میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں اس بیانیے کی نفی کی تھی۔ تب سے ہمارے ذہن میں یہ سوال کروٹیں لے رہا تھا کہ اگر ہم نے کشمیر جنرل گریسی کی وجہ سے نہیں کھویا تو پھراس واردات کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا ؟
گزشتہ دنوں علامہ محمد اسد ؒ کی کتاب ’’The Road to Macca Part II‘‘ ہمارے زیر مطالعہ رہی، جس کا اردو ترجمہ اکرام چغتائی صاحب نے ’’محمد اسد بندئہ صحرائی‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ اپنی خود نوشت کے اس دوسرے حصے میں 1932ء سے 1952ء تک کے حالات و واقعات علامہ نے خود بیان کیے، جبکہ کتاب کا باقی حصہ ان کی اہلیہ پولا حمیدہ اسد نے مکمل کیا۔ باب ہفتم میں انہوں نے 1948ء میں گرم رہنے والے محاذ کشمیر کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ علامہ محمد اسدؒ بیان کرتے ہیں کہ دسمبر 1948ء کے اواخر یا جنوری 1949ء کے اوائل میں میجر جنرل حمید سے اُن کی لاہور میں ملاقات ہوئی، جو اُن دنوں محاذ کشمیر پر تعینات تھے۔ دورانِ ملاقات کشمیر کا ذکر چھڑا تو جنرل حمید نے انہیں محاذ کے دورے کی دعوت دی۔ اگلے ہی ہفتے علامہ محاذ پر پہنچ گئے، جہاں پونچھ کے علاقے میں سیکٹر کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل صاحبزادہ یعقوب خان (سابقہ پاکستانی وزیر خارجہ) نے اُن کا پرتپاک استقبال کیا۔ صاحبزادہ یعقوب خان کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے کے بعد اگلے روز وہ ہیڈکوارٹر پہنچے، جہاں میجر جنرل حمید پہلے سے ہی اُن کے منتظر تھے۔ علامہ جب اُن کے پاس پہنچے، اُس وقت وہ اپنے کچھ ساتھی افسروں کے ہمراہ پونچھ کے ایک بڑے نقشے کا جائزہ لینے میں مصروف تھے۔ اس مصروفیت سے فراغت کے بعد میجر جنرل حمید نے اپنے مہمان کو جیپ میں بٹھایا اور پونچھ اور ہندوستان سے ملحقہ دیگر سرحدی علاقے دکھانے کے لیے چل پڑے۔
آگے کی داستان علامہ محمد اسد کی زبانی پیش ہے: ’’کچھ دیر ہماری جیپ شمال کی طرف چلتی رہی۔ چند میلوں کے بعد مغرب کی جانب مڑ گئی اور پھر بڑے سے نصف دائرے میں ذیلی سڑکوں سے ہوتی ہوئی پھر بڑی سڑک پر آ گئی۔ پونچھ کا شہر پیچھے رہ گیا۔ اب نظروں سے بھی اوجھل ہو چکا تھا۔ شاید اس نصف دائرے کے درمیان میں کہیں تھا۔ سڑک پر آمد و رفت کم تھی۔ اِدھر اُدھر فوجی ٹولیوں میں سڑک کے کنارے بیٹھے وقت گزار رہے تھے۔ ایک بار مخالف سمت سے آتی ہوئی فوجی گاڑی ہمارے پاس سے گزری۔ دائیں جانب دور فاصلے پر میں نے ایک گھنا جنگل دیکھا، لیکن وہاں بھی کوئی چلتا پھرتا نظر نہیں آتا تھا۔ یہاں سے آگے بڑھے تو میجر جنرل صاحب نے میری طرف منہ پھیرا اور پوچھا ’’کیا آپ نے اس جنگل میں کوئی دلچسپ چیز دیکھی؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’کچھ خاص نہیں۔ صرف درخت ہی تو ہیں‘‘۔ میجر جنرل صاحب مسکرائے ’’آپ کو دیکھنا چاہئے تھا۔ اس چھوٹے سے جنگل میں پاکستان کے توپخانہ کا نصف حصہ چھپا بیٹھا ہے۔ جو سڑک پونچھ اور اُس سے آگے جاتی ہے، وہ مکمل طور پر ہماری زد میں ہے اور جب ہم کل حملہ کریں گے تو پونچھ میں مقیم ہندوستانی فوجوں کا دونوں طرف سے رابطہ منقطع ہو جائے گا۔ چونکہ ہمارا توپخانہ اُن سے بدرجہا بہترہے، اس لیے وہ مزاحمت نہیں کر سکیں گے۔ وقت کی کمی کے باعث انہیں کمک بھی نہیں پہنچ سکے گی۔ ہم نے اب اپنے تمام فوجی دستوں کو یہاں تعینات کر دیا ہے۔ ان حالات میں ہندوستانی فوج ہتھیار ڈال دے گی یا تہس نہس ہو جائے گی۔ اس کے بعد ہم سری نگر کی طرف پیش قدمی کریں گے۔ ان شاء اللہ ہمارے لیے اب یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔‘‘ (ص 119-120)
