ملائیشیا کے تاریخی شہر ملاکا میں مسلسل ایک طویل عرصہ رہا ہوں، تقریباً دس برس تک اور اس سے قبل جہاز کے یہاں آنے کے سبب ملائیشیا کے مخلتف شہر اور بندرگاہوں میں گھومتا پھرتا رہا ہوں، ملائیشیا چھوڑنے کے بعد بھی یہاں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ہر مرتبہ ملائیشیا آنے پر میں ملاکا ضرور آتا ہوں، مجھے ملاکا میں بہت کشش محسوس ہوتی ہے، ہر بار یہ شہر زیادہ رنگین محسوس ہوتا ہے۔ کلچر کے لحاظ سے لوگوں کی وجہ سے، کھانے پینے، لباس ساز و سنگیت، عبادت گھروں اور باغوں باغیچوں کے حوالے سے بھی!
آج سے چالیس سال قبل، جب ملاکا میں میرا پہلی مرتبہ آنا ہوا تھا اور آج بھی ڈچوں کی تعمیر شدہ سُرخ عمارتوں کے سامنے نصب انگریز ملکہ وکٹوریا کے فوارے کے قریب بیٹھ کر بھانت بھانت کے لوگوں کو دیکھتے ہوئے اور ان کی باتیں سن کر، ان کے چہروں پر کھلتی مسکراہٹوں کو دیکھ کر وہی لطف آتا ہے جو بچپن میں ہالا میں پیپل کے پیڑ کے نیچے ہندوؤں کے نار کے پاس بیٹھ کر آنے جانے والے بچوں، مردوں اور عورتوں کو دیکھ کر آتا تھا۔ ان مقامات پر کسی قدر سکون اور راحت محسوس ہوتی ہے۔ ملاکا میں نہ صرف ملکہ وکٹوریا کے فوارے کے قریب بلکہ دوسرے کئی مقامات پر جانے کے لیے بھی مجھے گویا کشش محسوس ہوتی ہے۔ شہر کی یہ مساجد، مندر، مارکیٹیں، باغیچے اور پاسار مالمون (رات بازار) میرے لیے کسی میلے سے کم حیثت نہیں رکھتے۔ میں اس وقت یہی سوچ رہا ہوں کہ ایک غیر ملکی سیاح کو ملاکا پہنچ کر کیا کیا کچھ دیکھنا چاہیے، تاکہ اگر وہ ایک دو دن کے لیے بھی یہاں آئے ہمیں تو ملاکا کی سیاحت سے ٹھیک طور پر لطف اندوز ہو سکیں۔
میرے خیال کے مطابق ملاکا پہنچ کر اس شہر کی کچھ اہم مساجد ( قدیم اور نئی) ضرور دیکھیں۔ ملاکا مسجدوں کا بھی شہر ہے، ہم جیسے لوگ، جو اس ملک ملائیشیا یا انڈونیشیا، تھائی لینڈ، مشرقی چین، کمبوڈیا، برونائی جیسے مشرق بعید اور جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں سے تعلق نہیں رکھتے، بلکہ برصغیر، ایران اور عرب ملکوں سے ہے تو انہیں یہاں کی مساجد دیکھ کر ضرور لطف آئے گا اور حیرت بھی ہوگی، کیونکہ یہاں کی قدیم اور نئی مساجد کی عمارت سازی اور ڈیزائن کا انداز سماترا، جاوا، کبوڈیا کے چینی اور بدھ عبادت گاہ جیسا ہے۔ جہاں تک خوبصورتی، اعلیٰ قسم کی سجاوٹ، بناوٹ وزیبائش کی بات ہے تو اس میں ملائیشیا کے ہر شہر، قصبے اور گاؤں کی مسجد اور، سوارؤ، (SURAU) یعنی چھوٹی مسجد اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں کا سرکاری مذہبی ڈپارٹمنٹ (جباتان اُگاما) دیگر مذہبی معاملات کے ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھتا ہے کہ ہر مسجد اردگرد کی عمارتوں سے زیادہ خوبصورت دیدہ زیب ہو۔ یعنی اس میں استعمال ہونے والی اینٹیں، پتھر سے لے کر مٹی، سیمنٹ تک اور دروازوں کے کنڈوں سے بجلی کے سوئچ اور وضو خانے کے نلکوں تک ہر چیز اعلیٰ معیار کی استعمال ہو، جو مساجد سرکاری سر پرستی میں تعمیر کی گئی ہیں، انہیں دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آتے ہیں، جیسا کہ حال ہی میں تعمیر کی جانے والی، مسجد سیلات ملاکا ’’Malacca Strait masque‘‘ کو دیکھنے کا مشورہ مجھے میرے میزبان ڈاکٹر عطا نے دیا اور انہوں نے واقعی درست کہا تھا۔ نہ صرف اس مسجد کو دیکھ کر بلکہ اس کی تصویر دیکھ کر میرے فیس بک کے کئی دوستوں نے Comments دیتے ہوئے خوب تعریف کی تھی۔
اب مسجد سیلات کی بات نکلی ہے تو پہلے اس پر چند سطریں تحریر کرتا چلوں، پھر اس شہر ملاکا، جسے میں اپنا شہر سمجھتا ہوں، اس کی دیگر چند مساجد کا بھی مختصر احوال لکھوں گا۔
یہ مسجد ملاکا سے گزرنے والے ملاکا اسٹرائٹ کے کنارے پر واقع ہے۔ سمندر کے اس حصے (Straits) کے بارے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ سمندر کی وہ تنگ گزرگاہ جو دو سمندروں کو ملاتی ہے، اسے انگریزی میں ’’اسٹرائٹس‘‘ کہتے ہیں۔ اس نہرنما تنگ سمندری راستے کا بین الاقوامی نام Malacca Strllits ہے۔ حالانکہ یہ آبی گزرگاہ اس قدر طویل ہے کہ اسے عبور کرنے کے لیے ہمارے جہاز کو دو دن اور دو راتیں چلنا پڑتا تھا۔ اس سمندری دریا پر نہ صرف ملاکا بلکہ پینانگم لنگوری، پورٹ کلانگ، جوہر بارا اور آخر میں سنگاپور واقع ہے۔ جہاں یہ
بحیرئہ چین سے جا ملتا ہے، جیسا کہ پرانے زمانے میں صرف ملاکا شہر کا وجود تھا، اس لیے اس آبی گزرگاہ کا نام ’’ملاکا اسٹرائٹ‘‘ اور ملئی زبان میں ’’سیلات ملاکا‘‘ لکھا ہوا ہے۔ ملئی زبان میں سیلات کا مطلب بھی وہی ہے۔ اس مسجد کا نام بھی مسجد سیلات ملائیشیا ہے، ویسے یہ سمندر کی پتلی پٹی ایسی تنگ بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا دوسرا کنارہ جو انڈونیشیا کا بڑا جزیرہ سماترا ہے، اس کے کنارے والے پہاڑ صرف صاف موسم ہی میں نظر آتے ہیں۔ بہرحال ملاکا شہر کے قریب اس تنگ سمندر میں ایک مصنوعی جزیرہ بنایا گیا ہے، جس کا نام ’’ملاؤ ملاکا‘‘ ہے۔
ملئی زبان میں ’’ملاؤ‘‘ کا مطلب ہی جزیرہ ہے اور اس جزیرے کے کنارے پر اس طرح مسجد تعمیر کی گئی ہے کہ اس کا اگلا مختصر حصہ زمین پر ہے اور باقی حصے کو ستونوں کے ذریعے سنبھالا گیا ہے۔ ہائی ٹائیڈ کے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے مسجد پانی پر تیر رہی ہے۔ اس لیے اس مسجد کے Masjid Terapung اور Floating Masque بھی کہا جاتا ہے۔ ملئی زبان میں اپنگ کا مطلب ہے تیرنا۔ اس لفظ کے آگے Ter (تر) لکھنے سے بنے گا تیرنے والا/ والی۔ ملئی زبان کے کئی الفاظ کے آغاز میں ’’تر‘‘ لکھنے سے وہ فعل سے اسم، صفت یا ظرف بن جاتے ہیں یعنی Balik یعنی لوٹنا ہے۔ اس سے پہلے ’’تر‘‘ لکھنے سے لفظ بنے گا Terabalik یعنی پلٹا ہوا، اوندھا۔ ایک دوسرا لفظ بارو ہے یعنی نیا، اس طرح تر بارو کا مطلب ہوگا نیا نکور، بالکل نیا۔ ملئی لفظ آغاز میں نہ صرف ’’تر‘‘ بلکہ Mem . Ber اور Pen لگانے سے مختلف معانی پیدا ہوتے ہیں۔
اس مسجد کا افتتاح 24 نومبر 2006ء کو اس وقت کے بادشاہ تیانکو سید سراج الدین نے کیا۔ اس مسجد کے مقابل جو روڈ گزرتا ہے اس کا نام ’’جالان ملاکا رایا‘‘ ہے۔ میرے خیال کے مطابق یہ ایک ایسی مسجد ہے، جسے ملاکا آنے والے ہر سیاح کو دیکھنا چاہیے۔ ایران اور عربستان میں کئی اس سے بڑی اور ماڈرن مساجد موجود ہیں، لیکن اس مسجد کا ڈیزائن اور سمندر میں ہونے کے سبب کئی عرب اور ایرانی بھی اس کے فوٹو بناتے ہوئے نظر آئے۔ اس کے علاوہ ملاکا کی چند درج ذیل مساجد بھی دیکھنے کے قابل ہیں۔
ایک ماڈرن مسجد جو میری ملاکا میں موجودگی کے دوران تعمیر ہوئی، وہ مسجد العظیم ہے۔ یہ مسجد شہر کے وسط میں ملاکا اسپتال کے قریب شاہ راہ بُکت بارو پر واقع ہے۔ اگر آپ کا وہاں سے گزر ہو تو چند گھڑیاں رک کر اسے اندر سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مسجد کا تعمیری کام 1984ء میں شروع ہوا۔ 1990ء میں اس وقت کے بادشاہ سلطان اذلان شاہ نے اس کا افتتاح کیا۔ یہ بادشاہ ہاکی کے حوالے سے ہمارے ہاں بھی کافی مشہور ہیں۔ ملائیشیا کے تمام بادشاہوں میں سے انہیں زیادہ تعلیم یافتہ سمجھا جاتا ہے۔ بادشاہ ہونے سے قبل وہ ملک کی ہائی کورٹ کے جج بھی رہے ہیں۔
اس مسجد کی تعمیر میں چینی ہنرمندی اور مقامی ملئی عمارت سازی حُسن نمایا ہے۔
ملاکا کی پرانی مساجد میں سے مسجد تنغکرا (Tranguerah mosque) میں میرا کثرت سے آنا جانا رہا ہے۔ کیونکہ ملاکا شہر جاتے اور وہاں سے واپسی پر میراگزر وہیں سے ہوتا تھا۔ آخر جمعہ اور عصر کی نماز اسی مسجد میں پڑھتا تھا۔ کبھی کسی قریبی دوست سے ملنے کے لیے یا کوالالمپور، سنگاپور سے ملاکا آنے والے مہمانوں سے ملنا ہوتا تو انہیں پتا سمجھانے کیلئے اس مسجد کا حوالہ دیتا تھا جو ملاکا کی مشہور مسجد ہے۔ ایک اہم شاہراہ جالان ترنغکرا پر ہونے کی وجہ سے ہر کوئی اس سے واقف ہے۔ اس کے قریب یہاں کا مشہور ملئی اسکول گاجا بیرانگ سیکنڈری اسکول پہلے ہی تھا اور اب ’’انٹر نیشنل اسکول‘‘ کھلنے کے بعد ملاکا میں رہنے والے غیر ملکی بھی اس روڈ اور اس مسجد سے واقف ہیں۔ اس کے علاوہ مذکورہ مسجد کے قریب کچھ اور اہم چیزیں بھی ہیں، جن میں ہر ٹورسٹ کی دلچسپی رہتی ہے۔ مثلاً: کمپونگ چٹی (چٹی گوٹھ) لیگیسی ہوٹل، سوراؤ مسجد اور شاپنگ کے لیے جایا مودا پلازہ۔
