جماعت اسلامی پاکستان کی سیاسی فکر اور عملی اقدامات سے کوئی کتنا ہی اختلاف کرے، اس کی بعض خصوصیات ایسی ہیں جو دوسری سیاسی و مذہبی جماعتوں میں بہت کم یا بالکل ہی ناپید ہیں۔ اسلام، پاکستان اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے محبت اور ان کے مصائب و مسائل پر اس کی تشویش اور عملی تدابیر کا جذبہ، غیر متزلزل ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کی واحد سیاسی پارٹی ہے، جس کے کسی رکن پر آج تک کرپشن کا کوئی الزام نہیں آیا۔ پھر یہ کہ اس جماعت میں حقیقی جمہوریت رائج ہے۔ مقررہ وقت پر اس کے انتخابات ہوتے اور اکثریت کی بنیاد پر امیر جماعت منتخب ہوتا ہے۔ موروثی سیاست کا یہاں سرے سے کوئی تصور نہیں ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بعد میاں طفیل محمدؒ، ان کے بعد قاضی حسین احمدؒ، سید منور حسن اور آخر میں سراج الحق جیسا ایک غریب محنت کش امیر جماعت منتخب ہوا۔ اب پھر الیکشن کا مرحلہ درپیش ہے اور ارکان جماعت آزاد رائے سے کسی کو اپنا امیر منتخب کریں گے۔ جماعت اسلامی تصنیف و تالیف اور تحقیق و علمی کاموں کے علاوہ خدمت خلق کے مختلف شعبوں میں بھی کردار ادا کرنے والی پاکستان کی واحد سیاسی پارٹی ہے۔ اس کے اسپتال، ڈسپنسریاں، میت گاڑیاں اور عوامی خدمت کے کئی شعبے ہمہ وقت مصروف کار رہتے ہیں۔ بعض محبان جماعت اور ناقدین کے خیال میں جماعت اسلامی کو عام انتخابات میں حصہ لے کر اور کروڑوں روپے خرچ کرکے بھی دوچار امیدواروں کی کامیابی کے سوا کچھ نہیں ملتا تو وہ سیاسی جھمیلوں سے خود بچ کر دوسری جماعتوں کے اچھے امیدواروں کی حمایت کرے اور انہیں کامیاب کرائے، جس کے یقیناً مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ جماعت اسلامی اپنے وسائل کو عوام کی تعلیم و تربیت اور خدمت خلق کے شعبوں میں صرف کرے تو کسی وقت اتنی عوامی مقبولیت حاصل کر سکتی ہے کہ انتخابات میں اس کے اپنے امیدوار قابل ذکر تعداد میں کامیابی حاصل کرکے اور پارلیمان اور اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر ملک و قوم کی زیادہ بڑے پیمانے پر خدمت کر سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے قومی سیاست، معیشت اور معاشرت پر فکر انگیز اور حب الوطنی پر مبنی خیالات بدعنوان سیاستدانوں کو تو شاید راہ راست پر نہ لاسکیں، لیکن خدا و خلق اور ملک سے محبت رکھنے والی سیاسی و مذہبی شخصیات ان سے ضرور رہنمائی حاصل کرتی ہیں۔ وہ حسب ضرورت ان سے اختلاف کرکے جماعت اسلامی کی خامیوں کی نشاندہی بھی کرتی ہیں۔ دوطرفہ یہ مثبت اور تعمیری عمل عام سیاسی بیان بازی، الزام تراشی اور دشنام طرازی سے بالکل مختلف ہوتا ہے، جس کی قدر کی جانی چاہئے۔ سیاست صرف زیادہ گوئی کا نام نہیں۔ اسے مثبت ہونا چاہئے۔ تحریک انصاف کی حکومت کی بہت قلیل مدت میں ناکامی پر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنما آئے دن تنقید و مخالفت کرتے رہتے ہیں۔
دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کو وزیر اعظم عمران خان، ان کی کابینہ اور پارٹی نے جوابی الزامات کی گولا باری کے لئے چھوڑ رکھا ہے۔ وہ حکومتی کارکردگی کے حق میں ذرا بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے کہ وہاں کچھ ہو تو بیان کریں۔ بس مخالفوں پر برسرعام تبریٰ بھیجنا انہوں نے اپنا فرض منصبی سمجھ لیا ہے، جبکہ انہی مخالفین کے ساتھ نجی محفلوں میں ان کی خوش گپیاں اور خوشگوار تعلقات لوگوں کو حیران و پریشان کر دیتے ہیں۔ اس منافقانہ رویئے کے برعکس امیر جماعت اسلامی پاکستان، سینیٹر سراج الحق خالصتاً قومی جذبے سے سرشار ہوکر کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت ہر روز اپنی نااہلی اور بچگانہ حرکتوں کے باعث ایک سے بڑھ کر ایک لطیفہ پیدا کر رہی ہے۔ حکمرانوں میں فیصلہ کرنے کی قوت ہے نہ ڈلیور کرنے (کچھ کر دکھانے) کی صلاحیت۔ صرف تین وزیروں کو تبدیل کرکے وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ تبدیلی آگئی ہے۔ حالانکہ چھ ماہ کی کارکردگی کو پیش نظر رکھا جائے تو پوری کابینہ تبدیل ہو جانی چاہئے۔ حکمران جماعت فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے فی الواقع اس حد تک محروم ہے کہ اس نے آج تک اپنی سمت ہی کا تعین نہیں کیا ہے۔ تحریک انصاف عوام کو مسلسل گرانی کے بوجھ تلے دبا کر اور بار بار یوٹرن لے کر ثابت کر رہی ہے کہ اس نے اقتدار میں آنے سے پہلے تبدیلی کا نعرہ لگا کر عوام کو فوری طور پر بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کا جو وعدہ کیا تھا، وہ سراسر فریب تھا۔ یہ بات بھی بالکل غلط ثابت ہوگئی کہ اس نے ملک و قوم کے مسائل حل کرنے کے لئے ضروری ہوم ورک پہلے ہی کر رکھا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کا یہ بیان چشم کشا ہے کہ عمران خان کی حکومت میں آٹھ وزیر جنرل پرویز مشرف کے اور باقی بہت سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (شریف گروپ) کے ہیں۔ ان کی حکومتیں جس طرح ناکام ہوئیں، موجودہ حکومت ان سے زیادہ تیزی کے ساتھ ناکامی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کہتے تھے کہ میری حکومت عوام سے کبھی جھوٹ نہیں بولے گی، مگر ساہیوال پولیس دہشت گردی کے صرف ایک واقعے میں حکومت نے عوام سے آٹھ مرتبہ جھوٹ بول کر ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ ستر سال سے عوام کی گردنوں پر ایک ہی ٹولا مسلط ہے، جس نے قیام پاکستان کے مقاصد کو پس پشت ڈال کر لوگوں کی خوشیاں بھی چھین لی ہیں۔ اشرافیہ (دراصل بدمعاشیہ) کے اس مختصر گروہ کی وجہ سے پاکستان کا سیاسی، معاشی، عدالتی اور تعلیمی نظام آج تک وہی ہے، جس سے نجات کے لئے ہمارے بزرگوں نے آگ اور خون کا دریا پار کیا تھا اور لاکھوں قربانیاں دی تھیں۔ سینما گھروں کی حوصلہ افزائی کرنے والی حکومت حج اخراجات میں بے پناہ اضافہ کرکے لوگوں کو اللہ کے گھر اور روضہ رسولؐ کی زیارت سے محروم کر رہی ہے، پھر بھی اس کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانا چاہتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے فارسی مثل مشہور ہے۔ چہ دلاور است دز دے کہ بکف چراغ دارد۔ یعنی چور کیسا بہادر ہے ہاتھ میں چراغ لے کر چوری کرتا ہے اور ببانگ دہل کہتا ہے کہ دیکھ لو اور پہچان لو کہ یہ میں ہوں۔ میرا چیلنج ہے کہ روک سکو تو روک لو۔ میں اسی طرح آگے بڑھتا رہوں گا۔ ٭
٭٭٭٭٭