لیکن پاکستانی توپخانہ اگلے روز وہ حملہ کر سکا، نہ جنرل حمید کے منصوبے کے مطابق سری نگر کی جانب پیش قدمی کی جا سکی۔ اس کی وجہ علامہ محمد اسد یوں بیان کرتے ہیں: ’’میجر جنرل حمید کی اس پُرامید گفتگو میں کوئی مبالغہ بھی نہیں تھا۔ جونہی ہم واپس ہیڈ کوارٹر پہنچے، انہیں ایک شدید دھچکا محسوس ہوا۔ اسی شام افواجِ پاکستان کے کمانڈر انچیف کے توسط سے انہیں وزیر اعظم لیاقت علی خاں کا بذریعہ تار ایک خفیہ پیغام موصول ہوا کہ اگلے روز حملے کا پروگرام منسوخ کر دیا جائے۔ کئی ہفتوں بعد مجھے اصل صورتحال کا علم ہوا۔ ہندوستان کی اعلیٰ فوجی کمان کو جونہی پاکستانی فوج کے اس متوقع حملے کا پتا چلا، اس نے فوراً اپنے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو تمام صورتحال اور اس کے مضر اثرات سے آگاہ کر دیا۔ پنڈت صاحب نے اسی وقت برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی سے فون پر رابطہ قائم کیا اور ان پر زور دیا کہ پاکستان کو ہر قیمت پر اس حملے سے روکنا ہو گا، کیونکہ اتنے مختصر وقت میں ہندوستان کے لیے بذریعہ ہوائی جہاز پونچھ کمک پہنچانا بھی ممکن نہیں۔ اگر انہیں پاکستانی افواج سے ہزیمت اٹھانا پڑی تو وہ احتجاجاً دولت مشترکہ کی رکنیت چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے (کہیں اور کا اشارہ روس کی جانب تھا)۔ اگر پاکستان کو اپنا حملہ منسوخ کرنے پر آمادہ کر لیا جائے اور ضلع پونچھ ہندوستان ہی کا حصہ رہے، تو وہ یعنی پنڈت صاحب اگلے سال کشمیری عوام کو استصوابِ رائے کا حق دے دیں گے۔ تمام رات نئی دہلی اور لندن کے درمیان ٹیلی فون کی تاریں بجتی رہیں۔ وزیر اعظم ایٹلی کو ہندوستان جیسا بڑا ملک ہاتھ سے نکلتا دکھائی دینے لگا۔ اس نے فوراً لارڈ مائونٹ بیٹن (جو 1948ء کے وسط میں گورنر جنرل بھارت کے عہدے سے مستعفی ہو چکے تھے) سے مشورہ کیا اور کہا کہ برصغیر کے امور مختلفہ کے تجربہ کار ماہر کی حیثیت سے وہ نہرو کی تشویش دور کرنے کی کوشش کریں اور اس مقصد کے حصول کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کریں۔‘‘ (ص 120)۔
لارڈ مائو نٹ بیٹن نے پاکستانی فوج کا وہ حملہ رکوانے کے لیے کسے استعمال کیا، یہ بھی ہماری قومی تاریخ کا ایک دلچسپ مگر تکلیف دہ باب ہے۔ علامہ محمد اسد اس بابت لکھتے ہیں: ’’چند گھنٹوں بعد لارڈ مائونٹ بیٹن نے پاکستان کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان کو فون کیا اور انہیں بتایا کہ پنڈت صاحب نے کشمیر ی عوام کو حق رائے دہی کا یقین دلایا ہے اور ایٹلی نے بھی اس حملے کی منسوخی کے لیے ذاتی طور پر درخواست کی ہے۔ اُس وقت لیاقت علی خان سوئے ہوئے تھے۔ ظفر اللہ نے انہیں جگا کر یہ پیغام پہنچایا اور انہیں ایٹلی کی معروضات پر خصوصی توجہ دینے کی استدعا کی۔‘‘ (ص 120)
لارڈ مائونٹ بیٹن نے اس خصوصی پیغام رسانی کے لیے سر ظفر اللہ خان ہی کا انتخاب کیوں کیا، اس کی وجہ علامہ محمد اسد یہ بیان کرتے ہیں: ’’اثر و رسوخ کے ان الجھیڑوں میں ظفر اللہ خاں نے جو کردار ادا کیا، اس کی تفہیم کے لیے اُن کے سابقہ واقعات اور مخصوص وفاداریوں کا مختصراً تذکرہ ضروری ہے۔ وہ جماعت احمدیہ کے سرگرم رکن تھے۔ تمام مسلمان اس جماعت کو دائرئہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ اس جماعت کے بانی قادیان کے مرزا غلام احمد تھے، جو ایک عالم دین کی حیثیت سے مشہور تھے۔ لیکن بعد میں ان کے ذہن میں یہ خیال جاگزیں ہوگیا کہ وہ خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں اور جس کام کو حضور اکرمؐ نامکمل چھوڑ گئے ہیں، اس کی ’’تکمیل‘‘ کے لیے انہیں مبعوث کیا گیا ہے۔ یہ ایک دعویٰ ہے جس کو تمام مسلمانوں نے چاہے وہ سنّی ہیں یا شیعہ، قطعی طور پر مسترد کر دیا۔ نص قرآنی سے یہ بالکل واضح ہے حضور اکرمؐ خاتم الانبیاء ہیں اور ان کے بعد کوئی پیغمبر کرئہ ارض پر مبعوث نہیں ہوسکتا۔ مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت اسلام کے بنیادی عقیدے کی نفی ہے۔ اس لیے وہ اور اُن کے پیروکار اسلام کی حدود سے باہر ہیں۔ ہندوستان کے برطانوی حکمران تحریک احمدیت کو بڑی پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے، کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے پیروکاروں کو ہمیشہ برسر اقتدار اسلامی یا غیر اسلامی حکومت کی اطاعت اور فرمانبرداری کی سخت تاکید کر رکھی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ برطانوی حکومت کے مقتدر اصحاب جماعت احمدیہ کے اراکین کی ہر طرح سے حمایت کرتے تھے۔ سر ظفر اللہ خاں بھی ایک بااثر شخص تھا اور غلام احمد قادیانی سے گہری عقیدت رکھتا تھا، اس لیے وہ تمام عمر انگریزوں سے زیادہ برطانیہ کے خدمت گزار رہے۔‘‘ (ص 120-121)
علامہ مرحوم، سر ظفر اللہ خان کی ’’استدعا‘‘ پر کیے گئے اس حکومتی فیصلے کو قومی المیہ قرار دیتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ ’’یہ اتنا بڑا قومی المیہ تھا کہ جس کی تلافی نہیں ہو سکتی تھی۔ پونچھ میں ہندوستانی افواج نے خود کو مضبوط کر لیا، جبکہ پاکستان نے ایک نادر موقع کھو دیا، جو قوموں کی زندگی میں کبھی کبھار آتا ہے۔ وزیر اعظم کا حکم نامہ پونچھ کے گردو نواح میں تعینات پاکستانی فوجیوں پر بم بن کر گرا۔ جب انہیں علم ہوا کہ حملہ منسوخ کردیا گیا ہے، تو بہت سے افسران اور عام لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ کشمیر کو ہندوئوں کے تسلط سے آزاد کرانے اور اسے پاکستان کا حصہ بنانے کا انہوں نے جو خواب دیکھا تھا، وہ چکنا چور ہو گیا۔ کوئی سنجیدہ شخص یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ یہاں مستقبل بعید میں بھی کشمیریوں کو موعودہ حقِ رائے دہی مل جائے گا۔ میجر جنرل حمید نے خود کو ہیڈکوارٹر میں بند کر لیا۔ کئی مہینے میری ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ اس کے بعد وہ فوج سے مستعفی ہو گئے۔‘‘ (ص 121)٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment