سیاست کے ڈبل شاہ

ہمارے ملک میں سیاست کی جو مروج تعریف ہے، اس کے مطابق کامیاب سیاستدان وہ کہلاتا ہے، جو سیاست کو ڈبل شاہ بننے کے لئے استعمال کرے، جو جتنا بڑا ڈبل شاہ ہوتا ہے، اسے اتنا ہی زیادہ کامیاب سیاستدان سمجھا جاتا ہے۔ وزیر آباد والے مرحوم ڈبل شاہ اور سیاسی ڈبل شاہوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ مرحوم ڈبل شاہ لوگوں کو رقم ڈبل کرنے کے سہانے خواب دکھا کر ان سے رقوم براہ راست لیتا تھا، جبکہ سیاسی ڈبل شاہ یہ کام بالواسطہ طور پر کرتے ہیں۔ وہ الیکشن سے پہلے عوام کو ترقی کے سہانے خواب دکھاتے ہیں، ان سے ووٹ لیتے ہیں اور پھر اپنی تجوریاں بھرنے میں لگ جاتے ہیں۔ عام طور پر پاکستان میں سب سے زیادہ کامیاب سیاستدان آصف زرداری کو سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے تو اپنے لئے ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کا نعرہ بھی ایجاد کرا رکھا ہے، لیکن ان سطور میں ہمیشہ ہم نے لکھا ہے کہ یہ پیپلز پارٹی کا پبلسٹی اسٹنٹ ہے، ورنہ زرداری کسی طور پر کامیاب سیاستدان نہیں، ان کی چالیں بھی اکثر ان پر ہی الٹی ہوتی رہی ہیں۔ انہیں ورثے میں ایک ملک گیر جماعت ملی تھی، جو انہوں نے پانچ برسوں میں ایک صوبے تک سمیٹ دی، پھر یہاں سیاسی ڈبل شاہوں کی فوج ظفر موج موجود ہے، لیکن جو ’’مشہوری‘‘ انہیں میسر آئی، وہ کسی کو نہیں آئی۔ یہ بھی ان کی ناکامی کا اظہار ہے۔ اسی طرح یہاں سیاسی ڈبل شاہ تو پکڑائی نہیں دیتے، لیکن آصف زرداری دو تین بار پہلے پکڑے جا چکے ہیں اور اب ایک بار پھر سر پر تلوار لٹک رہی ہے۔
سیاست کی مروج تعریف کے مطابق اگر کسی کو سب سے کامیاب سیاستدان کہا جا سکتا ہے تو وہ گجرات کے چوہدری برادران ہیں، جو ہمیشہ اپنے پتے بڑی ہوشیاری سے کھیلتے ہیں، کبھی اپنے دامن پر چھینٹا بھی نہیں آنے دیتے۔ ان پر الزامات بھی لگیں تو لوگ بھول جاتے ہیں۔ ان کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ وہ جنرل ضیاء الحق سے لے کر نواز شریف کے ساتھ اقتدار میں رہے، پرویز مشرف آئے تو ان کے اوپنر سیاسی کھلاڑی بننے میں ذرا تامل کا مظاہرہ نہ کیا، پھر پیپلز پارٹی آئی، پی پی پی اور گجرات کے چوہدریوں کے ملاپ کا تو کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، یہ تو آگ اور پانی کے ملاپ کے مترادف تھا، کیوں کہ زرداری بھٹو کے داماد تھے تو دوسری جانب گجرات کے چوہدری برادران میں سے ایک یعنی چوہدری شجاعت چوہدری ظہور الٰہی کے بیٹے اور دوسرے پرویز الٰہی ان کے بھتیجے اور داماد، چوہدری ظہور الٰہی کے قتل کا الزام پی پی پی پر لگا تھا اور چوہدری برادران کی برسوں کی سیاست پی پی پی دشمنی پر مبنی تھی، لیکن پھر چشم فلک نے اس انہونی کو بھی ہونی میں بدلتے دیکھا اور بھٹو کے داماد کی حکومت میں چوہدری ظہور الٰہی کے داماد نائب وزیر اعظم بن گئے۔ چوہدری برادران پرویز مشرف کے سب سے قریب تھے۔ پرویز الٰہی کے پاس تو پنجاب کا اقتدار تھا، لیکن پھر بھی آپ دیکھیں کہ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے مشرف پر پڑنے والا بوجھ اپنے اوپر نہ آنے دیا۔ مشرف کا ساتھ ہونے کے باوجود لال مسجد اور اکبر بگٹی کے قتل جیسے واقعات میں وہ اپنے دامن کو بچا گئے، حالاں کہ دونوں معاملات میں چوہدری شجاعت مشرف حکومت کی طرف سے مذاکرات بھی کرتے رہے تھے۔ پرویز مشرف کمزور ہونا شروع ہوئے تو انہوں نے بڑی خوبصورتی سے جنرل کیانی کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنا شروع کردیا، مشرف کی خواہش کے برعکس افتخار چوہدری کے قافلے کو روکنے سے انکار کر دیا۔
سیاسی حکومتیں بحال ہونے کے بعد ملک میں پہلا بڑا مالیاتی اسکینڈل پنجاب کوآپریٹو اسکینڈل آیا تھا، یہ ڈبل شاہ طرز کی ہی واردات تھی۔ کو آپریٹو بینک کھول کر زیادہ منافع کا لالچ دے کر لوگوں کو پیسے جمع کرانے کی ترغیب دی گئی اور پھر اچانک پیسے لے کر انہیں بند کر دیا گیا۔ اس اسکینڈل میں سب سے زیادہ چوہدری برادران کا نام آیا تھا، لیکن انہوں نے بڑی حکمت سے خود کو نکال لیا۔ ان کی شوگر ملیں تھیں، لیکن جب انہیں لگا کہ پرویز مشرف کی رخصتی کا وقت قریب آرہا ہے اور آگے ان کے لئے مشکلات ہو سکتی ہیں تو انہوں نے پیشگی ملیں بیچ دیں۔ ان کے خلاف سرمایہ اسپین منتقل کرنے کی آوازیں سنائی تو دیں، مگر انہوں نے ان آوازوں کو توانا نہیں ہونے دیا اور آہستہ آہستہ خاموشی ہوگئی۔ این آئی سی ایل اور پنجاب بینک کیس میں تو ایک وقت میں مونس الٰہی اور پرویز الٰہی پھنستے نظر آرہے تھے، لیکن ن لیگ جیسی طاقتور مخالف جماعت کے ہوتے ہوئے بھی انہوں نے خود کو بچا لیا اور اب بھی نیب اگر کسی جماعت کے حوالے سے آپ کو خاموش نظر آئے گا تو وہ قائد لیگ ہوگی۔ یہی ان کی سیاست کی کامیابی ہے۔
دوسری طرف پی پی پی قائد ہیں، وہ سیاست میں آئے تو مسٹر ٹین پرسنٹ کا لاحقہ لگوالیا، پھر کبھی سرے محل اور کبھی سوئس اکائونٹ، آج کل اومنی گروپ، وہ تو پوری تاریخ میں اپنے بارے میں مثبت تاثر قائم نہیں کر سکے۔ اس لئے سیاسی طور پر اگر کوئی کامیا ب قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ چوہدری برادران ہیں۔ آصف زرداری نہیں۔
چوہدری برادران کی سیاسی کامیابی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ فرنٹ پر آکر کھیلنے سے پرہیز کرتے ہیں، پھر رواداری ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ ہر ایک کے گھر جانے اور مدعو کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ریاست کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ چوہدری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں پنجاب میں ہونے والے ترقیاتی کام بھی ان کا کریڈٹ ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی نے پانچ برسوں میں جو کام کرائے تھے، وہ شہباز شریف تیرہ سالہ اقتدار میں بھی نہیں کرا سکے۔ ریسکیو سروس ہو یا ٹریفک وارڈن اور مختلف شہروں میں جامعات یا ان کے کیمپس، یہ کام آج بھی چوہدری پرویز الٰہی کی یاد دلاتے ہیں۔ دیہی علاقوں کو بھی ان کے دور میں توجہ اور ترقی ملی۔
سچی بات یہ ہے کہ دور بدل گیا، اب سوشل میڈیا اور اینڈرائیڈ کا دور آگیا، جس نے سیاست کو بھی بدل دیا ہے، اب مقبول سیاست ہی ملک میں چل سکتی ہے، جوڑ توڑ کی جگہ مقبول لیڈر کا دور آگیا ہے، ورنہ اگر پرانے دور کی پی ٹی سی ایل فون اور اخبارات والی روایتی سیاست ہوتی تو چوہدری برادران میں اتنی سیاسی مہارت ہے کہ وہ آج حکمران ہوتے، مگر اب بھی وہ اپنی مہارت کا مظاہرہ دکھاتے رہتے ہیں۔ پنجاب میں ان کی سات نشستیں ہیں، لیکن دو وزارتیں لے اڑے ہیں۔ اسپیکر شپ پہلے ہی ان کے پاس ہے۔ باقی ارکان کو بھی قائمہ کمیٹیوں میں ایڈجسٹ کرانے کے چکر میں ہیں۔
صوبے میں پرویز الٰہی خود کو طاقت کے ایک مرکز کے طور پر سامنے لارہے ہیں۔ اس میں عثمان بزدار جیسے کمزور فرد کو وزیر اعلیٰ لگا کر عمران خان نے خود ہی ان کی مدد کر دی ہے۔ گورنر پنجاب چوہدری سرور ہوشیار ہیں۔ ان کے راستے میں رکاوٹ ہو سکتے ہیں، تو انہیں کارنر کرنے کے لئے بھی چوہدری برادران لگے رہتے ہیں۔ ویڈیو لیک کرانا بھی اسی کا حصہ تھا۔ ادھر وفاق میں بھی پانچ ارکان میں سے ایک طارق بشیر چیمہ کو وہ پہلے ہائوسنگ جیسی اہم وزارت دلوا چکے ہیں۔ اب پرویز الٰہی اپنے بیٹے مونس الٰہی کو بھی وزیر بنوا رہے ہیں۔ اگر سیاست کی تعریف وہی ہے، جو ہمارے ملک میں مروج ہے تو سب سے کامیاب سیاستدان چوہدری برادران ہی ہیں۔ ہاں البتہ مجھے ذاتی طور پر ایک افسوس ہے کہ ان کی اگلی نسل یعنی مونس الٰہی بھی کرپشن الزامات اور نیب تحقیقات کی زد میں ہیں۔ کاش! وہ اپنی نئی نسل کو اس سے محفوظ رکھتے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment