ساگا کی کہانی (حصہ اول)

سنگاپور جغرافیائی طور پر ایسی جگہ پر واقع ہے کہ مختلف سمندروں سے گزرنے والے جہاز سنگاپور ضرور آتے ہیں۔ ہمارا بھی ساٹھ کی دہائی کے آخری برسوں میں سنگاپور آنا جان شروع ہوا۔ ساٹھ کے آخری اور ستّر کے ابتدائی برسوں تک سنگاپور ایک غریب ملک سمجھا جاتا تھا، جس ملک میں لوہا ہو نہ تانبا، گیس ہو نہ کوئلہ، زراعت کیلئے زمین نہ ہو… اور ہو بھی کیسے؟ مختصر سا جزیرہ، جہاں لوگوں کی رہائش کے لئے ہی محدود رقبہ زمین ہے، اس قدر کہ سنگاپور میں پینے کے لئے پانی بھی نہیں ہے، وہ بھی آج تک ملائیشیا سے خریدا جاتا ہے۔ سنگاپور کے لوگ اپنی بقا اور گزر بسر کے لئے محنت ہی کرتے ہیں، وہ سروس یعنی خدمت کے ذریعے کماتے ہیں۔ یہاں مختلف ملکوں سے جہاز آتے ہیں اور ان کی سروس کرکے پیسہ کماتے ہیں۔ مختلف ملکوں سے سیاح آتے ہیں، جن کے ہاتھ فروخت کرنے کے لئے مختلف ملکوں سے سامان منگواتے ہیں۔
بہرحال اس کے باوجود بھی سنگاپور آج کل ملائیشیا سے بھی زیادہ خوشحال ہے۔
میں گزشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی کا ذکر کر رہا ہوں، جب باقی دنیا بھی فی الحال زیادہ ماڈرن نہیں ہوئی تھی اور سنگاپور تو ایک بستی کے مثل تھا۔ یہ ویلنٹائن ڈے وغیرہ منانا اور کارڈ اور گفٹ دینے کا فیشن اب شروع ہوا ہے، مجھے یاد ہے کہ ان دنوں میں سنگاپور میں اپنی گرل فرینڈ اور بیوی کو تحفے کے طور پر دینے کے لئے ساگا بیج سے بہتر، خوبصورت اور پیاری چیز کوئی نہیں تھی۔ یہی حال کازوے (سنگاپور اور ملائیشیا کو ملانے والا پل) کی دوسری جانب جوہر بارو، پینانگ اور ملائیشیا کے دیگر شہروں میں تھا۔ ساگا بیج، جس کا نام ملائیشیا والوں نے اپنی لاڈلی کار پر رکھا ہے، آج بھی ایک خوبصورت اور پیاری چیز سمجھا جاتا ہے۔ اس کے متعلق ہماری جہاز راں کمپنی کے سنگاپور آفس میں کام کرنے والی ایک چینی کلرک لڑکی کہانی سناتی تھی، وہ اس طرح تھی۔
کسی ملک میں بڑی جنگ شروع ہو گئی۔ اپنے ملک کو بچانے کے لئے ایک بہادر شہری اپنی بیوی اور گھر بار کو چھوڑ کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے جنگ کے میدان میں پہنچا۔ اس کی بیوی ایک پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ کر شوہر کی جدائی کے غم میں آنسو بہانے لگی اور دعا کرنے لگی کہ اس کا پیارا واپس لوٹ آئے۔
لیکن وہ واپس نہ آیا۔ وہ عورت روزانہ صبح سے شام تک اپنے شوہر کی یاد میں روتی رہی، حتیٰ کہ اس کے آنسو خشک ہوگئے۔ اب آنسوئوں کے بجائے اس کی آنکھوں سے خون ٹپکنے لگا اور وہ خونی آنسو سرخ بیجوں کی شکل میں زمین پر گرنے لگے۔
دیکھتے ہی دیکھتے ان بیجوں میں سے پودے پھوٹنے لگے اور درخت کی شکل اختیار کرتے چلے گئے۔ ان میں پھلی کی شکل کا پھل پیدا ہوا، جس کے اندر ایسے ہی خوبصورت سرخ رنگ کے بیج تھے۔
یہ اس وقت یاد کی پھلی (Remembrance Beans) کہلانے لگی، جن کے بیج آج تک وفادار بیوی کے اپنے شوہر کی محبت اور انتظار کی علامت تصور کئے جاتے ہیں۔
اس زمانے سے سنگاپور اور ملائیشیا کے قریبی علاقوں میں یہ رسم چلی آرہی ہے کہ اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لئے ساگا بیج سے بھری بوتل کا تحفہ پیش کیا جاتا ہے۔
ہمیں تو جوانی کے دنوں میں بھی کسی چینی یا ملئی دوشیزہ کی جانب سے ساگا بیج کا تحفہ نصیب نہیں ہوا، لیکن خود ہی ہمت کر کے سنگاپور کے آچر روڈ پر لگے ساگا بیج کے درختوں اور مندائی، بکت پنجانگ کے علاقوں کے درختوں سے گرنے والی پھلیوں میں سے بیج نکال کر جمع کر لئے تھے۔ یہ جہاز چلانے والے دنوں کی بات ہے، یعنی ساٹھ اور ستّر کی دہائی کا ذکر ہے۔ اس کے بعد اسّی کے عشرے میں اس شہر ملاکا کے علاقوں آئرکیروح اور کیمپ ٹرنڈاح سے گزرنے کے دوران خاصی تعداد میں ساگا بیج جمع کئے تھے، جو آج تک میرے پاس موجود ہیں۔ جو لوگ ان بیجوں کے رنگ، روپ اور چمک کی تعریف کرتے ہیں، میں ان سے اتفاق کرتا ہوں، ان بیجوں کو دیکھ کر بیر بہوٹیاں یاد آتی ہیں۔ ان دنوں ہمارے شہر ہالا میں فی الحال نہ تو بجلی آئی تھی اور نہ ہی موٹر لاریوں اور پانی کے پمپوں کی آوازیں تھیں۔ ماحول ہر قسم کی آلودگی سے پاک تھا۔ گھروں کے فرش کچے تھے، برسات ہونے پر سرخ مخملیں جلد والی بیر بہوٹیاں نظر آتی تھیں اور رات میں ستاروں کی طرح ٹمٹماتے جگنو دکھائی دیتے تھے۔
کچھ بیج ہوتے ہی خوبصورت ہیں، میں بچپن میں املی کی گھٹلیاں جمع کرتا تھا۔ معلوم نہیں وہ خوبصورتی کی وجہ سے پسند تھے یا اس کا سبب جوا تھا۔ ہمارے محلے کے بچے املی کی گٹھلیوں کے ذریعے جوا کھیلتے تھے۔ مجھ میں بھی یہ عادت ایسی پختہ ہوگئی کہ ساتویں کلاس کے بعدکیڈٹ کالج میں بھی اسے یاد کرتا تھا۔ چھٹیوں میں گھر آکر محلے کے بچوں کے ساتھ ضرور کھیلتا تھا۔ یہ اچھا ہوا کہ ہمارے والد صاحب کے ماموں ماسٹر محمد وریل کو معلوم ہوگیا، جنہوں نے کچھ ڈانٹ ڈپٹ اور کچھ پیار سے سمجھایا، پھر جاکر یہ عادت چھوٹی۔ اس کے باوجود چند مہینوں تک دوسرے بچوں کو کھیلتا ہوا دیکھ کر دل میں خواہش ضرور بیدار ہوتی تھی۔ بہرحال بچپن ہی میں اس قبیح عادت سے جان چھوٹ گئی، پھر یہ بات بھی ذہن سے نکل گئی کہ میں بھی سال بھر جوا کھیلتا رہا ہوں۔
اس کے بعد جہاز پر کئی جہازی افسروں کو پوری پوری رات تاش کے پتوں پر جوا کھیلتے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ پھر جب میں یہ سوچتا ہوں کہ وہ جوا کھیلنا کیوں نہیں چھوڑ دیتے تو مجھے بچپن کے وہ دن یاد آجاتے ہیں اور احساس ہوتا ہے کہ اس میں کس قدر کشش ہے جو اسے چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ سگریٹ اور دوسرے نشے کی طرح جوا کا بھی اپنا ایک نشہ ہے، جس میں کوئی ایک بار گرفتار ہو جائے تو پھر اس سے رہائی پانا محال ہے۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں اور وہ انہیں ایسی عادتوں کے قریب بھی نہ جانے دیں۔
بہرحال ہم یہاں ساگا بیجوں کی بات کر رہے تھے، جو ملائیشیا میں تیار ہونے والی پہلی کار ’’پروٹان ساگا‘‘ کے نام سے یاد آگئے۔ اس تاریخی شہر ملاکا کی سڑکوں پر نہ صرف ساگا کاریں نظر آتی ہیں، بلکہ ان کے کناروں پر ساگا بیجوں کے درخت بھی دکھائی دیتے ہیں۔ سرخ رنگ کے ان چمکدار بیجوں کو یہاں ملائیشیا میں ساگا کہا جاتا ہے۔ جبکہ سنگاپور میں، جہاں کی 80 فیصد آبادی چینی ہے، اس بیج کو چینی زبان میں زیانگ سی تائو Xiangsi tou کہتے ہیں۔ کہیں میں نے پڑھا تھا کہ سنگاپور جزیرے پر ساگا بیجوں کے تقریباً دو ہزار درخت ہیں۔
