ہم لوگ تہجد سے اشراق تک حرم شریف میں ہی ٹھہرتے تھے، حرم میں فجر کا وقت بہت سہانا ہوتا ہے۔ صحن حرم میں نور کا سیلاب امنڈتا ہے۔ افق سے سفیدی پھیل جاتی ہے تو قمقمے گل کر دیئے جاتے ہیں۔ سورج کی پہلی اور سنہری کرنیں جب اپنا اجالا پھیلانا شروع کرتیں تو خدا کی قدرت کو گویا زبان دے جاتیں۔ ہم لوگوں نے یہ معمول بنالیا تھا کہ تہجد سے پہلے احرام باندھ کر مسجد عائشہ جاتے، وہاں عمرے کی نیت کیلئے نفل ادا کرتے، تہجد پڑھ کر حرم آتے، طواف کرتے، فجر کی نماز کے بعد سعی کرتے۔ اس وقت تک اشراق کا وقت ہو جاتا، طواف کے دوگانہ ادا کر کے اشراق پڑھتے اور راستے سے ناشتہ کرتے ہوئے ہوٹل آکر سو جاتے، اس طرح ایک عمرہ جعرانہ سے احرام باندھنے کے بعد کیا۔ جعرانہ وہ تاریخی مقام ہے جہاں آٹھ ہجری میں غزوۂ حنین سے واپسی پر حضور اکرمؐ نے مال غنیمت کی تقسیم فرمایا تھا۔ وہ مال غنیمت چھ ہزار قیدی، چوبیس ہزار اونٹ، مسعود بن عمرو غفاری کی نگرانی میں دیکر آپؐ خود غزوۂ طائف میں مصروف ہوگئے تھے۔ غزوۂ طائف کے بعد آپؐ نے جعرانہ میں مال غنیمت تقسیم فرمایا۔ انصار کیلئے اپنے آپ کو پیش کردیا تھا۔ حنین کے شہداء کو بھی جعرانہ کے مقام پر ایک احاطے میں دفن کیا گیا۔ یہیں ایک کنواں ہے، جس کے متعلق یہ روایت ہے کہ اس کنویں کا پانی انتہائی کڑوا تھا۔ آپؐ کے لعاب دہن کو پانی میں ڈالنے سے وہ شیرین ہوگیا۔ سعودی حکومت نے اس کنویں کو بند کردیا ہے، کیونکہ زائرین نے یہاں سے پانی آب زمزم کی طرح تبرک کے طور پر لے جانا شروع کردیا تھا۔ سعودی حکومت بدعت اور شرک کے خوف سے تمام آثار قدیمہ کو مٹاتی جا رہی ہے، لیکن معاشی استحکام اور اقتصادی ترقی کے لئے فائیو اسٹار ہوٹل حرم کے بیرونی صحن میں قائم کردیئے ہیں۔ اب مکہ مدینہ میں ایسی کوئی پرائی گلی نظر نہیں آتی، جہاں ’’قصداً بھٹک جانے کو‘‘ دل چاہے۔ صاف ستھرے کشادہ سڑکیں، فلائی اورز، برج، بلند عمارتیں ہر طرف سے حرمین شریفین کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ یقیناً سعودی حکومت نے یہ سب سہولتیں زائرین کو دینے کے لئے مہیا کی ہیں، مگر ان کے کرائے عام زائرین کی پہنچ سے دور ہیں۔
ہم دونوں نے عشاء کے بعد طواف کیا اور مدینہ منورہ کیلئے تیاری کی، مکہ معظمہ سے کچھ دن کی جدائی بھی ہم دونوں کے لئے بڑی آزمائش ہوتی ہے۔ دل، آنکھیں، ہاتھ، پاؤں، لب احتجاج کرتے ہیں۔ تڑپ تڑپ کر نالہ و فغان کرتے ہیں۔ ہمیشہ کیلئے یہیں رک جانے کی تمنا کرتے ہیں۔ ہم دونوں بھی حجر اسود کا استیلام کر کے خانہ کعبہ کی دیواروں کو چھوتے ہوئے برستی آنکھوں سے حرم سے نکل آئے۔ ہوٹل آکر اپنے اٹیچی سے بہترین سوٹ نکال کر پہنے، جو مدینہ طیبہ میں حاضری کے لئے رکھے تھے۔ ہمارے ساتھیوں نے ٹوکا کہ سفر میں کیوں نئے کپڑے ضائع کر رہے ہو۔ مدینہ جا کر پہننا، مگر ہمارے لئے تو مدینہ کا سفر ہی بہت مقدس اور معطر تھا۔ ’’اے سی بس قریش‘‘ کے مصری ڈرائیور نے بغیر کسی توقف کے پانچ گھنٹے میں مدینہ پہنچا دیا۔ مسجد نبویؐ کے حسین مینار دور سے نظر آرہے تھے۔ ہم دونوں مکہ سے وضو کر کے بس میں بیٹھے تو راستے بھر درود کے نذرانے حضور اقدسؐ کی نذر کرتے رہے۔ بس شاہراہ ستین کے قریب بنے ہوئے ایک ہوٹل کے قریب رک گئی۔ ڈرائیور نے بڑی پھرتی سے مسافروں کا سامان بس سے نکال کر سڑک پر ڈھیر لگا دیا اور تیز رفتاری سے بس کو اڑاتا ہوا لے گیا۔ ہوٹل انتظامیہ نے سڑک پر سے مسافروں کا سامان اٹھا اٹھا کر لاؤنج میں رکھنا شروع کردیا۔ ہم دونوں ہوٹل میں ضروریات سے فارغ ہوئے اور وضو کر کے مسجد نبویؐ کی طرف چل دیئے۔ جہاں سے اذان فجر کی آواز آرہی تھی۔ ابھی رات کا اندھیرا باقی تھا اور سحر کی سپیدی آہستہ آہستہ نمودار ہو رہی تھی، مسجد کی پوری عمارت دودھیا روشنیوں میں نہائی ہوئی تھی، مسجد نبویؐ میں داخل ہوتے ہوئے سورۃ الحجرات کی آیت ہمیشہ میرے ذہن میں رہتی ہے (ترجمہ) ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنی آواز، نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز میں بات کیا کرو، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘
اس لئے میرے قدم اور میرا دل ایک دم مؤدب ہو جاتا ہے۔ خدا کے حضور دعا بھی بہت آہستہ آہستہ آواز میں مانگتی ہوں کہ میرے نبیؐ یہاں آرام فرما ہیں۔ آقا کے حضور حاضری کے وقت بھی بے آواز آنسوؤں سے روتی ہوں۔ اس خدا کا شکر کرتے میری زبان نہیں تھکتی جو میری تمام تر کوتاہیوں، غلطیوں اور گناہوں کے باوجود مجھے اپنے در پر بلا لیتا ہے اور اپنے حبیبؐ کے حضور شفاعت کی درخواست کا موقع فراہم کر دیتا ہے۔ میں مسجد میں داخل ہوئی، تحیۃ المسجد کے دو نفل ادا کئے۔ فجر کی سنتوں کے بعد نماز کے انتظار میں بیٹھ گئی۔ شیخ خذیفی صاحب نے نماز فجر پڑھائی۔ ان کا انداز پرسکون اور قرأت لاجواب ہے۔ ایک ایک لفظ صاف ستھرا اور قابل سماعت۔ نماز ادا کر کے ہم دونوں مسجد سے اپنی مقررہ جگہ پر مل گئے۔ راستے سے ہوٹل سے ناشتہ کیا اور واپس اپنی قیام گاہ پر آئے۔ لاؤنج خالی تھا، زائرین اپنا سامان لیکر کمروں میں جا چکے تھے۔ ہم دونوں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ صوفوں کے پیچھے میز کے نیچے جھانکا۔ کاؤنٹر پر اچک اچک کر دیکھا۔ ہمارا اکلوتا ہرا اٹیچی کہیں نہیں تھا۔ ہم دونوں صوفے پر بیٹھ گئے، کاؤنٹر پر کھڑے ہوئے صاحب نے استفسار کیا۔ جب ہم نے انہیں اٹیچی کے بارے میں بتایا تو وہ خود بھی گھبرا گئے۔ اگر آپ کا اٹیچی اس بس میں رہ گیا ہوگا تو حاجیوں کو لیکر وہی بس آئے گی۔ اگر آپ کا اٹیچی اس بس میں رہ گیا ہوگا تو آپ کو ضرور واپس مل جائے گا۔ ہم لوگ کاؤنٹر سے کمرے کی چابی لیکر آگئے، کمرہ آرام دہ تھا۔ ہم دونوں درود پڑھتے ہوئے چند لمحوں میں نیند کی وادی میں پہنچ گئے۔ ظہر کی نماز کیلئے جب نیچے اترے تو معلوم ہوا کہ ہم سے زیادہ ہمارے دوسرے ساتھی اس اٹیچی کے لئے پریشان تھے۔ کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ اس اکلوتے اٹیچی کے علاوہ ہمارے پاس کوئی سامان نہیں ہے۔ ہمارے دانتوں کے برش سے لے کر تمام ادویات، سوت دھاگہ، قینچی، صابن اسی میں تھا۔ وہ سب مختلف انداز میں ہمیں سامان کی پیشکش کر رہے تھے۔ خواتین آکر مجھے اپنے کپڑے، چپلیں آفر کرتیں اور میں ان کا شکریہ ادا کردیتی، وہ مجھ سے کہتیں: بڑا افسوس ہوا یہ سن کر اور جان کر۔ ہائے اب آپ کیا کریں گے۔ میرا اطمینان دیکھ کر وہ میری ذہنی کیفیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتی تھیں، پھر کبھی انتظامیہ کو برا بھلا کہنے لگتیں۔ لیکن مجھے اطمینان تھا کہ حرمین میں کوئی چیز نہیں کھو سکتی، یہ میرا ایمان بھی تھا۔
میں روزانہ رات کو عشاء کی نماز کے بعد ہوٹل آکر ڈاکٹر صاحب کا واحد کرتا شلوار اور اپنا سیاہ عبا دھو کر مسہری کے پائنتی پر پھیلا دیتی اور تہجد سے پہلے ان پر استری کردیتی، جو ہوٹل کی انتظامیہ نے فراہم کی تھی۔ اس طرح ہم دونوں صاف ستھرے مسجد میں اپنی نمازیں ادا کرتے۔ روضہ اطہر پر حاضری دیتے۔ ریاض الجنۃ میں نفل ادا کرتے۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ’’ہرے اٹیچی‘‘ کا خیال لمحہ بھر کو بھی نہ آیا اور نہ اس کی ضرورت محسوس ہوئی۔ شاید اس لئے کہ نہ جسم کو کسی دوا کی ضرورت پڑی، نہ کپڑوں کا مسئلہ ہوا۔ ہر ضرورت خدا کی طرف سے خود بخود پوری ہو رہی تھی۔ بس اس وقت جو فکر تھی، وہ حاضری کے لئے روضہ رسولؐ پر جانے، نفل پڑھنے، تلاوت کلام پاک اور درود کی۔ مدینہ سے واپسی کے دن قریب آرہے تھے، میرا دل ہمیشہ کی طرح اداس و ویران ہو رہا تھا، روضہ اطہر پر جاتی تو تڑپ کر فریاد کرتی: ’’حضور! مجھ گناہ گار کو یہاں رہنے کی اجازت مرحمت فرما دیجئے۔‘‘ فرش پر بچھے قالین کو دیکھتی تو خواہش ہوتی کاش میں اس قالین کا کوئی رواں ہی ہوتی۔ کبھی خیال آتا کاش میں یہاں چھت پر لٹکا ہوا فانوس ہی بن کر یہاں رہ جاتی۔ کبھی تمنا ہوتی کوش روضہ اقدس پر صفائی کرنے والی جھاڑو کا کوئی تنکا ہی بن جاؤں۔ کسی نہ کسی بہانے میں یہاں رک جانا چاہتی تھی، مگر میری ساری آرزوئیں صرف تمنائیں ہی رہیں، ہمارے مکہ جانے کا وقت آگیا۔ ہم دونوں مغرب کی نماز کی تیاری کر رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروزاہ کھولا۔ ہوٹل کی انتظامیہ کے ایک صاحب میرا اٹیچی لئے کھڑے تھے۔ معافی اور معذرت کے جتنے جملے وہ بول سکتے تھے، بولتے رہے۔ ڈرائیور کی جلد بازی اور کوتاہی پر شرمندگی کا اظہار کرتے رہے۔ انہیں سب سے زیادہ اس بات کا ملال تھا کہ ہم نے ان سے بار بار تقاضا کیوں نہ کیا کہ ہمارا اٹیچی واپس منگوائیں۔ ہم دونوں نے ان کا شکریہ ادا کیا، تو وہ اور زیادہ شرمندہ ہوگئے۔ وہ کچھ انتظار کرتے رہے کہ شاید ہم بے قرار ہوکر اٹیچی کھولیں گے اور اس کا سامان چیک کریں گے۔ مگر ہم کو اب کوئی بے چینی، کوئی بے قراری نہ تھی۔ ہمیں تو صرف مغرب کی نماز کی فکر تھی۔ وہ سر جھکائے شرمندہ سے واپس چلے گئے۔ حقیقت یہ تھی کہ ہمیں اب اٹیچی کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اصل زادراہ تو تقویٰ ہی ہے، ہم دراصل غلطی پر تھے جو دنیاوی سامان پر بھروسہ کئے ہوئے تھے، ورنہ ہر ضرورت پوری کرنے والا خدا ہے۔ ہم نے ایک اچٹی سی نظر اس پر ڈالی اور کمرے کو لاک کر کے مسجد کی طرف روانہ ہوگئے۔ جہاں کے میناروں سے مؤذن عبد الرحمٰن قاشقجی کی دلنشین آواز گونج رہی تھی۔ حی علی الفلاح، حی علی الصلوٰۃ… آؤ نماز کی طرف… آؤ فلاح کی طرف اور ہمارے قدم تیز ہوگئے۔
٭٭٭٭٭