مسجد ترتغکرا، جسے Tengkera بھی کہا جاتا ہے، 1728 میں تعمیر ہوئی جب ملاکا پر حکومت کرنے والے ڈچوں نے عیسائیت کے علاوہ دیگر مذاہب کو بھی آزادی دی۔ اسی برس یہاں کی ایک دوسری قدیم مسجد ’’کپونگ ہولو‘‘ بھی تعمیر ہوئی۔ مسجد تنغکرا کو پہلی بار مکمل طور پر چوب سے بنا یا گیا تھا۔ یہاں جنگلات کی کثرت کے سبب لکڑی وافر اور سستی ہے۔ آج بھی دیہی علاقوں کے گھر مکمل طور پر یعنی چھت، دیواریں حتیٰ کہ فرش تک لکڑی کے بنائے جاتے ہیں۔ نصف صدی کے بعد 1780 میں اس مسجد میں تبدیلیاں لائی گئیں اور میں آپ کو ہمارے ہاں کے طرح گنبد نظر نہیں آئے گا، بلکہ یہ اہرام (Pyramid) کی طرح نظر آتی ہیں۔ عموماً ایک ہی مینار ہوتا ہے، وہ بھی ہماری مساجد سے مختلف ہوتا ہے۔
اس مسجد کے صحن میں ’’جوہر‘‘ ریاست کے ایک سلطان حسین محمد شاہ کا مقبرہ ہے۔ یہ وہی سلطان ہیں جنہوں نے اپنی ریاست جوہر کے قریب واقع کچھ ویران جزیروں میں سے ایک جزیرہ 1819 میں اسٹمفرڈ ریلفز کو فروخت کر دیا تھا اور یہ جزیرہ سنگاپور تھا۔
سن 1728 میں مسجد تنغکرہ کی تعمیر ہوئی اور اسی برس ملاکا میں ایک اور مسجد ’’کمپونگ ہولو‘‘ تعمیر ہوئی تھی۔ یہ مسجد جالان تکانگ اماس پر واقع ہے، یہ سڑک ہارموئی اسٹریٹ بھی کہلاتی ہے۔ اسے Harmony یعنی پر سکون روڈ شاید اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں ہندوؤں کا مندر ’’سری پا یا تھا و یانگر مورتی‘‘ چینیوں کا مندر ’’ چینگ ہون تینگ‘‘ اور ایک دوسری قدیم مسجد ’’کمپونگ کلنگ‘‘ بھی واقع ہے۔ 285 برس قبل ملاکا کی ملئی کمیونٹی کے لیڈر ’’کپیتان داتو شمس الدین الونگ‘‘ تھے۔ مسجد کپونگ ہولو انہی نے تعمیر کرائی تھی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کپیتان چین سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے اور انہیں ’’سن شیہلن‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ چین سے ملاکا آرہے تھے۔ ان کا بحری جہاز سمندری لہروں اور طوفان کا مقابلہ نہ کر سکا اور پاش پاش ہوگیا۔ وہ ایک چوبی تختے کے ذریعے نیم مردہ حالت میں ملاکا کے ساحل پر پہنچ گئے۔ جہاز کے حادثے کے دوران انہوں نے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ اگر ان کی زندگی بچ گئی تو وہ اسلام قبول کر لیں گے۔ مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے اپنا اسلامی نام شمس الدین رکھا۔ اس کے ساتھ ہی انہیں ان کے پرانے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔یہ مسجد بھی سماترائی طرز کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسجد کی تعمیر میں چینی اور ڈچ عمارت سازی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ بہرحال مذکورہ بالا دونوں قدیم مساجد اور تیسری کمپونگ کلنگ مسجد، جو ایک دوسرے کے قریب واقع ہیں۔ انہیں ضرور دیکھنا چاہیے۔ دوسری صورت میں ان مساجد کی تصاویر دیکھ کر بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس سر زمین پر قدیم مساجد کس اسٹائل کی تھیں۔ (جاری ہے)