ساگا بیج حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس میں لگنے والی پھلیاں خشک ہو کر خود ہی پھٹ جاتی ہیں، پھر ان میں سے بیج نکالے جا سکتے ہیں۔ ملاکا میں جہاں میری رہائش تھی، اس گائوں کا نام کوالاسنگائی بارو ہے۔ وہاں سے چار پانچ کلو میٹر دور، ساحل سمندر پر مچھیروں کی ایک بستی ہے۔ وہاں رہنے والے ہماری نیول اکیڈمی کے ڈرائیور سبتو کے گھر میں ساگا بیجوں کے دو درخت تھے۔ وہاں سے بیج لاکر میں نے اپنے گھر میں بونے کی بہت کوشش کی، لیکن اس سے پودا برآمد نہ ہوا۔ پھر ایک ملئی شخص نے بتایا کہ ساگا کی بیرونی جلد بے حد سخت ہوتی ہے۔ اس لئے اسے بونے سے پہلے تھوڑا کھرچنا پڑتا ہے یا ان بیجوں کو کچھ دیر ابالنا چاہئے۔ ایک صورت یہ بھی ہے کہ اسے تیزاب میں ڈبوکر کاشت کیا جائے تو پھر کچھ امید کی جاسکتی ہے۔ یہ سن کر مجھے سری لنکن زمیندار راجا سنگام کی بات سمجھ میں آگئی، جس نے کولمبو کے مضافاتی جنگلات کی سیر کراتے ہوئے کچھ درختوں کے بارے میں بتایا تھا۔
’’ان کی کاشت میں ہاتھی ہماری مدد کرتے ہیں، ورنہ یہ کام ہمارے لئے بہت مشکل ہوتا۔‘‘
اس نے بتایا تھا کہ کئی درختوں کے بیج جب ہاتھی کھاتے ہیں اور پھر انہیں ہضم کرکے فضلے کی صورت میں نکالتے ہیں تو بارش ہونے پر وہ پھوٹتے ہیں۔ اس کا مطلب تھا کہ جب ہاتھی درختوں کی ٹہنیاں کھاتے ہیں تو ان میں لگا ہوا پھل اور بیج بھی ان کے پیٹ میں چلا جاتا ہے۔ ایک دو دن کے اندر ان کے پیٹ میں دوسرا سب کچھ تو ہضم ہوکر براز کی صورت اختیار کرجاتا ہے، لیکن ساگا جیسے سخت بیج ثابت حالت میں ہوتے ہیں۔ ان بیجوں کو ہاتھی کے نظام ہضم میں وہ ٹریٹمنٹ مل جاتی ہے، جو ہم انہیں ابال کر یا تیزاب میں ڈبوکر دیتے ہیں۔ بلکہ ہم سے کبھی کبھی ابالنے میں کم یا زیادہ کی غلطی بھی ہوجاتی ہے، لیکن قدرت نے جانوروں کے ہاضمے میں ایسا سسٹم رکھا ہے کہ ان کے پیٹ میں سے گزرنے کے بعد ہر بیج کی Germination ہوجاتی ہے۔
ساگا کے حوالے سے ایک اور کہانی بھی مشہور ہے۔
کہتے ہیں کہ مشرق بعید کے ایک ملک کا بادشاہ جب بوڑھا ہوگیا تو اس نے اپنی زندگی ہی میں اپنا کوئی جانشین منتخب کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے کسی نائب، وزیر یا بیٹے کو بادشاہ بنانے کی بجائے بالکل مختلف کام کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا، ایک دن اس نے ملک کے نوجوانوں کو اپنے پاس بلوایا اور ان سے کہا۔
’’میرے خیال کے مطابق وہ وقت آگیا ہے کہ میں تخت و تاج سے دستبردار ہو جائوں اور اپنے جانشین بادشاہ کا انتخاب کروں، اس سلسلے میں، میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ میں سے کسی ایک کو آئندہ کا بادشاہ مقرر کروں۔‘‘
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment