سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے سے متعلق ازخود نوٹس کا فیصلہ جاری کردیا ہے، جو گزشتہ سال بائیس نومبر کو محفوظ کیا گیا تھا۔ ازخود نوٹس کی سماعت سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے جسٹس قاضی عیسیٰ کی سربراہی میں کی تھی، جس کے دوسرے رکن جسٹس مشیر عالم تھے۔ فاضل جسٹس قاضی عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ازخود نوٹس کا فیصلہ سنانا مشکل کام ہے، چنانچہ عدالت عظمیٰ کے بنچ نے پنتالیس صفحات پر مشتمل فیصلہ پڑھ کر نہیں سنایا، بلکہ اس کی کاپی ویب سائٹ پر ڈال کر صحافیوں سے کہا گیا کہ وہ اسے وہاں سے حاصل کرلیں۔ مذکورہ فیصلے کی خاص بات یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے فوجیوں کے خلاف کارروائی کرے۔ آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس بیورو کے علاوہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو بھی فاضل عدالت کی جانب سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے دائرئہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔ وزارت دفاع کے توسط سے آرمی چیف اور بحری و فضائی افواج کے سربراہوں کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ ان فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے، جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا آئین مسلح افواج کے ارکان کو ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں، بشمول کسی سیاسی جماعت، دھڑے یا فرد کی حمایت سے روکتا ہے۔ فوج کے کسی محکمے اور شعبے کو اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ وہ کسی کی آزادی کو سلب کرسکتے ہیں نہ انہیں ذرائع ابلاغ کے معاملات میں مداخلت کا اختیار حاصل ہے۔ انہوں نے لائسنس رکھنے والے بعض ٹی وی چینلز کی نشریات کو فوجی چھاؤنی اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے علاقوں میں بند کر دیا، جس پر پیمرا نے بھی کوئی کارروائی نہیں کی۔ فیصلے کے مطابق وردی میں ملبوس اہلکاروں نے فیض آباد دھرنے کے شرکاء میں رقوم تقسیم کیں۔ فیصلے میں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل کے اس سیاسی بیان کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تاریخ ثابت کرے گی کہ 2018ء عام انتخابات غیر جانبدارانہ تھے۔ فوج کے کسی افسر یا اہلکار کو یہ تاثر نہیں دینا چاہئے کہ وہ کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کر رہا ہے۔ فیصلے میں ایک ٹی وی چینل کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کے ذمہ دار افراد فیض آباد دھرنے کے شرکا کو کھانا فراہم کرتے تھے، لیکن پیمرا نے ان کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی۔ فیصلے کے مطابق ہر پاکستانی شہری کو آئین و قانون کے مطابق سیاسی جماعت بنانے اور پرامن طور پر احتجاج کرنے کا حق ہے، لیکن اس کا یہ حق وہاں ختم ہوجاتا ہے، جہاں اس سے دوسروں کے بنیادی آئینی اور قانونی حقوق متاثر ہوں۔ ہر سیاسی جماعت پر لازم ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو اپنی آمدنی کے ذرائع بتائے اور جو ایسا نہ کرے اس کے خلاف الیکشن کمیشن کو کارروائی کرنی چاہئے۔ فاضل عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو حکم دیا کہ وہ نفرت اور شدت پسندی پھیلانے والوں پر نظر رکھیں۔ لوگوں کو اکسانے والوں اور حملے کی ترغیب دینے والوں کے خلاف وفاقی و صوبائی حکومتوں کو کارروائی کرنی چاہئے اور پیمرا کو بھی فوری طور پر حرکت میں آنا چاہئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی اور جسٹس مشیر عالم کی رکنیت پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ کا فیصلہ کئی لحاظ سے نہایت اہم ہے۔ فیصلے میں اٹھائے گئے نکات اور احکام و ہدایات اس قابل ہیں کہ انہیں آئندہ فیصلوں اور عدالتی نظام میں مشعل راہ بنایا جائے۔ فیصلے کا ایک ایک لفظ آئین و قانون کے مطابق ہے، جس پر کسی کو اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ ملک میں فوج کا اپنا احتسابی نظام رائج ہے، جس کے تحت فوجیوں کے لیے سزا و جزا کی کارروائیاں ہوتی ہیں۔ لیکن فاضل عدالت عظمیٰ نے فوجی اداروں اور شخصیات کو بجا طور پر یاد دلایا ہے کہ وہ اپنے دائرئہ اختیار سے نکل کر سیاست میں ملوث نہیں ہو سکتے اور جو بھی ایسا کرے اس کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہئے۔ عدالت عظمیٰ کے مذکورہ فیصلے نے اس حقیقت کو ایک بار پھر پوری طرح واضح کردیا ہے کہ وطن عزیز میں کوئی شخص یا ادارہ ’’مقدس گائے‘‘ نہیں کہ اس کے خلاف آئین و قانون کے مطابق کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ کسی فوجی اہلکار کا یہ کہنا کہ 2018ء کے انتخابات کی غیرجانبداری کو تاریخ ثابت کرے گی ناقابل فہم ہے۔ علاوہ ازیں وردی میں ملبوس اہلکاروں کی جانب سے فیض آباد دھرنا کے شرکا میں رقم تقسیم کرنے کا الزام اتنا سنگین ہے کہ اس پر متعلقہ اداروں کو فوری طور پر کارروائی کا آغاز کردینا چاہئے۔ مذکورہ بیان اس تاثر کو تقویت دینے کا سبب بنا کہ تحریک انصاف کو برسر اقتدار لانے میں مقتدر اداروں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ فاضل عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ فیض آباد دھرنا کسی مذہبی گروہ کا نہیں، بلکہ سیاسی جماعت کا تھا، لہٰذا الیکشن کمیشن کو بھی اس کی آمدنی کے ذرائع اور سرگرمیوں کا نوٹس لینا چاہئے تھا۔ عدالتی فیصلے میں واضح کر دیا گیا ہے کہ احتجاج، مظاہرے اور جلسے جلوس کرنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے، لیکن آئین و قانون کے تحت اس کی حد وہاں ختم ہو جاتی ہے، جہاں سے دوسرے شہریوں کے حقوق شروع ہوں یا ملک و قوم کو نقصان کا اندیشہ ہو۔ مسلم لیگ کے دور حکومت میں عمران خان نے چار ماہ سے زیادہ مدت تک اسلام آباد میں جو دھرنا دیا تھا، اس کے نقصانات ملک آج تک بھگت رہا ہے۔ ہمارا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت اور مذہبی گروہ ہو، یا کسی بھی قسم کی کوئی تنظیم، عام شاہراہوں کو روک کر دھرنا دینا یا جلسے جلوس کا اس طرح اہتمام کرنا کہ لاکھوں شہری ذہنی و جسمانی اور مالی اذیت سے دو چار ہوں، اس کی اجازت اسلام دیتا ہے نہ ملک کا آئین و قانون۔ اس قسم کی سرگرمیوں پر ہمیشہ کے لیے پابندی عائد کردینی چاہئے، لیکن جب سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی دال روٹی نفرت، شدت پسندی اور اشتعال انگیزی سے چل رہی ہو، وہ کب ایسی پابندی کی حمایت کریں گے؟ ٭
٭٭٭٭٭