تبرکات کی حقیقت

تبرک کے معنی ہیں: برکت حاصل کرنا اور عربی کے قاعدے سے یہ لفظ چونکہ باب تفعل سے ہے، اس لئے اس میں یہ بات پوشیدہ ہے کہ کسی چیز سے برکت حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنا۔ جیسے تفکر یا تقرب۔ تفکر میں ارادتاً کسی چیز کا فکر پیدا کرنے کے معنی ہیں۔ اسی طرح تقرب میں قریب ہونے کے معنی نہیں ہیں، بلکہ قربت حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے معنی ہیں۔
بزرگوں سے تبرک حاصل کرنے میں ہمارے یہاں بعض عقیدے کی غلطیاں پائی جاتی ہیں اور بعض عمل کی۔ کچھ لوگ بزرگوں کے تبرک کو حاصل کر کے سمجھتے ہیں کہ بس فلاں بزرگ کا یہ تبرک ہی ہماری دینی اور دنیاوی مشکلات کا حل ہے۔ یہ عقیدے کی غلطی ہے کہ وہ اعمال صالحہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ چنانچہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض دین دار دکانداروں نے اپنی دکان پر قرآن کریم کی مختلف آیات اور بزرگوں کے تعویذ ونقوش لٹکائے ہوتے ہیں۔ نمازیں بھی پڑھتے ہیں، روزے، زکوٰۃ کا بھی خیال رکھتے ہیں، لیکن گاہکوں کو اپنی چیز کا عیب نہیں بتاتے، بلکہ عیب کو چھپا کر بیچتے ہیں۔
دوسرے لوگ وہ ہیں، جو اعمال صالحہ مثلاً فرائض و سنت کے پابند ہیں، سچ بھی بولتے ہیں، کسی کو دھوکا بھی نہیں دیتے، مگر تبرکات کے فوائد کا سرے سے انکار کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اصل چیز تو اعمال ہیں، جو ہم بھی کرتے ہیں۔ بزرگوں سے تبرکات لینے کا کیا فائدہ ہے؟ یہ دونوں باتیں افراط اور تفریط ہیں اور خدا کے دین میں افراط اور تفریط نہیں ہے۔ عمل کے بغیر تنہا تبرکات نجات کے لئے کافی نہیں ہیں۔ اسی طرح تبرک کا سرے سے انکار بھی غلط ہے۔
تبرکات کا صحیح درجہ:
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں کہ اگر تبرکات نافع نہ ہوتے تو سلف صالحین ان کا اہتمام نہ کرتے، حالانکہ سلف سے ان کا اہتمام منقول ہے، خود حضور اقدسؐ نے تبرکات دیئے ہیں۔
ایک مرتبہ حضور اکرمؐ نے اپنی چادر مبارک ایک صحابی کو عطاء فرمائی۔ اس صحابیؓ نے اسے اپنے کفن کے لئے رکھ لیا۔ وہی چادر اس کا کفن بنی۔ حج کے موقع پر آپؐ نے اپنے بال مبارک تقسیم فرمائے اور بعض واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ تبرکات واقعی کام بھی آتے ہیں، مگر صرف تبرکات سے کام نہیں چلتا۔ بلکہ اصل سرمایہ (اعمال صالحہ) کے ساتھ یہ بھی مل جائیں تو نفع بڑھ جاتا ہے۔
اس کی تو ایسی مثال ہے، جیسے کھانے کے ساتھ چٹنی اور مربہ کہ اس سے کھانے کا لطف (ذائقہ) بڑھ جاتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص دوستوں کی دعوت کرے اور سارا دسترخوان چٹنی اور مربوں ہی سے بھرے تو یہ دعوت نہیں، مسخراپن ہوگا۔ ہاں اگر کھانے کے ساتھ یہ چیزیں بھی ہوں تو اعلیٰ درجے کی اور لذیذ دعوت ہوگی۔ اسی طرح تبرکات نافع ضرور ہیں، مگر ان کے نافع ہونے کے لئے چند شرطیں ہیں۔ (یعنی ایمان اور اعمال صالح) بعض مقامات پر آنحضرتؐ کے موئے مبارک اور عمامہ وغیرہ محفوظ ہیں اور ان کی زیارت بڑے اہتمام سے لوگوں کو کرائی جاتی ہے۔ راقم کو یاد ہے کہ دیوبند میں ایک مکان میں موئے مبارک ایک شیشے کی نلکی میں غالباً عرق گلاب میں رکھے ہوئے تھے۔ اب یاد نہیں کہ ہر جمعہ کو یا رمضان میں آخری جمعہ کو ان کی زیارت کرائی جاتی تھی۔ اگر مجھے غلط یاد نہیں ہے تو صاحب مکان اس شیشی کو ہاتھ میں پکڑے ہوتے اور دورد شریف پڑھ کر شیشی کو بلند کرتے اور اس میں سے موئے مبارک خود شیشی سے ٹھوڑا سا باہر نکلتا، پھر اندر چلا جاتا تھا۔ اب اس میں صاحب مکان کوئی تدبیر کرتے تھے یا نہیں، یہ خدا ہی کو معلوم ہے۔
حضرت تھانویؒ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ قریبی قصبے جلال آباد میں آنحضرتؐ کا عمامہ شریف ہے، وہاں بھی اس کی زیارت کرائی جاتی ہے۔ کسی نے اس کے بارے میں سوال کیا تو حضرتؒ نے فرمایا کہ وہ آنحضرتؐ کا ہے یا نہیں، یہ تو معلوم نہیں، لیکن چونکہ اس کی نسبت رسول اقدسؐ سے ہے تو اس نسبت کی وجہ سے اس کا ادب لازم ہے۔ فرمایا: میں خود جلال آباد کی طرف پاؤں کر کے لیٹنے کو پسند نہیں کرتا۔
مشہور واقعہ ہے۔ رئیس المنافقین ابن ابی بن سلول جو آنحضرتؐ کا سخت دشمن تھا، اس کا جب انتقال ہوا تو اس کے لڑکے جو مخلص مؤمن تھے، انہوں نے آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میرے باپ کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس کے کفن کیلئے اپنا کرتہ عطا فرما دیجئے (کہ شاید اس کی برکت سے حق تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے) حضور اقدسؐ نے اپنا کرتہ دے دیا۔ اور تجہیزو تکفین میں بھی شریک ہوئے، حتیٰ کہ نماز جنازہ بھی پڑھانے کا ارادہ فرمایا تو اس وقت حضرت عمرؓ کو جوش آگیا۔ انہوں نے آپؐ کی چادر مبارک پکڑلی اور عرض کیا: یا رسول اللہؐ! آپ اس منافق کی نماز جنازہ پڑھانا چاہتے ہیں، جس کے بارے میں قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ چاہے آپ منافقین کیلئے ستر مرتبہ بھی دعا و استغفار فرمائیں، اللہ تعالی ان کو نہیں بخشیں گے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے استغفار کرنے سے منع نہیں فرمایا۔ میں ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کرلوں گا، اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اس طرح اس کی مغفرت ہوجائے گی اور آپؐ نے نماز جنازہ پڑھا دی۔
حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ واقعی حضور اقدسؐ کی بھی کیا عجیب شفقت تھی کہ دشمنوں پر بھی رحمت سے آپ کو دریغ نہیں تھا۔ صاحبو! ہم بڑے خوش قسمت ہیں کہ ہم کو ایسے رحیم و کریم پیغمبرؐ نصیب ہوئے۔
نماند کسے بعصیاں درگرد
کہ دارد چنیں سید پیشتر
(یعنی جو ایسا پیش رو سردار اور راہنما رکھتا ہو، وہ دوزخ میں اپنے گناہوں کی وجہ سے نہیں رہے گا) جب دشمنوں پر بھی آپؐ کی یہ رحمت ہے تو اپنے غلاموں پر تو کیا کچھ ہوگی۔ غرض آپؐ نماز پڑھ چکے۔ دفن میں بھی شریک ہوئے اور اس منافق کو قبر میں رکھے جانے کے بعد حضور اقدسؐ نے اپنا لعاب دہن بھی اس کے منہ میں ڈال دیا، اس کے بعد قرآن کریم کی آیت نازل ہوئی۔
(ترجمہ) اور ان میں سے کوئی مر جائے تو اس پر کبھی نماز نہ پڑھئے اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہو جایئے۔ انہوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ حالت کفر ہی پر مرے ہیں۔
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ مجھے بعد میں بڑی ندامت اور شرمندگی ہوئی کہ میں نے حضور اقدسؐ کے ساتھ کیسی جرأت کی۔ سبحان اللہ۔ یہ حضرات کیسے عاشق رسول تھے کہ قرآن کریم کی آیت ان کی رائے کے مطابق نازل ہوئی۔ کوئی غیر صحابی عام آدمی ہوتا تو اس کو اپنے لئے فخر کی بات سمجھتا۔ فاروق اعظمؓ کی رائے کے مطابق اور بھی کئی آیات نازل ہوئیں، لیکن وہ صحبت یافتہ رسولؐ تھے، انہیں ہر مرتبہ ندامت ہوئی۔
قرآن کریم کی اس آیت کی محدثین نے مختلف شرحیں کی ہیں۔ کسی نے فرمایا: کہ آپ نے اس منافق کے ساتھ یہ معاملہ اس کے صحابی بیٹے کی خاطر کیا۔ آپؐ نے اس کی نجات کیلئے پوری کوشش فرمائی اور بعض نے فرمایا: کہ جب بدر کے موقع پر اس منافق نے حضرت عباسؓ کو (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) ایک کرتہ پہنایا تھا۔ اس کی مکافات میں اس کے مرنے کے بعد اپنا کرتہ پہنا دیا، یہ سب شراح حدیث نے توجیہات پیش کی ہیں۔
حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں ان باتوں سے ہم کو شفاء نہیں ہوئی۔ ہمیں تو اپنے استادؒ (حضرت مولانا یعقوب ناتوتویؒ مراد ہیں) کی بات پسند آئی۔ فرمایا: کہ حضورؐ نے اس منافق کے ساتھ یہ معاملہ اس لئے فرمایا کہ امت کو یہ ضروری مسئلہ بتا دیں کہ اگر کسی میں ایمان نہ ہو تو پھر چاہے اس کے پاس لاکھ تبرکات ہوں اور چاہے آنحضرتؐ اس کی نماز جنازہ بھی پڑھا دیں اور رسول اقدسؐ کی قمیض بھی اس کا کفن ہو جائے اور حضور اقدسؐ کا لعاب دہن بھی اس کے منہ میں پڑ جائے، تب بھی نجات نہیں ہو سکتی۔
معلوم ہوا تبرکات بغیر ایمان اور بغیر عمل صالح کے کسی کو کچھ نفع نہیں دے سکتے۔ خواہ وہ کسی پیغمبر ہی کے تبرکات کیوں نہ ہوں۔ دوسرے بزرگوں کے تبرکات کی حقیقت تو کیا ہو سکتی ہے۔ (از مواعظ اشرفیہ۔ ج۔ 2۔ ص 25)
خلاصہ یہ ہوا کہ تبرکات کا فائدہ صرف اس وقت ممکن ہے، جب وہ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ جمع کئے جائیں۔
نوٹ: راقم نے تسہیل و تفہیم کیلئے بعض الفاظ میں تبدیلی کی ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment